مفلسی آرزوئیں اور زندہ معاشرہ
یہ تحریر لگ بھگ پانچ برس پہلے لکھی تھی تب سے اب تک کے درمیانی عرصے میں صورتحال جوں کی توں ہے رتی برابر تبدیلی نہیں آئی بلکہ مسائل اور بدزبانیوں میں اضافہ ہی ہوا اور مسلسل ہورہا ہے کسی لگی لپٹی کے بغیر میں اس صورتحال مسائل و بدزبانیوں کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو سمجھتا ہوں۔
مسیحا گیری اور حاکمیتِ کُلی کے سرطان میں مبتلا ہماری اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ چھہتر برسوں میں جتنے تجربے کیئے اور جتنی فصلیں بوئیں ان کے نتائج سب کے سامنے ہیں افسوس کے وہ اس سے سبق سیکھنے پر آمادہ نہیں خیر آئیے پانچ برس قبل لکھی گئی تحریر پڑھیئے اور دو ساعتیں نکال کر غور کیجے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
مفلسی آرزوؤں کو کھانے لگ جائے تو خواب بنجر ہوجاتے ہیں، زندہ معاشروں میں سوال ہوتے ہیں، سوال ختم زندگی تمام تمام شد' کیسے ممکن ہے کہ سانس چلیں اور زندگی رک جائے۔ آدمی آرزوؤں کے تعاقب میں عمر بھر مارا مارا پھرتا رہے یا اپنے ہونے کے اقرار کا نغمہ الاپ کر جئے۔
فیصلہ بہرطور آدمی کو ہی کرنا ہے۔
اس عہدنفساں میں لوگ کیسے جیتے ہیں یہ لوگ بہتر جانتے ہیں، وہی بتا سکتے ہیں کہ جینے کی قیمت کیا اور کیسے ادا کرنا پڑتی ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں پارسا اور شیاطین' ظالم ومظلوم اور قاتل ومقتول سب کے اپنے اپنے ہیں۔
ہم اپنی طے کردہ شناختوں کیساتھ ہی کسی کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس فہمی جبر کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں مکالمہ نہیں ہوتا۔
آپ سوال کریں، جواب ملے گا یہ آپ کا کام نہیں۔
بسا اوقات تو کہہ دیا جاتا ہے' سوال امورخداوندی سے انکار کی روش کو جنم دیتے ہیں۔
ارے واہ صاحب! کیا دور کی کوڑی لائے ہیں ' یہ عقل بھی تو خداوند کی عنایت ہے۔
وہ اگر اسے فرد یا سماج کیلئے زہرقاتل سمجھتا تو اس کے بغیر مخلوق اُتاردیتا
سوالوں سے گھبرانے اور سوال کرنے والوں کو کسی بھی طور خوفزدہ کرنے کی ضرورت نہیں ' البتہ سوال اور پروپیگنڈے میں فرق ہے۔
سوال فہم کیلئے در وا کرتا ہے اور پروپیگنڈہ، یہ تو سرطان کی طرح چاٹ جاتا ہے۔
ہمارے عہد اور اس سے جڑے پچھلے ادواروں کا بنیادی المیہ یہی ہے کہ ہم دوسروں کی بات سننے کی ہمت نہیں کرپاتے۔
یہ مان کر ہی نہیں دے رہے کہ دنیا بہت آگے نکل چکی۔ اب آگ جلانے کیلئے پتھر نہیں رگڑنا پڑتے۔ ہاں لکڑیوں کی ضرورت ختم نہیں ہوئی۔
مسائل کا سورج سوا نیزے پر ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سمت درست ہے اور منزل کیا ہے؟
سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہم جو صدیوں کا سفر طے کرکے یہاں تک پہنچ پائے ہیں ' سمت اور منزل سے ناواقف ہیں۔
دیکھئے انسانی سماج سدھائے ہوئے غولوں کی طرح نہیں ہوتا، کھوج کا جذبہ انسانوں کو دیگر مخلوقات سے ممتاز بناتا ہے۔
تعلیم' علم' مکالمے' تعمیر وترقی کی سمت رہنمائی کرتے ہیں۔ ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں طبقاتی سماج استوار کرنے میں انہوں نے بھی بالادست طبقات سے قدم قدم پر بھرپور تعاون کیا جن کا دعویٰ ہے کہ اگر ان کی فہمی طور پر تقلید کی جائے وہ راہ نجات پر لے جا کر کھڑا کرسکتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ "وہ" خود بھی اب ایک استحصالی طبقے کا روپ دھار چکے ہیں" وہی پنڈت ربی مربی پادری اور ملا
