Wednesday, 15 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shahzad Malik
  4. Baap Ya Psychiatrist

Baap Ya Psychiatrist

باپ یا سائیکاٹرسٹ

نوشہرہ ورکاں میں گرلز ہائی سکول نہ ہونے سے میری تعلیم کا بہت حرج ہوچکا تھا، اگرچہ وہاں قیام کے دوران ابا جی نے ہر ممکن کوشش کی کہ میرا قیمتی وقت ضائع نہ ہو مگر حالات کچھ ایسے بنے کہ ان کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ میں کتابیں چھوڑ کر سوئی دھاگے سے کپڑے پر گل بوٹے بنانے میں دل لگانے لگی۔ اب میں گلی میں رہنے والے پٹواری کی بیٹیوں کے پاس بیٹھی انہیں اپنے اپنے جہیز کے لئے بستر کی چادروں اور تکیوں پر کشیدہ کاری کرتے دیکھتی رہتی پھر ایک دن اپنا کپڑا لے کر میز پوش بنایا ان باجیوں سے رنگ برنگے دھاگے مانگ کر اس کے چاروں کونوں پر پھول پتیاں بنائیں تو وہ حیران ہوتے ہوئے ستائشی انداز میں بولیں۔۔

ارے واہ! شاگرد تو استادوں پر بھی بازی لے گئی میں بہت خوش ہوئی۔

ابا جی میری ان سرگرمیوں سے خوش نہ تھے، ان کا کہنا تھا یہ کشیدہ کاریاں کرنے کو عمر پڑی ہے نہ بھی کریں تو بازار بھرے پڑے ہیں ان دستکاریوں سے لیکن پڑھنے کی یہی عمر ہوتی ہے جو ضائع ہو رہی ہے۔ ان کی بات بھی ٹھیک تھی تیزی سے گزرتے وقت کے ساتھ پڑھائی میں میری دلچسپی کم اور کڑھائی میں ذیادہ ہونے لگی تھی جو وقت کے لحاظ سے غیر ضروری تھی۔

ابا جی نے میرے تعلیمی نقصان کے پیش نظر کوشش کرکے وقت سے پہلے ہی اس قصبے سے اپنی ٹرانسفر کرا لی نئی پوسٹنگ گجرات میں ہوئی اور ہم وہاں جانے سے پہلے کچھ دنوں کے لئے چچا جان کے پاس گوجرانوالہ ٹھہرے پڑھائی سے لمبا عرصہ غیر متعلق رہنے کی وجہ سے سکول جانے سے میرا دل اچاٹ ہو چکا تھا۔

بچوں کی نفسیات سے واقف میرے ابا جی نے رہنے کے لئے جو گھر ڈھونڈا اس کی دیوار گورنمنٹ گرلز ہائی سکول گجرات کی دیوار سے متصل تھی ہم وہاں منتقل ہوگئے۔ سکول کی لمبی دیوار کے علاوہ کوئی ہمسایہ نہ تھا۔ گھر کے آس پاس میری ہم عمر کوئی لڑکی بھی نہیں تھی جس سے دوستی کر لیتی۔ سردی کے دن تھے گھر کے چھوٹے سے صحن میں دھوپ نہیں آتی تھی دھوپ میں بیٹھنے اور کپڑے سکھانے کے لئے چھت پر جانا پڑتا تھا، چھت کی پردہ وال سے سکول کا کھلا میدان نظر آتا تھا۔

جب بھی میں چھت پر جاتی سکول گراؤنڈ میں کسی نہ کسی کلاس کے گیم پیریڈ میں لڑکیاں پی ٹی کر رہی ہوتیں پہلے پہل میں سرسری سا یہ سب دیکھ کر نظر انداز کر دیتی مگر آہستہ آہستہ میری دلچسپی بڑھتی گئی اور میں کچھ دیر دیکھتی رہتی۔ ایک دن جمعہ کے روز سکول گراؤنڈ میں بڑی گہما گہمی تھی یہ مڈل کلاس کی لڑکیوں کی خانہ داری کا دن تھا لڑکیاں اپنے ساتھ چولہے اور کھانا پکانے کا سامان لائی ہوئی تھیں اور جس کلاس کو جو ڈِش پکانے کا کہا گیا تھا وہ بڑی تندہی سے تیار کرنے میں مصروف تھیں۔

لڑکیوں کے گروپ بنے ہوئے تھے ہر گروپ میں کچھ لڑکیاں پکا رہی تھیں کچھ پانی لانے برتن دھونے اور اوپر کا کام کرنے پر مامور تھیں دور سے لڑکیوں کی باتیں تو سمجھ میں نہیں آرہی تھیں مگر ہلکا ہلکا شور بڑی رونق کا احساس دلا رہا تھا۔ میرے لئے یہ بڑا دلچسپ نظارہ تھا میں گھنٹوں دیوار کے ساتھ کھڑی دیکھتی رہی نیچے سے امی جان کھانے کے لئے آوازیں لگا رہی تھیں میرا وہاں سے ہلنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ امی کے بہت پکارنے پر بادل نخواستہ نیچے گئی جلدی جلدی کھانا کھایا اور پھر اوپر بھاگی اب لڑکیاں پکانا ختم کرکے اپنی اپنی ٹرے سجائے ٹیچرز کے معائنے کے لئے لے کر جارہی تھیں۔

سامنے سکول کے برآمدے میں تین چار ٹیچرز میز کرسیاں لگائے بیٹھی تھیں وہ لڑکیوں کے کھانے کا ذائقہ چکھنے اور پیش کش کا انداز دیکھ کر نمبر لگا رہی تھیں یہ سلسلہ کافی دیر تک چلا اور میں مسلسل دیوار سے چپکی اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک تمام لڑکیاں اپنی پکائی چیزوں کا معائنہ کرانے کے بعد فارغ ہوکر اپنی کوئلے کی انگیٹھیاں تیل کے چولہے اور برتن سمیٹ کر وہاں سے چلی نہ گئیں۔

