Zamano Ki Awaz
زمانوں کی آواز
ابھی کل کی بات ہے مگر اِن قصوں کو گویا زمانے ہو گئے۔ اب تو مہ و سال کے پرندے ہیں جو یادوں کے گھونسلوں میں آبسے ہیں۔ مَیں اکادمی ادبیات میں نوکری کا بسیرا رکھتا تھا اور دکان وہاں ایک کتابوں کی چلاتا تھا۔ کتاب گھر میں انڈو پاک کے تمام اردو پبلشروں سے انتخاب قسم کی دس ہزار کتابیں جمع کر دی تھیں اور اُنھیں سستے داموں ادب کے قاریوں پر کھول دیا تھا۔ تب میرا شمار اُن گمنام چھوکروں میں ہوتا تھا جنھیں لوئرکلاس کلرک کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور سوائے باس کے کوئی نہیں جانتا۔
مَیں اکادمی بک شاپ پر بیٹھا فقط کتابیں پڑھتا تھا۔ اگر نہ پڑھتا تو وہاں دوسرا کام مکھیاں مارنے کا ہوتا جیسا کہ باقی تمام دفتر مار رہا تھا۔ اِس عالم میں ایک بی بی روزانہ مجھ سے ایک کتاب لے جاتی، دوسرے دن پڑھ کر وآپس کر جاتی۔ یہ بی بی فہمیدہ ریاض تھی۔ یہ اور اِن کے شوہر ظفر اُجن اکادمی ادبیات کے رائٹر ہاوس میں ٹھہری ہوئے تھے اور طویل عرصہ وہیں رُکے رہے کہ اُن دِنوں اُنھیں اسلام آباد میں ملازمت ملنے کی اُمید تھی۔
فہمیدہ ریاض مجھ سے کوئی بات نہ کرتی۔ وہ مجھے محض ایک کتب فروش سمجھتی تھی اور مَیں اُن کی عظمت کے آگے دُبکا ہوا تھا۔ اِس لیے آشنائی کی جرات نہ کرتا تھا۔ کتابوں کی الماریوں سے کوئی کتاب نکال کر کہتیں، لڑکے، یہ لے جا رہی ہوں۔ مَیں ہاں میں سر ہلا دیتا اور وہ اُٹھا کر لے جاتیں۔ کبھی کبھار افتخار عارف صاحب کے کمرے میں جا کر گپ شپ لگا لیتیں اور کبھی عاصم بٹ صاحب کے کمرے میں بیٹھ جاتی۔ ورنہ فقط کتاب سے ربط رکھتیں۔ مَیں بھی اپنی بک شاپ میں بیٹھا کتابیں پڑھتا لیکن جیسے ہی بی بی فہمیدہ کمرے میں داخل ہوتیں، مَیں کتاب سامنے کی دراز میں ٹھونس دیتا اور اُنھیں دیکھتا۔
ایک ماہ یہ سلسلہ یونہی چلا۔ ایک دن کتاب گھر میں داخل ہوئی، ایک کتاب اُٹھائی اور باہر نکلنے سے پہلے مجھ سے مخاطب ہو کر بولی۔ تم کیا یہاں فارغ بیٹھے مکھیاں مارتے رہتے ہو۔ اِتنی کتابیں پڑی ہیں، پڑھتے کیوں نہیں؟ دیکھو یہ ایک خزانہ ہے اور خدا نے تجھے موقع دیا ہے مگر تم وہی کلرک کے کلرک بیٹھے ہو۔ کتابیں پڑھا کرو۔ مَیں نے کہا جی ضرور پڑھا کروں گا؟ پھر کہنے لگی، کیا آپ مجھے جانتے ہو، مَیں نے کہا! آپ اِس ملک کی مشہور شاعرہ اور افسانہ نگار فہمیدہ ریاض ہو آپ کا افسانہ "جھنو کو چِٹھی ملی" بہت اچھا لگا۔ اِس بات پر وہ ایک دم چونکی، تھوڑا سا رُکی اور مجھے غور سے دیکھنے لگی پھر بولی اور کیا اچھا لگا؟