انسانی تاریخ ہمیں سمجھاتی ہے کہ ریاستوں کا جبر مذہبی پاپائیت کے تعاون کے بنا قائم نہیں رہ پاتا۔
اس جبرِ مسلسل کی دیگر وجوہات بھی ہیں ان سے انکار نہیں مگر اصل وجہ بالادست طبقات کا گٹھ جوڑ ہے۔
کیا صدیوں کی مسافت' محنت ومشقت' عذاب سارے جو بھگت کر ہم یہاں تک آن پہنچے ہیں اکارت جائیں گے۔
ہمیں سدھائے ہوئے غولوں کی طرح زندگی بسر کرکے شہر خموشاں میں جا رہنا ہے؟
اگر زندگی یہی ہے تو پھر کارخانہ ہستی کی ضرورت کیا تھی۔
یقیناً زندگی اور اس کے تقاضے اس سے مختلف ہیں، بس ہمیں انہیں سمجھنا ہوگا، ساتھ ہی اس ابدی سچائی کو بھی کہ طبقات فقط دو ہوتے ہیں اولاً ظالم اور ثانیاً مظلوم، تیسرا طبقہ نہیں ہوتا۔
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ غیرجانبداری اصل میں ذاتی مفادات کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔
تقسیم شدہ معاشرے میں ترجیحات اتنی بدل چکی ہیں کہ کبھی کبھی خوف آنے لگتا ہے۔
ایک بلاگر خاتون نے ٹویٹر پر لکھا "خوشخبری آنے والی ہے" اس کے نیچے سینکڑوں کمنٹ تھے۔ شائستگی' تہذیب' احترام سے خالی ایسے ایسے کمنٹ تھے کہ یقین جانئے آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔
اچھا ایسا کیوں ہے' کیوں ہمیں الفاظ کے انتخاب اور کلام پر قدرت حاصل نہیں؟
اس کی وجہ وہی ہے جو ابتدائی سطور اور پیرے میں عرض کرچکا۔
ایک ایسے سماج میں جہاں غور وفکر انحراف اور سوال گستاخی سمجھے جائیں آگہی کیسے پروان چڑھ سکتی ہے۔
ہم ایک دوسرے کی بھد اُڑا کر تذلیل کرکے تسکین پاتے ہیں، تربیت کے کھوٹ کا قدم قدم پر مظاہرہ کرتے ہیں۔
زندگی کی حقیقتوں سے منہ موڑ کر اپنے فہم کو ابدی سچائی کے طور پر نہ صرف پیش کرتے ہیں بلکہ ہر اختلاف کرنے والے کو دشمن کا آلہ کار مشرک اور فسادی قرار دیتے ہیں۔
ہمارے یہاں حب الوطنی کا معیار دھرتی ماں سے محبت اس کے بچوں کیلئے علم' انصاف' آزادی اور مساوات کے حصول کی جدوجہد نہیں بلکہ اس خاص ریاستی بیانئے کو ایمان کا حصہ سمجھنا ہے
ریاستی بیانیہ جو اس امر کا متقاضی ہے کہ دہن میں انڈیلے گئے الفاظ بولو اور دیکھو ریاست کی آنکھ سے۔
اپنی عقل' آنکھوں اور زبان سے کام لینا حب الوطنی کی نفی ہے۔
پچھلے یوں کہہ لیجے کہ بیت گئے سارے ماہ و سال میں ہی کیا صدیوں سے یہی ہوتا چلا آرہا ہے، نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
دولے شاہ کے چوہوں اور سدھائے ہوئے غولوں کے سوا ادھر ادھر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
ایسے ماحول میں جو چند (یہ چند سو ہوں یا ہزار) زندگی کے اسرار ورموز کو سمجھ کر جینے کی آرزو کرتے دکھائی دیتے ہیں، ان پر آوازیں کسی جاتی ہیں۔
کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ لوگ اپنے پیٹ سے بندھے ہیں ان کے خیال میں مقصد زندگی لذت دہن اور شکم سیری کے سوا کچھ نہیں۔ اب تو بڑی دیر سے یہ سوچ رہا ہوں، مالک (مالک کل) کے حضور حاضری ہو تو عرض کروں۔
"میرے مالک!
کبھی ایک نسل زمین پر پیٹ کے دوزخوں کے بغیر اُتار کے دیکھ' ممکن ہے سب اچھا ہوجائے'
ورنہ جو ہے تیرے سامنے ہے۔
عقل کو بھوک' سوال کو نفس' ایثار کو خودپرستی کھا گئے"۔
پہلی بات پھر مکررعرض ہے
"مفلسی آرزوؤں کو کھانے لگ جائے تو خواب بنجر ہوجاتے ہیں"
بنجر خوابوں کیساتھ جینے کو زندگی نہیں ذلت کہتے ہیں، کاش یہ بات ہمارے عہد کے لوگ سمجھ سکیں۔
پسِ نوشت //
اہم بات یہ ہے کہ اگر رعایا عوام نہ بن پائے تو مستقبل کیا ہوگا؟ اس سوال پہ غور کیجے اپنے لئے اور اگلی نسلوں کے مستقبل کیلئے