پشتون قومی جرگہ کے 22 مطالبات
پشتون تحفظ موومنٹ (اب کالعدم) کے زیراہتمام ضلع خیبر میں منعقد ہونے والا "پشتون قومی جرگہ" اپنے انعقاد سے قبل متنازعہ ہوگیا تھا۔ ابتداً وفاقی حکومت نے "پشتون قومی جرگہ" کا انعقاد کرنے والی تنظیم پی ٹی ایم پر پابندی لگادی۔ پابندی کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ یہ تنظیم ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ اسے بیرونی فنڈنگ ملتی ہے اس کی سرگرمیاں امن و امان کے لئے مسائل پیدا کرتی ہیں۔
مناسب ہوتا اگر نوٹیفکیشن میں لگائے گئے الزامات کی تفصیل عوام کے استفادے کے لئے ذرائع ابلاغ کے ذریعے نشر و اشاعت کا اہتمام کیا جاتا تاکہ لوگ جان پاتے کہ الزامات کے حوالے سے سامنے لائے گئے ثبوت کتنے اہم اور درست ہیں۔
آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ پی ٹی ایم پر پابندی اور جرگہ کے انعقاد کے لئے تیاریوں کے مرحلے میں ہونے والی پولیس کارروائی بارے جب ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار سے دریافت کیا گیا کہ کیا یہ کارروائی (پولیس کارروائی) وفاق کے حکم پر ہورہی ہے؟
تو ان کا جواب تھا "امن و امان قائم رکھنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے ایک تنظیم جس پر پابندی لگادی گئی ہو صوبائی حدود میں غیرقانونی اجتماع کرے گی تو قانون کی حاکمیت کو برقرار رکھنا صوبائی حکومت کا فرض ہے"۔
پشتون قومی جرگہ والی جگہ پر لگ بھگ تین دن پولیس کارروائی کرتی رہی صوبائی حکومت اس کارروائی کے حوالے سے خود کو بے اختیار بتاکر وفاق کو ذمہ دار ٹھہراتی رہی، پھر اچانک وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور پی ٹی ایم کے ذمہ داران کے درمیان ملاقات و مذاکرات کے بعد وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ صوبائی حکومت جرگے کی میزبانی کرے گی۔
میزبانی کرنے والی صوبائی حکومت کی ماتحت پولیس فورس کی کارروائی کے دوران تین سے چار افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات پر صوبائی حکومت نے مکمل خاموشی اختیار کرلی لیکن اس پولیس کارروائی کا پی ٹی ایم کو سیاسی اخلاقی اور سماجی فائدہ یہ ہوا کہ خیبر پختونخوا کی سیاست میں فعال قوم پرست اور وفاق پرست دونوں طرح کی جماعتوں کے ذمہ داران اور ان جماعتوں کے ساتھ وابستہ نوجوانوں نے جرگہ میں بڑی تعداد میں شرکت کی۔
پی ٹی ایم کے پشتون قومی جرگہ سے خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی، وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور۔ منظور پشتین اور دیگر مختلف الخیال سیاسی رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔ اظہار خیال کرنے والے تمام رہنمائوں نے ایک بات یکساں طور کہی وہ یہ کہ صوبے میں امن کے قیام صوبے کے حقوق، سماجی و معاشی استحکام اور دیگر مسائل کے حل کے لئے ہم ایک اور متحد ہیں۔
اس پشتون قومی جرگہ کے انعقاد اور 22 نکاتی اعلامیہ کے حوالے سے وسطی پنجاب کی دانش کے چند "ستارے" بڑے برہم ہیں سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس بالخصوص "ایکس" (ٹیوٹر) پر پنجابی دانش کے ستاروں اور پشتونوں کے درمیان ہونے والی بحثوں نے چند ساعتوں کے بعد گالم گلوچ کی صورت لے لی۔ طرفین نے انسانوں کے مقدس رشتوں بارے جس طرح زبان درازی کی وہ ان سب کی گھریلو تربیت کے ساتھ ہمارے سماج کے عمومی رویوں کی نشاندہی کرتی ہے۔
پی ٹی ایم پر کچھ الزامات وفاق پاکستان نے لگائے کچھ اس کے مخالفین اور خصوصاً پنجاب سے بعض لوگ لگاتے ہیں۔ یاد کیجئے ماضی میں آئی ایس پی آر نے بھی ایک لمبی چوڑی پریس کانفرنس کی تھی۔
الزامات جوابی الزامات، بحث اور حقیقت میں سر کھپانے سے قبل تین روزہ "پشتون قومی جرگہ" کے اختتامی اجلاس میں جاری کئے جانے والے اعلامیہ کے 22 نکات (مطالبات) ترتیب وار پڑھ لیجئے تاکہ مزید بات کرنے اور غوروفکر (اگر وقت ہو تو) کرنے میں سہولت رہے۔
پشتون قومی جرگہ کے 22 نکاتی اعلامیہ میں کہا گیا ہے۔
(1) جرگہ منعقد ہونے کے مقام پر پشتون قوم کا ایک دفتر قائم کیا جائے گا۔ (2) فوج اور دہشت گرد تنظیمیں 2 ماہ کے اندر ہمارے علاقے (خیبر پختونخوا) سے نکل جائیں۔ (3) اگر فوج اور دہشت گرد تنظیمیں 2 ماہ کے اندر نہ نکلیں تو پھر جرگہ فصلہ کرے گا کہ ہم ان قوتوں کو کس طرح نکالیں گے۔
