ریاست، شہری اورمحتسب
کراچی میں ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب صبح و شام فرشتہ اجل کے قدموں کی چاپ سنائی دیا کرتی تھی۔ ہوتا یوں کہ آپ لائینز ایریا یا جیکب لائن پہنچے کہ فائرنگ شروع ہو گئی۔ ایک دن جیسے تیسے دفتر پہنچا اور سوچا کہ آج تو آنکھوں دیکھی ایک ایسی کہانی قلم بند ہو گی کہ لوگ برسوں یاد رکھیں گے۔
الطاف حسین کی ایم کیو ایم اور آفاق احمد کی ایم کیو ایم حقیقی کے مقابلے عام تھے جن میں متعلقین بھی کام آتے لیکن اکثر راہ چلتے لوگ بھی نشانہ بن جاتے، اس شوٹ آؤٹ کی "حکمت" یہ تھی کہ دومسلح گروپوں کو باہم متصادم کردیا گیا ہے۔
ایسی ہی افتاد تھی جس سے جان بچا کر دفتر پہنچ کر اوسان بحال کیے کہ ایک صاحب ہانپتے کانپتے دفتر میں داخل ہوئے۔ ہیئت کذائی دیکھ کر انھیں پانی پیش کیا جیسے ہی ان کے اوسان بحال ہوئے، انھوں نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ میری جانب دیکھا اور سوال کیا، میرا کیا قصور تھا؟ حیرت سے میں نے ان کی جانب دیکھا اور پوچھا کہ آپ کا مسئلہ میں سمجھ نہیں پایا ان کی تلخی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ صاحب کبھی کراچی کے صاحبان ثروت کی بستی نارتھ ناظم آباد میں درمیانے درجے کے تاجر تھے کہ شہر کے حالات بگڑ گئے۔
پولیس کسی قتل کے سلسلے میں بات چیت کے بہانے انھیں لے گئی۔ چند منٹ کی گواہی برسوں پر پھیل گئی۔ پہلے کچھ دن وہ تھانے میں بند رکھے گئے پھر جیل میں بند کردیے گئے۔ ان جیسے سفید پوش پولیس کے غضب کا نشانہ بن کر زندگیاں تباہ کر بیٹھتے ہیں۔ کسی مقام پر کوئی واقعہ رونما ہوجائے یاملک کے کسی حصے یا ایئر پورٹ جیسے اہم مقام پر کوئی دہشتگردی ہو جائے، تو پولیس گرفتاریاں ڈالنے لگتی ہے، ایسی شام کو ایک پریس ریلیز جاری ہوتا ہے جس میں خبر دی جاتی ہے کہ پولیس نے شہر کے مختلف علاقوں میں کارروائی کر کے دو سو، تین سو یا چار سو دہشتگردوں کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا ہے۔
پندرہ بیس برس ہوئے ہیں، ڈیرہ اللہ یار میں ایک جاننے والے زمیندار کسی سیاسی انتقام کے چکر میں جیل میں بند کر دیے گئے۔ کوٹھڑی میں اگرچہ وہ زمین پر ہی سویا کرتے تھے لیکن اس مختصر سی کوٹھڑی میں زندگی کی آسائش کا تمام سامان موجود تھا۔ ان سے رخصت لی تو وہ ہمیں چھوڑنے باہر گاڑی تک آگئے۔ جیل کا گیٹ کھولنے سے پہلے سنتری تقریباً رکوع میں جاکر ان کے اعزاز میں کورنش بجا لایا۔ ایسی جیل کے بھی اپنے مزے ہیں لیکن گہری سانولی رنگت والے اس شخص جس کانام سلیم الدین یا شاید اور کچھ تھا، اس جیسے لوگ جیل جا پہنچیں تو ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔
ابھی چند روز ہوئے ہیں جب وفاقی محتسب کے ادارے کی ششماہی رپورٹ کے کچھ حصے پڑھنے کو ملے۔ اس طرح کی رپورٹس عام طور پر نہ سمجھ میں آنے والے اعداد و شمار، پیچیدہ اور تیکنیکی انگریزی کا مرقع ہوتی ہیں جسے نہایت نفاست کے ساتھ زیور طبع سے آراستہ کر کے حکمرانوں کی خدمت میں پیش کر دیاجاتا ہے۔ قومی زبان میں مرتب کی جانے والی اس سادہ سی رپورٹ کو دیکھا تو برادرم محترم منور اقبال گوندل یاد آگئے۔ گوندل صاحب اپنی یادیں ایسے دل نشیں انداز میں بیان کیا کرتے ہیں کہ ہر واقعہ ایک سبق آموز کہانی بن جاتا ہے۔
انھوں نے ایک بار بتایا تھا کہ عین ان دنوں جب آتش جواں تھا، وہ کسی مسئلے سے دوچار ہوئے اور شاید ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں پیش ہوئے۔ یہ ان زمانوں کی بات ہے جب ڈپٹی صاحبان صرف انتظامی افسر نہیں ہوا کرتے تھے، انصاف کی کرسی پر جلوہ افروز ہوکر انصاف فرمایا کرتے تھے۔