"پتھر کی زبان" والی نظمیں بھی کمال ہیں۔ ہائیں، اُس نے حیرانی سے مکمل آنکھیں کھول کر دیکھا مگر پھر کچھ بولی نہیں اور دروازے سے نکل گئی۔ ایک دن ایسا ہوا کہ فہمیدہ ریاض کے ہاتھ میں دنیا زاد کا ایک رسالہ تھا، وہ پکڑے ہوئے آئی اور کہنے لگی، دیکھو یہ رسالہ ہے۔ یہ ملک کا مشہور رسالہ ہے۔ مَیں بھی اِس میں چھپتی ہوں۔ اِس بار اِس کے اندر بہت ہی خوبصورت نظمیں چھپی ہیں جو بالکل نئی اور اچھوتی ہیں۔ یہ کوئی نوجوان علی اکبر ناطق ہے۔ پنجاب سے ہے۔ تم بھی اِنھیں پڑھو اور اِس کا پتا معلوم کرو۔ مَیں نے کہا جی ضرور پتا کرتا ہوں۔
تب وہ ایک کتاب اُٹھا کر باہر نکلی اور عاصم بٹ کے کمرے میں چلی گئیں۔ اُن سے کہنے لگیں، عاصم اِس بار کے دنیا زاد میں ایک شاعر کی نظمیں چھپی ہیں۔ بالکل مختلف اور نہایت اچھی نظمیں ہیں۔ یہ کوئی علی اکبر ناطق ہے۔ نوجوان ہے۔ مَیں نے پہلے اِس کا نام نہیں سُنا۔ عاصم بٹ نے جواب دیا، یہ بک شاپ میں جو لڑکا بیٹھتا ہے۔ یہی ہے وہ علی اکبر ناطق ہے جوسارا دن کتابیں پڑھتا ہے اور دھوپ سینکتا ہے۔ یہ سُنتے ہی آپا فہمیدہ ریاض میرے پاس آئیں اور آتے ہی مجھے گلے لگا لیا۔ کہنے لگی تم تو بہت میسنے نکلے ہو۔ کچھ بتایا کیوں نہیں؟ مَیں نے کہا آپ نے کبھی پوچھا ہی نہیں۔ اچھا اب چائے لائو، یہیں بیٹھ کر پیتے ہیں۔
یہ میری فہمیدہ ریاض سے پہلی ملاقات کا واقعہ ہے اور کم و بیش اسلام آباد کے سب دوستوں کو اِس کی خبر ہے۔ اُس کے بعد تو یوں ہوا کہ اُنھوں نے اُسی بُک شاپ کو مسکن بنا لیا۔ وہ کتاب لے کر جانے کی بجائے وہیں ایک کُرسی پر بیٹھ جاتیں اور پڑھے جاتیں، پھر مجھ سے اُس کے بارے میں باتیں چیتیں شروع کر دیتیں۔ مجھ سے میری نئی نظمیں سُنتیں، اپنی سناتیں، تب وہ ایک نظم "تُم کبیر، لکھ رہی تھیں۔ یہ نظم اُن کے جواں مرگ بیٹےکی یاد میں تھی۔ اِس نظم کو وہ سناتے ہوئے ایسے کسی گہرے سمندر میں ڈوب جاتی اور رقت میں چلی جاتی کہ مجھے اُن پر حواس باختگی کا شُبہ ہونے لگتا۔ بعض دفعہ اُونچی آواز میں رونے لگتیں۔ کہتیں ناطق تم جانتے ہو، اگر کبیر نہ مرتا تو اِس وقت تمھاری عمر کا ہوتا۔
