Wednesday, 15 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Shadi Ke 26 Saal

Shadi Ke 26 Saal

شادی کے 26 سال

جب ہماری شادی ہوئی تو میں 26 سال کا تھا۔ کل یعنی 3 جنوری کو اس رفاقت کے 26 سال مکمل ہوگئے۔ گویا نصف زندگی نصف بہترکے نام رہی۔ آگے اس میں اضافہ ہونا ہے۔

انسان پیدا ہوتے ہی ہوش نہیں سنبھالتا۔ پہلی یاد کئی سال بعد محفوظ ہوتی ہے۔ چیزیں سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم شعور والی زندگی کا بڑا حصہ شریک حیات کے ساتھ گزارتے ہیں۔

میں امریکا کے ایک ہائی اسکول میں پڑھاتا ہوں۔ یہاں بچوں کو صرف پڑھایا اور پاس نہیں کروایا جاتا، انھیں کارآمد شہری بنایا جاتا ہے۔ محکمہ تعلیم رہنما اصول فراہم کرتا ہے کہ جو بچے اعلی تعلیم کے قابل نہ ہوں، انھیں ہنر سکھائے جائیں تاکہ وہ پیسے کماسکیں۔

ایک اور اہم بات۔ جب میں اپنا مکان خرید رہا تھا تو مجھے ایک لازمی کورس کرنے کو کہا گیا۔ اس میں بتایا گیا کہ مکان کے ساتھ کچھ ذمے داریاں ادا کرنا پڑتی ہیں۔ اس کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے، بل ادا کرنے ہوتے ہیں، کمیونٹی یا ہاوسنگ سوسائٹی سے تعلق رکھنا پڑتا ہے۔

افسوس کہ امریکا یا پاکستان میں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں سکھاتا، کوئی کورس میں نے نہیں دیکھا، جس میں کامیاب شادی اور شریک حیات کے ساتھ اچھی زندگی کے گر سکھائے جاتے ہوں۔

ریاست اس لیے آپ کو کارآمد شہری بنانا چاہتی ہے کہ آپ کمائیں اور اسے ٹیکس ادا کریں۔ بینک اس لیے مکان سنبھالنے کا کورس کرواتا ہے تاکہ آپ لون کی قسط وقت پر ادا کرسکیں۔ لیکن ازدواجی زندگی آپ کا ذاتی معاملہ ہے اس لیے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ امریکا اور پاکستان میں بیشتر شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں۔ امریکا میں الگ ہونا آسان ہے، پاکستان میں بہت سے جوڑے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ لیکن ساتھ رہنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ شادی کامیاب چل رہی ہے۔ میں نے ایسے جوڑے دیکھے ہیں جنھوں نے پچاس سال ساتھ گزارے لیکن ایک دن خوش نہیں رہے۔

ہم میاں بیوی تھوڑے خوش قسمت ہیں اور تھوڑے سمجھ دار کہ ایک کام کی بات پہلے دن جان لی۔ یہی کہ ازدواجی زندگی کی کامیابی میں محبت کم اور سمجھوتوں کا کردار زیادہ ہوتا ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ بیوی نے زیادہ سمجھوتے کیے کیونکہ ہمارا معاشرہ خواتین سے زیادہ قربانیاں مانگتا ہے۔

ہمارے امروہے میں بھی اب طلاقیں ہونے لگی ہیں لیکن پچھلی نسل میں یہ لفظ سننے کو نہیں ملتا تھا۔ شادیاں اپنی برادری میں ہوتی تھیں اور چاہے کتنی محلاتی سازشیں ہوں، کیسی بھی تلخیاں ہوں، ہر حال میں نباہی جاتی تھیں۔ میں نے کئی مثالوں پر غور کیا تو ایک بات سمجھ آئی۔ یہ کہ چند ابتدائی مشکل سال گزر جائیں تو میاں بیوی کو ایک دوسرے کی عادت ہوجاتی ہے۔ پھر چاہے پیار کریں یا صبح شام لڑیں، ایک دوسرے کے بغیر رہا نہیں جاتا۔

شادی کے 26 سال بعد کم از کم میرا یہی حال ہے۔ گزشتہ سال بیوی پاکستان گئی تو میں بے کل رہا۔ پھر میں اسرائیل گیا تو وہ خفا رہی۔

گھر پر ہوں تو نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔ مجھے کتابوں اور فلموں کے ڈائیلاگ یاد کر کرکے مارنے پڑتے ہیں۔ بیوی کری ایٹو ہے اس لیے تخلیقی جملے بازی کرتی ہے۔ اسی لیے ان جنگوں کا اختتام تلخی کے بجائے قہقہوں پر ہوتا ہے۔

Check Also

Baap Ya Psychiatrist

By Shahzad Malik