(4) پختون سرزمین کے وسائل کی تفصیلات مرتب کی جائیں گی۔ (5) جرگے نے فیصلہ کیا ہے کہ شہیدوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کے لئے وکلاء کی ایک ٹیم تیار کی جائے گی۔ (6) بجلی قبائلی علاقوں میں مفت اور شہری علاقوں میں 5 روپے یونٹ دی جائے لوڈشیڈنگ کی صورت میں دوسرے صوبوں کے کنکشن کاٹ دیئے جائیں گے۔ (7) ڈیورنڈ لائن پر تمام تجارتی راستوں کو پرانے قوانین کے مطابق بحال کیا جائے۔ (8) تمام قبیلوں کے درمیان مسائل کے حل کے لئے ایک کمیٹی قیام امن کے لئے کام کرے گی۔
(9) دوسرے صوبوں میں پشتونوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی صورت میں قومی جرگہ متاثرہ پشتونوں کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ (10) قومی جرگہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پشتون آج کے بعد کسی کو بھتہ نہیں دیں گے۔ (11) تمام آئی ڈی پیز جرگے کے ذریعے واپس آبائی علاقوں میں آباد کئے جائیں گے۔ (12) پشتون قومی جرگہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آج کے بعد عمرانی معاہدہ (دستور پاکستان) منسوخ ہوگا۔
(13) موجودہ آئین پاکستان کے تحت فوج سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی۔ (14) صوبہ خیبر پختونخوا میں بننے والی بجلی کا خالص منافع فوری طور پر صوبے کے حوالے کیا جائے۔ (15) جرگے نے فیصلہ کیا ہے کہ قدرتی گیس اور پانی تمام پشتونوں کو فراہم کئے جائیں گے۔ (16) حکومت بلاک شناختی کارڈ بحال کرے ورنہ سارے پشتون اپنے شناختی کارڈ واپس کردیں گے۔
(17) اگر کسی نے جرگے کی بنیاد پر کسی کے خلاف کارروائی کی تو قومی جرگہ سخت ردعمل دکھائے گا۔ (18) تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ (19) ایکشن اینڈ سول پاور قانون ختم کیا جائے۔ (20) آئندہ اتوار (20 اکتوبر) کو ان مطالبات کے حق میں تمام اضلاع میں عوامی اجتماعات منعقد کیئے جائیں گے۔ (21) پشتون قومی جرگہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے مطالبہ کرتا ہے کہ ان تمام مطالبات کی صوبائی اسمبلی سے منظوری کرانے کے لئے اسمبلی میں بل پیش کیا جائے۔ (22) تمام شہداء کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جو اس امر کی تحقیقات کرے کہ واقعہ کی حقیقت کیا تھی۔ پشتون قومی جرگہ میں اعلامیہ پڑھ کر سنائے جانے کے بعد تمام شرکاء سے حلف بھی لیا گیا۔
22 مطالبات پر مبنی پشتون قومی جرگہ کے بعض نکات یقیناً اہم اور توجہ طلب ہیں۔ دہشت گردی (ہر قسم کی) کے تمام واقعات کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنناچاہئے تاکہ پورا سچ لوگوں کے سامنے آسکے۔
خیبرپختونخوا کے قدرتی وسائل خصوصاً بجلی اور سوئی گیس کا خالص منافع صوبے کو فراہم کیا جانا چاہیے واجب الادا رقم بارے صوبہ اور وفاق مل بیٹھ کر طریقہ کار طے کریں۔
سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ درست ہے البتہ اس حوالے سے سیاسی قیدی، دہشت گرد یا دہشت گردوں کا سہولت کار اور بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے کے الزام میں گرفتار افراد کے معاملات کی حقیقت جاننے کے لئے ایک تحقیقاتی کمیشن کا قیام ضروری ہے۔
بلاک شدہ شناختی کارڈز میں سے اکثریت غیرقانونی طور پر حاصل کئے گئے شناختی کارڈوں کی ہے جو افغان شہریوں نے حاصل کر رکھے تھے پی ٹی ایم کو اپنے اس مطالبے کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کرنی چاہیے۔
پشتون قومی جرگے نے اپنے اعلامیہ کے اعلان میں کہا "آج کے دن سے عمرانی معاہدہ منسوخ کیا جاتا ہے"۔ پھر 22 مطالبات کس سے کئے گئے اور جس صوبائی اسمبلی سے مطالبات کو بل کی صورت میں منظور کرانے کا مطالبہ کیا گیا وہ اسمبلی بھی تو اسی عمرانی معاہدے کے تحت وجود رکھتی ہے۔
اگلے ہی سانس میں کہا گیا کہ موجودہ آئین کے تحت فوج سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی۔ بالکل درست بات ہے فوج کیا کسی بھی سرکاری ملازم کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ پشتون قومی جرگہ کے 22 مطالبات کو اعلامیہ کی شکل دینے سے قبل اگر اس پر مختلف الخیال پشتون حلقوں میں مکالمہ کرالیا جاتا تو مناسب ہوتا۔ نیز یہ کہ ان مطالبات کے جواب میں سستی حب الوطنی کے مظاہرہ کی بجائے مطالبات کے لئے بننے والے ماحول کے ذمہ داروں پر بات ہونی چاہیے۔