مَیں اُس وقت اُن سے کتنا ہی چھوٹا ہوں مگر ایک شاعر کی حیثیت سے اُن کے درد سے واقف ضرور تھا، کہ تب تو میرا چھوٹا بھائی علی اصغر بھی حال ہی میں فوت ہوا تھا۔ ایک طرح سے باہم درد کے فاصلے ملے ہوئے تھے۔ مَیں گاہے گاہے اُن کے لیے چائے لاتا۔ وہ سگریٹ جلا لیتی، چائے نوش کیے جاتی اور کچھ نہ کچھ پڑھے جاتی۔ کبھی کبھی بہت اصرار پر بھی کوئی نظم نہ سناتی اور کبھی دس دس نظمیں سنا دیتی۔ مجھ سے اُن کی ملاقاتوں کا یہ سلسلہ قریب ایک سال جاری رہا اور ایسے کہ ہم چائے کے علاوہ کھانا بھی اکٹھے کھاتے۔ پھر جب (آج) کےرسالے میں میرے افسانے چھپے تو وہ مزید مجھ پر مہربان ہوئیں اور(شہابو خلیفہ کا شک) والے افسانے کو بار بار پڑھ کر سناتی اور مجھے داد دیتی۔ وہ میری نظموں اور شاعری کی اتنی تعریف کرنے لگیں کہ کچھ نہ پوچھیے۔
عین اُسی ڈھب سے جیسے سودا بیچنے والے راہ گیروں کو پکڑ پکڑ کر بتاتے ہیں، میاں یہ مال اچھا ہے اور دام بھی سستے ہیں، لیتے جائو۔ اِسی طرح فہمیدہ میرے افسانوں اور نظموں کے بارے میں قارئین کے شانے ہلا ہلا کر بٹھاتی اور کہتی، دیکھو یہ ناطق ہے بہت اچھا لکھتا ہے، اِسے سُنو۔ اب تو یہ الارم ہوگیا کہ فہمیدہ ریاض کی کوئی شے ہم بھی پڑھے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ کچھ تو اُن کی نظمیں بدن دریدہ اور پتھر کی زبان والی ہم پہلے ہی پڑھے بیٹھے تھے۔ تب ہم نے اُن کی تمام کتابیں جہاں کہیں کونوں کھدروں میں، آج، دنیا زاد اور جہاں جہاں بسیرے میں تھیں، اُلٹ پلٹ کر پڑھنا شروع کیں۔ افسانے پڑھے، مضامین پڑھے، نظمیں پڑھیں اور سب پڑھیں۔ تب کھُلتا چلاگیا کہ وہ کیسی بستی کی یاد گار بی بی تھیں، نثر اُن کی باکمال، نظم اُن کی پُرخیال، خود وہ با جمال اور ہم ایک نیم دیہاتی لڑکے تھے۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ مُنڈا اچھا ہے، زبان کا کیسا ہی بے مہار ہے مگر دل کا اُجلا لعل ہے۔
یوں سمجھیے اب ہماری پُرسش کاری کا دَور چودہ سال چلا اور یہ چودہ سال گویا چودہ سو سال پر پھیل گیا تھا۔ اِس عرصہ میں جو کچھ ہمارا اُن کا نصاب چلا وہ بھی ہم گاہے گاہے سب لکھیں گے اور کچھ نہ چھوڑیں گے کہ ہم پر اُن کا حق فرض ہے۔ فی الحال کچھ واقعات اُنھی کی شخصیت کے عرض کیے دیتے ہیں۔ یہ واقعات اُن کی بے نیازی، درد مندی اور خوش ذوقی کے ہیں۔ صاف دل کی کہانیاں ہیں جو ہمیں اُن کی طبیعت کے آئنے میں دِکھیں۔
