Wednesday, 15 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mujahid Khan Taseer
  4. Tajseem e Sukhan

Tajseem e Sukhan

تجسیم سخن

"میں نے کبھی خود کو معذور سمجھا ہی نہیں ہے۔ میں ہر وہ کام کرسکتا ہوں جو ایک صحت مند انسان کرسکتا ہے"۔ یہ الفاظ محمد اقبال شاہ ناشناس کے ہیں، جو نہ صرف ان کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان کے تخلیقی سفر کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔

محمد اقبال شاہ ناشناس سے میرا پہلا تعارف ان کی کتاب بے وضو نگاہیں اور شیکسپیئر کے ڈرامے اوتھیلو کے ان کے منظوم ترجمے سے ہوا اور اس کے بعد پیوند حرف، اب ان کا تازہ مجموعہ کلام تجسیم سخن میرے ہاتھ میں ہے۔ شاہ کو پڑھتے ہوئے ایک بات واضح ہوتی ہے: کہ شاہ صاحب کی تخلیقی دنیا کسی اور کے زیرِ اثر نہیں، بلکہ ان کا اپنا منفرد رنگ اور لہجہ ہر جگہ غالب نظر آتا ہے۔

شاہ صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی اور کے تخلیقی رنگ میں رنگنے کے بجائے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہیں۔ وہ تخلیقی خودمختاری کے علمبردار ہیں، جو ایک معیاری ادب کی پہچان ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ایک لکھاری کا اپنے پیشروؤں سے متاثر ہونا فطری ہے، لیکن شاہ صاحب اس رجحان سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں جو تخلیقیت اور اسلوب کی انفرادیت پائی جاتی ہے، وہی ان کے مقام کو بلند کرتی ہے۔

اداس نظریں بچھڑتے لمحوں میں ایسے بکھریں کہ جس طرح سے

کسی مسافر سے بے خیالی میں گھر کا سامان گر گیا ہے

لوگوں کا کاروبار تھا بس تجھ کو دیکھنا

کہتے ہیں تیرے شہر میں جب مے کدہ نہ تھا

شاہ صاحب کی شاعری پڑھتے ہوئے قاری خود کو ان کے تخلیقی جادو کے زیرِ اثر پاتا ہے۔ ان کی شاعری کے جمالیاتی پہلو کو کتاب بند کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتے۔ ان کے اشعار میں موجود فطری منظر کشی، جذبات کی شدت اور تخیل کی بلند پروازی پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔

وہ مجھ کو دیکھنے آیا تھا، دیکھتا ہی رہا
برستی آنکھ رہی اور اس نے کچھ نہ کہا

محمد اقبال ناشناس صاحب نہ صرف جذبات کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان کے ہاں موجود سادگی اور گہرائی کا حسین امتزاج بھی ملتا ہیں۔

وہ راستوں کے لبوں پہ کتنی دعائیں رکھ کر چلا گیا ہے

حسین سپنا کسی کے دھوکے میں گل کو آواز دے رہا ہے

اسے سنا ہے جو بلبلوں نے گلوں سے جا کر شکایت کیں

تمہاری خوشبو کو ورغلا کر کسی نے لہجہ بنا لیا ہے

محمد اقبال ناشناس کی شاعری میں جہاں محبت، حسن اور فطرت کے جمالیاتی پہلو جھلکتے ہیں، وہیں ان کے کلام میں معاشرتی مسائل کا گہرا ادراک بھی نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری نہ صرف ایک شاعر کی داخلی کیفیت کی ترجمان ہے بلکہ ایک سماجی نقاد کی حیثیت سے ان کے گرد و پیش کے حالات کی تصویر کشی بھی کرتی ہے۔

ہر طرف بارود کی قاتل ہوا ڈستی رہی

ہر جگہ ایک جسم گرنے کی صدا باقی رہی

دہشت گردی کی ہولناکیوں کو بیان کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی شاہ صاحب کے ہاں امن کی خواہش اور محبت کے نغمے بھی سنائی دیتے ہیں:

قائل کسی سرحد کے نہیں ہیں میرے نغمے

کوئل نے گلستان صنوبر سے کہا تھا

اک درد ہوں بے رب تبسم میں چھپا ہوں

ایک اشک ہوں لفظوں میں جگہ ڈھونڈ رہا ہوں

محمد اقبال ناشناس کی شاعری میں تشبیہات اور استعارات کا استعمال ان کے فن کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ وہ عام موضوعات کو بھی ایسے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ان کا انداز بیاں کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔

زندگی تیری غزل میں موت کے مصرعے ملے

چھیتھڑے انسانیت کے جا بجا بکھرے ملے

یہ اشعار نہ صرف شاہ صاحب کی تخلیقی مہارت کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان کے سماجی شعور اور انسانیت سے محبت کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔

شاہ صاحب کی شاعری میں رات کا تذکرہ بارہا ملتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے رات ان کے تخلیقی وجدان کے لیے ایک اہم محرک ہے۔

بہت بیدار تھی آنکھوں میں راتیں

ابھی دن جس میں سوئے ہوئے تھے

کل رات تیری یاد میں ایک شعر بنا تھا

خوابوں کی عبارت کا یہ اسلوب نیا تھا

یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ رات کے سکون اور خاموشی میں شاہ صاحب اپنے خیالات کو پروان چڑھاتے ہیں اور انہیں شعری جامہ پہناتے ہیں۔

محمد اقبال شاہ ناشناس کی شاعری میں جمالیات، فکر اور انفرادیت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کا کلام قاری کو نہ صرف تفکر پر مجبور کرتا ہے بلکہ ان کی تخلیقی دنیا کی سیر بھی کراتا ہے۔ شاہ ناشناس کی شخصیت اور شاعری ہمارے ادبی سرمائے کا قیمتی حصہ ہیں اور ان کا کام آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ثابت ہوگا۔

Check Also

Shadi Ke 26 Saal

By Mubashir Ali Zaidi