گوندل صاحب کی یادداشت میں یہ واقعہ آج بھی کل کی طرح تازہ ہے کہ جس عدالت سے ان کا پالا پڑا، اس کا انداز ہی مختلف تھا۔ انصاف کی کرسی پر اکڑی ہوئی گردن والا کوئی صاحب بہادر نہیں بلکہ دکھی، بے آسرا، بے زباں اور ہتھ کڑیوں میں جکڑے خاک زادوں سے خود مخاطب ہونے والا ایک دھیما سا آدمی بیٹھا تھاجو انصاف کی بلٹ ٹرین پر بیٹھ کر فراٹے بھرنے کے بجائے سکون کے ساتھ مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا اور اطمینان ہو جاتا تو فیصلہ سنا دیتا۔ گوندل کا مسئلہ بھی شاید زور آوروں کے ہاتھ سے نکل چکا تھا کہ ایک صاحب درد کے ہاتھوں انجام کو پہنچا اور حق دار کو اس کا حق ملا۔"ہمارے صاحبان انصاف اگر ایسے ہو جائیں تو ہمارے ملک کے دکھ درد دور نہ ہو جائیں؟ "۔ یہ رپورٹ اسی ڈپٹی کمشنر کے ہاتھ سے نکلی ہے جس کے کاندھوں پر ان دنوں وفاقی محتسب کی ذمے داری ہے، میری مراد سید طاہر شہباز سے ہے۔
یہ رپورٹ میں نے دیکھی اور منور گوندل کے برسوں پرانے جملے کو یاد کیا کیوں کہ اس رپورٹ کا سب سے بڑا نکتہ وہ تقریباً ایک ہزار افراد تھے جو کراچی کے سلیم الدین کی طرح جیل کی دیواروں کے پیچھے جا پہنچے تھے لیکن خوش قسمتی سے وفاقی محتسب کے نوٹس میں آگئے اور انھیں آزادی کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے سانس لینے کا حق مل گیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سلیم کی طرح پہلے کسی کا کاروبار تباہ ہوتا نہ کسی کی بیوی بیمار ہو کر مر جاتی اور بچے بے آسرا ہو کر عبد الستار ایدھی کے سائے میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے۔
ایام نوجوانی میں وہ پہلی بار مری تھی جب میری سمجھ میں یہ آیا کہ ہمارے خوابوں کے دیس یعنی پاکستان میں لوگ ملک سے بیزار کیسے ہوتے ہیں؟ وہ اپنے ملک کو اپنا ملک کیوں نہیں سمجھتے، گھر کی چار دیواری کے اندر اپنی ذاتی چیزوں کی طرح پاکستان کی سڑکوں، عمارتوں، گلی کوچوں اور املاک کو اپنی املاک کیوں نہیں سمجھتے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب اپنے دیس میں دیس والوں کو جینے کا حق نہیں ملتا، ماں باپ کی موجودگی میں ان کے بچے یتیموں کی طرح پلتے ہیں، جرم بے گناہی میں ان کی آزادی سلب کر لی جاتی، کسی وجہ سے جینے کا حق تک ان سے چھین لیا جاتا ہے یا روزگار کے امکانات ان سے دور کر دیے جاتے ہیں تو جو بپتا ان پر ٹوٹتی ہے۔
اس میں وہ جو بھی کر گزریں، اعتراض مشکل ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج کا جملہ یاد آتا ہے جو کہا کرتے تھے کہ حب الوطنی غیر مشروط نہیں ہوتی۔ تو بات یہ ہے کہ سروسز فراہم کرنے والے ادارے بجلی اور گیس جیسی سہولتوں کی فراہمی کے نالائق ادارے اگر لوگوں کا جینا حرام کردیں، بچوں کی فیس یا بوڑھے والدین کے علاج کے لیے جمع پونجی یوں لے اڑیں تولوگوں کے دل پر کیا گزرے گی؟ ہمارے ہم وطن ان دنوں ایسے ہی مسائل سے دوچار ہیں اور بے بسی محسوس کرتے ہیں۔
یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ان دنوں سب سے زیادہ شکائیتیں ایسے ہی مسائل کی ہیں۔ بے بسی کے اس عالم میں وفاقی محتسب جیسا ریاست کا کوئی ادارہ اگر ان کی داد رسی کررہا ہے تو یہ بہت بڑی خدمت ہے کیوں کہ ریاست کے بڑے بڑے مسائل میں لوگوں کے یہ چھوٹے چھوٹے کام ہی عام آدمی کا رشتہ ریاست کے ساتھ مضبوط کرتے ہیں۔ وفاقی محتسب کم سن بچوں کے مسائل پر بھی توجہ دے رہے ہیں، یہ خدمت تو صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتی جو آنے والی نسلوں کو محرومی کے اندھیرے سے نکال کر امید اور روشنی کی طرف گامزن کر دے گی۔ میں پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس رپورٹ کے مطالعے کا موقع فراہم کرکے میرے لیے امید کے دیے روشن کیے۔