ایک بار مجھے کہنے لگیں، ناطق مَیں اسلام آباد آ رہی ہوں، آکسفرڈ کی طرف سے ایک اسائنمنٹ ملی ہے کہ پشتو شاعروں کا کچھ حال احوال لکھوں۔ وہ یعنی آکسفورڈ اردو پریس والے مجھے اِس محنت کا اجر بھی دیں گے۔ آپ میرے ساتھ پشاور چلیں گے۔ ہم وہاں دو دن رہیں گے، چپل کباب کھائیں گے، پشاور کے شاعروں کو شعر سنائیں گے، اُن کے سُنیں گے اور لوٹ آئیں گے۔ مَیں اُن دنوں ایک نوکری کرتا تھا اور بہت چھٹیاں کر چکا تھا۔ کئی مہینوں بعد ڈیوٹی پر گیا تھا۔ انتظامیہ میری غیر حاضریوں پر بہت نالاں تھی یعنی مَیں آفس والوں سے اور آفس مجھ سے بیزار تھا۔ اب جو آپا فہمیدہ کا یہ پیغام سُنا تو مَیں نے کہا آپا جی آپ پشاور سےاکیلی ہو آئیں۔ یہاں مجھے دفتر والوں نے باندھ رکھا ہے۔ پہلے بہت چھٹیاں کیے بیٹھا ہوں۔ کالج کے لڑکوں کو اردو پڑھاتا ہوں اور دو ہفتہ ہو گئے کلاس نہیں لی۔ اب تو وہ نوکری ہی سے نکالیں گے۔
وہ میرا عذر کاہے کو سُننے لگیں؟ اور کہا، دیکھو! اگر ساتھ نہیں چلو گے تو مجھے ناراض سمجھو۔ ہم نے کہا، بی بی آپ ناراض نہ ہوئیے، آ جایئے، نوکری جائے جہنم میں۔ ہم پشاور تو کیا، آپ کے ساتھ افغانستان تک چلیں گے۔ دوسرے دن مَیں نے ڈائریکٹر جنرل ایجوکیشن سے کہا! میاں ہماری ایک بڑی شاعرہ کراچی سے آ رہی ہے۔ ہم اُس کے ساتھ پشاور جا رہے ہیں اور تین دن نہیں آئیں۔ بتایئے کیا ارادہ ہے؟ وہ صاحب کہنے لگا، آپ اب کے اگر چھٹی پر گئے تو دوبارہ کالج نہ آ نا اور استعفیٰ بھیج دینا۔ ہم نے کہا بہتر، نہیں آئیں گے اور دوسرے دن آپا فہمیدہ کے ساتھ پشاور نکل گئے۔ پوچھنے لگی، چھُٹی مل گئی تھی؟ مَیں نے کہا اب تو مکمل چھٹی پر ہوں اور سب واقعہ بتادیا۔ ہنس کر کہنے لگی دیکھو ناطق، یہ کلرک نہیں سمجھیں گے، ہم کتنے بڑے لوگ ہیں۔ شعر کہتے ہیں، مکر پھیلاتے ہیں اور ہوا میں روزی کماتے ہیں۔ ایسی نوکریاں پھر مل جائیں گی اور دس ہزار اپنی اسائنمنٹ سے آپ کو فنڈ دوں گی؟ مَیں نے کہا یہ فنڈ اللہ آپ کو نصیب کرے، مَیں اتنے پیسے تو کہیں سے بھی نکلوا لوں گا۔
اب یہ جانیے پشاور کے سفر میں ہم نے چھ بار گاڑی رکوائی۔ چائے نوش فرمائی۔ تب نوشہرہ سیلاب میں ڈوب چکا تھا۔ وہاں ڈوبتوں کو دیکھا اور راستے میں جتنے دوست پڑتے تھے، اُن سے کباب کھاتے، ربڑی پیتے، نظمیں سُنتے اور سناتے پشاور جا اٹکے۔ اسلام آباد سے پشاور تک مُلک کے تمام مسائل کے حل بھی نکال لیے۔ آپا اُن کو ڈائری پر نوٹ کرتی گئیں کہ اِنھیں فیس بک پر لکھوں گی۔ آپ اُن کی سادگی دیکھیے یعنی فیس بک پر لکھنے سے یہ سب مسائل اپنی اصل تک گویا پہنچ جائیں گے۔