میں کتنی دیر خالی گراؤنڈ کو دیکھتی رہی میرے لئے یہ بہت انوکھا تجربہ تھا اگلے دو تین دن میں دیوار پر سے لڑکیوں کو پی ٹی کرتے بھی دیکھتی رہی اور میرے دل کی عجیب کیفیت ہو رہی تھی۔ اب میرا دل بھی چاہنے لگا کہ میں ان لڑکیوں کی طرح سکول جاؤں پی ٹی کروں خانہ داری کروں کلاس میں بیٹھوں اور کتابیں پڑھوں پھر دل میں آتا کہ میں اپنی کلاس میں سب سے بڑی ہوں گی تو کہیں کوئی میرا مذاق نہ اڑائے۔

اسی کشمکش میں کچھ دن اور گزر گئے سکول میں خانہ داری مختلف کلاسوں کی باری باری ہفتے بعد جمعہ کے روز ہوا کرتی تھی میری گو مگو کی کیفیت میں یہ وقت گزر گیا اور سکول گراؤنڈ میں اگلی خانہ داری کا میلہ سج گیا میں پچھلی مرتبہ کی طرح پھر چھت پر پہنچ گئی۔ ہماری دیوار سے کچھ آگے پانی کا نل تھا لڑکیاں پانی لینے برتن دھونے بار بار وہاں آرہی تھیں اب کی بار ایک لڑکی کو مسلسل دیوار پر ٹنگا دیکھ کر کئی ایک نے ہاتھ بھی ہلائے جواب میں، میں نے بھی پرجوش طریقے سے ہاتھ ہلائے۔

میرے دل کا حال تو پوچھیں ہی مت خوشی مجھ سے سنبھالی نہ جارہی تھی اور جب میں چھت سے اتری تو میری ساری جھجک ہوا ہو چکی تھی۔ شام کو ابا جی دفتر سے لوٹے تو میں نے جھجکتے ہوئے ان سے سکول داخل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ابا جی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور چپ رہے۔ مجھے دوبارہ بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی اگلے دن جب ابا جی دفتر سے واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں کتابوں کا بنڈل تھا، ان کے کہنے پر امی جان کمرے سے نیا سلا ہوا یونیفارم اور باٹا کے سیاہ جوتے نکال لائیں یہ سب مجھے دیتے ہوئے اباجی نے حکم دیا کہ صبح سات بجے تیار رہنا سکول جانا ہے داخلے کے لئے۔

وہ رات خوشی اور گھبراہٹ کے ملے جلے احساسات کی وجہ سے کاٹے نہ کٹ رہی تھی۔ صبح ہوتے ہی تیار ہو کر میں اباجی کے ہمراہ سکول کی پرنسپل کے دفتر میں تھی۔ اباجی کی طرف دیکھ کر وہ معنی خیز انداز میں مسکرائیں، میں کچھ نہ سمجھ سکی۔ چھوٹے سے ٹیسٹ کے بعد مجھے داخل کر لیا گیا پرنسپل نے کلاس ٹیچر کو بلایا نیو ایڈمشن کہہ کر ہلکا سا تعارف کرایا اور مجھے ان کے ہمراہ کلاس میں بھیج دیا۔ کلاس کی لڑکیوں نے میری توقعات کے بر خلاف خوش دلی سے میرا استقبال کیا چند ہی دنوں میں میں سب کے ساتھ گھل مل چکی تھی۔

میرے سکول داخلے سے ایسا محسوس ہوا ابا جی کو ایک عرصے بعد دلی خوشی ملی ہے جب سے میری پڑھائی چھوٹی تھی ان کا دل جیسے کسی بوجھ کے نیچے دبا ہوا تھا۔ میں ان کی پہلی اولاد تھی اور میں ہی حالات کی وجہ سے تعلیم چھوڑ بیٹھی جس کا دکھ انہیں برداشت نہیں ہورہا تھا، اوپر سے میری بد دلی انہیں اور پریشان کر رہی تھی تب انہوں نے بڑی کوششوں کے بعد اپنی ٹرانسفر کرائی بہت بھاگ دوڑ کے بعد سکول کے ساتھ یہ مکان ڈھونڈا تاکہ سکول کا ماحول مجھے پڑھنے پر اکسائے۔

چپکے چپکے پرنسپل سے مل کر داخلے کی یقین دھانی بھی حاصل کر لی یہی وجہ تھی کہ داخلے کے دن وہ ابا جی کو دیکھ کر مسکرائی تھیں۔ سکول کا یونیفارم بھی سلوا لیا مجھے خبر نہ ہونے دی نہ ہی ایک بار بھی سکول کا نام لیا سکول کی ہمسائیگی اور گراؤنڈ میں لڑکیوں کی سرگرمیوں نے مجھے متاثر کیا۔ جب آتش شوق خود بخود خوب بھڑکی اور میں نے خود اپنی زبان سے سکول جانے کی خواہش کا اظہار کیا تب انہوں نے مجھے سرپرائز دیا وہ میری اسی بے تابی کے منتظر تھے۔ میرے جہاں دیدہ اباجی نے زور ذبردستی کی بجائے میری نفسیات کے مطابق علم کی خوابیدہ خواہش کو بیدار کیا اور میں اپنی مرضی سے سکول جانے پر آمادہ ہوئی۔

Check Also

Khutbah e Ghadir

By Muhammad Ali Ahmar