سفارتی تفریق
پاک بھارت تعلقات کو سرحد کے دونوں اور ہر ذی فہم شخص اپنی اپنی آنکھ سے دیکھتا اور سوچتا ہے محض یہی نہیں بلکہ ہر شخص کے پاس اس کا ایک "حل" بھی موجود ہے سرحد کے اُس اور ایک طبقہ ہندو توا کے اکھنڈ بھارت پر یقین رکھتا ہے اس کے خیال میں وہ دن بالآخر آکر رہے گا جب ہندوستان اپنے شاندار ماضی کی تابناکیوں سے حظ اٹھائے گا اور اگست 1947ء میں بنائی گئی سرحدیں مٹ جائیں گی۔
وہیں ایک طقبہ قدرے حقیقت پسندانہ فہم رکھتا ہے اس کے خیال میں جو ہوگیا سو ہوگیا ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔ اپنے اپنے لوگوں کو بہتر معیار زندگی اور دوسری وہ تمام سہولتیں فراہم کرنے کے لئے جو مہذب تمدن کے شعور کی عکاس ہوں۔
ہمارے بھی دو طرح کے طبقات ہیں اولاً وہ جو ہندوستان پر مسلم خاندانوں کی حکمرانی کے ادوار سے خود کو جوڑتے ہوئے ایک بار پھر دہلی کے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے کی خواہش پالے ہوئے ہیں اس طبقے میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جو مطالعہ پاکستان کو تاریخ کے مکمل سچ کے طور پر تسلیم کرتے ہیں ان کے خیال میں اگر ایک بار پھر مسلم اقتدار کی نشاط ثانیہ ہوجائے تو عالمگیر انقلاب اسلامی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا
ان میں کچھ نے ان جہادی تنظیموں اور ہم خیالوں کے اثرات کو قبول کیا جو کہتی ہیں ساری دنیا خدا کی ہے سرحدیں مصنوعی ہیں اسلام پسندیدہ دین اور مسلمان منتخب امت ہیں اور ایک دن اسلام اور مسلمانوں کو ہی دنیا کی رہنمائی کرنی ہے۔
ایک محدود طقبہ بہرطور ہمارے ہاں بھی موجود ہے جو پڑوسیوں سے مربوط تعلقوں کی حقیقت اور ضرورت کو اہمیت دیتا ہے اس کے ساتھ ہی یہ طبقہ بھارت سے معاندانہ طرزعمل، نفرت اور مسلم شائونزم پر انسانی اقدار کو مقدم سمجھتا ہے۔
ہمارے برادر عزیز سید زاہد کاظمی کے اشاعتی ادارے "سنگی اشاعت گھر"کے زیراہتمام شائع ہونے والی کتاب سفارتی تفریق (سرحد پار گفت و شنید) پاکستان اور بھارت کے منجھے ہوئے سفارتکاروں کی تحاریر پر مشتمل ہے۔
کتاب کے تعارفی صفحات میں ڈیوڈ پیج جو کہ اس موضوع پر مزید شائع ہونے والی کتب کے بھی ایڈیٹر ہیں لکھتے ہیں "ایسی سیریز کا تصور 1990ء کی دہائی کے اواخر میں میسوری (بھارت) میں پیدا ہوئی بحث کے دوران ابھرا جو رولی بکس کے مالک پرمود کمار اوران کے دوست رائل ہولے کالج لندن کے پروفیسر فرانسس روبنن کے درمیان ہوئی"۔
"ادارتی ڈھانچے کی ترتیب پاکستانی پبلشر کی تلاش، بحث کے لئے موضوعات طے کئے جانے اور مصنفین کے ایسے جوڑے جو ایک دوسرے کے ساتھ مکالمے کو فروغ دیئے جانے کے خواہش مند ہوں اس کے لئے بہرطور وقت درکار تھا"۔
سرحد پار گفت و شنید پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک اہم موضوع ہے۔ اس سلسلے کی اولین کتاب کے لئے ڈاکٹر ہمایوں خان اور جی پارتھا سارتھی کا انتخاب ایک بہترین انتخاب ہے۔ کتاب اپنے موضوع تاریخ اور عصری حالات کے تناظر میں خصوصی اہیمت رکھتی ہے۔
گوپالا سوام پارتھا سارتھی (جی پارتھا سارتھی) دو بار پاکستان میں سفارتی خدمات انجام دے چکے۔ پہلی بار وہ کراچی میں بھارت کے قونصلر جنرل رہے اور پھر اسلام آباد میں ہائی کمشنر۔ پاکستان کے علاوہ بھی مختلف ممالک میں بھارت کے سفیر رہے۔ ڈاکٹر ہمایوں خان 1984ء سے 1988ء تک بھارت میں پاکستان کے سفیر رہے۔ ہمایوں بھارت اور بنگلہ دیش کے علاوہ بھی متعدد ممالک میں بطور سفیر تعینات رہے۔
کتاب میں شامل دونوں معروف اور منجھے ہوئے سفارتکاروں کے مضامین کا اردو ترجمہ ڈاکٹر مجاہد مرزا نے کیا ہے۔ اردو نثر میں اپنے شاندار اسلوب کی بدولت پڑھنے والوں کے بڑے حلقے میں مقبول ڈاکٹر مجاہد مرزا ایک ترقی پسند روشن خیال اور علم و کتاب دوست شخصیت ہیں ان کی سوانح عمری کا پہلا حصہ شائع ہوکر قارئین کی داد سمیٹ چکا دوسرے حصے کی اشاعت پر وہ کام میں مصروف ہیں۔