جب پشاور پہنچے، وہاں آکسفرڈ کی دکان پر گئے اور پشتو اکیڈمی کا اتا پتا لیا۔ یہاں معاملہ ہی اور تھا۔ ہوا یہ کہ نہ ہمیں آکسفرڈ کے موجودہ ادارے کے عملے نے پہچانا کہ یہ کیا بیچتے ہیں اور نہ وہ پروٹوکول جسے ہم اپنا حق سمجھ کر وہاں اُترے تھے، وہ ملا؟ فقط ہمارے ہوٹل کا کمرہ دکھا دیا گیا بلکہ پہنچا دیا گیا اور بس۔ ہم نے نہا دھو کر سفر کی تھکاوٹ دور کی اور شام سے ذرا پہلے پشاور اکیڈمی کی طرف پدھارے۔ وہاں قصہ یہ ہوا کہ نہ ہمیں اکیڈمی کے عملے میں سے کوئی شخص جانتا تھا اور نہ پشتو کا کوئی شاعر پہچانتا تھا۔ ہم نے اُنھیں نام بتائے تو وہ ایسے دیکھنے لگے جیسے ایلین آئے ہیں۔
ایک پشتو شاعر فہمیدہ ریاض سے کہنے لگا، اَم جانتا ہے تم فہمیدہ ہو اور کراچی میں کوئی وزیر شزیر ہو مگر اَم کراچی کبھی نہیں گیا، تم اپنا پون دے دو، اَم جب وہاں جائے گا تم اپنا پارلیمنٹ میں ہم کو شاعری کا دعوت دینا، اَم وہاں اپنا شاعری پڑھے گا اور بتائے گا شاعری کیا اوتا ہے؟ اُس کے بعد آپا نے شاعری پر تو کوئی بات نہیں کی اور صاف کہا دیکھیں شاعر صاحب مَیں پارلیمنٹ میں نہیں ہوتی۔ وہ ایک اور خاتون فہمیدہ مرزا ہے اور میرا اُس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مَیں تو ایک نجی ادارے میں نوکری کرتی ہوں۔ مجھے یہاں کے کچھ شاعروں کا احوال چاہیے۔ اُس کا بندوبست کیسے ہوگا؟ بس یہ بتا دیں کیونکہ ہم نے اُنھیں انگلش میں چھاپنا ہے۔ صرف مقامی اور زندہ شاعر۔
یوں ایک گھنٹے کے بیچ جو کچھ آپا فہمیدہ نے اُنھیں کہنا سُننا تھا، کہا سُنا اور آٹے کے بسکُٹ اور نمک کی چائے پی کر نکل آئے۔ ہوٹل آتے آپا ہنستے ہوئے کہنے لگی، ناطق دیکھ لو، ہم میں کیسی اکڑ تھی کہ ہم اپنے زمانے کے سب سے بڑے ادیب ہیں، شاعر ہیں اور دنیا ہمیں جانتی ہے۔ ہم ضیا رجیم کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ دیکھو اِن پٹھانوں نے ہماری کیسی ہوا نکال دی۔ ہمیں پڑھنا تو کیا، ہمارا نام تک نہیں سونگھا۔ آئندہ اکڑ میں نہ رہنا اور سر نیہوڑائے ہوئے چلنا۔ مَیں نے قہمقہ مار کر کہا آپا مَیں تو ہوں ابھی کل کا لونڈا ہوں، اصل ہاتھ تو یہ آپ کے ساتھ ہوا ہے۔ آپ جب اپنا نام بتا رہی تھیں، وہ نسوار کی گولیاں بنا رہے تھے اور سیدھی آپ کے دل پر چلا رہے تھے مگر آپ کچھ رنج نہ کیجیے۔