ڈیوڈ پیج کے مطابق یہ سیریز کی پہلی کتاب ہے یقیناً آئندہ اس موضوع پر شائع ہونے والی کتب میں جن مصنفین کے خیالات اور تحاریر صفحات کی زینت ہوں گے وہ بھی اپنے عصری شعور کے ساتھ اس اہم موضوع پر مکالمے کو آگے بڑھانے کا جذبہ رکھتے ہوں گے۔
بٹوارے کے نتیجے میں معرض وجود میں آئے دو پڑوسی ملکوں پاکستان اور بھارت میں عمومی عوامی سوچ اور دونوں جانب کی اسٹیبلٹمنٹ اور اس کے نظریاتی ہم خیالوں کی آراء و عقائد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں پاک بھارت تعلقات کے زیروزبر ہوتے معاملات پر بات کرنے والوں کے لئے سب سے بڑی مشکل اس الزاماتی سفارتکاری اور سیاست کی وجہ سے پیش آتی ہے جو دونوں ملکوں کی حکومتوں اسٹیبلشمنٹ اور ا نتہا پسندوں کا رزق ہیں۔
مثلاً دونوں ملکوں میں کہیں کوئی مسئلہ پیدا ہو انگلی سرحد پار کی طرف اٹھائی جاتی ہے یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جسے اس موضوع پر بات کرنے والوں کو ہر قدم پر بہرصورت مدنظر رکھنا ہوگا۔
ڈاکٹر ہمایوں خان اور جی پارتھا سارتھی کے پیش نظر بھی یہ امور یقیناً رہے۔ سرحد پار گفت و شنید (سفارتی تفریق) کے سلسلے کی پہلی کتاب میں مختصراً تاریخ کا تعارف بھی ہے زیادہ تر بات ان مسائل پر ہوئی جو دونوں ملکوں میں دوریاں بڑھانے کا سبب بنے اور بنتے ہیں۔
ڈاکٹر ہمایوں 1984ء میں بھارت میں پاکستان کے سفیر کے طور پر پہنچے اور 1988ء تک اس منصب پر رہے۔
1984ء وہ سال ہے جب سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی تحریک کو کچلنے کے لئے اندرا گاندھی کی حکومت نے آپریشن بلیو سٹار کیا۔ اس آپریشن کی وجہ سے سکھوں اور بھارتی وفاق میں جو دوریاں پیدا ہوئیں وہ ختم نہیں ہوپائیں۔
ہمایوں خان دہلی میں ہی تعینات تھے جب آپریشن بلیو سٹار کے بدلے کی بھائونا کا شکار بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی ہوئیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہر دو واقعات کے حوالے سے ہندوستان کے ریاستی اہل دانش کیا سوچ اور کہہ رہے تھے۔
ہماری دانست میں جس سوچ کی نشاندہی ہمایوں خان نے کی ہے اس کی وجہ بہرطور موجود تھی۔
بھارت کے اہل اقتدار اور خالصتان تحریک کو کچلنے پر مُصر اسٹیبلشمنٹ ان برسوں میں خالصتان تحریک کے بعض رہنمائوں اور گجرات پاکستان کے چودھری ظہور الٰہی خاندان کے تعلقات کا اپنی فہم کے مطابق تجزیہ کررہے تھے۔
چودھری ظہور الٰہی کی ایک صاحبزادی کی شادی میں خالصتان تحریک کے نامور حامیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ بھارتی ذرائع ابلاغ اپنی ایجنسیوں کے حوالے سے یہ دعویٰ کررہے تھے کہ ظہور الٰہی خاندان کی شادی کی تقریب میں خالصتان کے حامی سکھوں کی بڑی تعداد کی شرکت محض شادی کی تقریب میں شرکت نہیں تھی بلکہ یہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور خالصتان تحریک کے درمیان رابطہ کار چودھری ظہور الٰہی کے ہاں منعقدہ ایسا اجتماع تھا جس میں خود جنرل ضیاء الحق اور اسٹیبلشمنٹ کے اہم لوگ شریک تھے۔
اس ملاقات اور تعاون کو شادی کی تقریب کا پردہ فراہم کیا گیا۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر ہمایوں خان اور جی پارتھا سارتھی جیسے منجھے ہوئے سفارتکار ایسے وقت میں ایک دوسرے کے ہاں سفارتی فرائض انجام دے رہے تھے جب دونوں جانب کی اسٹیبلشمنٹ اپنے اپنے مفادات کے چولہے پر دھری ہنڈیا کے نیچے ہلکی ہلکی آگ سلگارہی تھی۔
گویہ آگ آج بھی سلگائے سلگ رہی ہے بجھے گی کب اس کے لئے ہمیں پاکستان اور بھارت کے ان دو ممتاز سفارتکاروں ڈاکٹر ہمایوں خان اور جی پارتھا سارتھی کے خیالات سے مزید استفادہ کرنا ہوگا
البتہ یہ حقیقت ہے کہ جب تک اکھنڈ بھارت اور غزدہ ہند کے خوانچہ فروشوں کے خوانچوں پر خریداروں کا ہجوم ہے اس وقت تک تبدیلی ممکن نہیں لیکن خواب دیکھنے میں امر مانع کیا ہے؟