کراچی سرکلر ریلوے
ایک بجے کے لگ بھگ کلاسیں ختم ہو جاتیں تو کچھ لوگ سینٹرل مسجد کا رخ کرتے اور کچھ کیفے ٹیریا کا۔ یہ دونوں مقامات کشش رکھتے تھے۔ مسجد میں ظہر کی چار رکعتوں کے بعد طلبہ کی ٹولیاں صحن، برآمدے اور دروازوں کے کھلے چبوتروں پر دھرنا دے کر بیٹھیں اور باتوں کے وہ فوارے چھوٹتے کہ سننے دیکھنے والے سب بھیگ کے اٹھتے۔ کچھ ایسے ہی مناظر کیفے ٹیریا کے ہوتے۔ آلو کے کٹلٹ اور انڈاگھوٹالے کے ساتھ دو لقمے ٹھنڈی روٹی کے۔ مسجد میں تو صرف جمعیت والے ہی ہوتے لیکن کیفے ٹیریا میں محمود و ایاز سب ایک ہو جاتے اور اکٹھے بیٹھ کر غیبت سیشن چلاتے۔ کون فرزند جامعہ تھاجس کا دل ان سرگرمیوں میں نہ لگتا لیکن وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں، سفید پوش گھرانوں کے بچوں کو اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے دوگنا محنت کرنی پڑتی ہے، کلاسیں ختم ہوتے ہی وقت پر دفتر پہنچنے کے لیے میں منی بس کی طرف بھاگتا۔ دل اگرچہ کیفے ٹیریا لپکتا لیکن قدم جی تھری کی طرف بڑھتے۔
ڈبلیو الیون کی طرح جی تھری بھی اس زمانے میں کراچی کی مشہور و معروف منی بس تھی جو شہر کے ایک کونے یعنی ملیر چھاؤنی سے چلتی تو شہر کے بیچوں بیچ سے گزرتی ہوئی ساحل کے کنارے آباد ایک کچی بستی سعید آباد پہنچ کر دم لیتی، وہی سعید آباد جس سے چند قدم آگے بلوچستان کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ لمبا روٹ اور بہت سی سواریاں، کراچی کا ہر ٹرانسپورٹر یہی سوچ کر روٹ لیتا ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ قباحتیں بھی وابستہ ہیں لیکن ان قباحتوں کا تعلق منی بس والوں سے نہیں، اس میں سفر کرنے والوں سے ہے۔ جلدی نہ مچاؤ۔ لباس کی پروا نہ کرواور ڈرائیور گاڑی تیز چلائے خواہ آہستہ صبر شکر کر کے بیٹھے رہو۔ گاڑی کے آہستہ اور تیز چلنے کا تعلق کسی قانون یا ضابطے سے نہیں بلکہ سواری کی تعداد سے ہوتا۔ یہ بسیں جب اپنے کسی ٹھکانے سے روانہ ہوتی ہیں تو ان میں دو چار سواریاں ہوتی ہیں۔
اس لیے بس جوں کی رفتار سے چلتی ہے، آگے بڑھتے بڑھتے جب نشستیں پُر ہوجاتیں، اس کے بعد نشستوں کے درمیان دو فٹ کی راہداری میں بھی کمر سے کمر ملاکر پچیس تیس افراد کھڑے ہوجاتے اور پسینے کی بدبوسے سانس لینا محال ہو جاتا تو اس کی رفتار بھی بڑھ جاتی، دائیں بائیں سے گزرنے والی بس سے مقابلہ بھی ہوتا، ملکہ ترنم کے دلوں میں ان جانی سی امنگ بھر دینے والے گانے بھی بلند آواز میں سننے کو ملتے اور اچانک کسی پیدل چلتے مسافر یاپہلو سے گزرتی کسی گاڑی کو بچانے کی کوشش میں چیخیں مارتی ہوئی اس کی بریکوں کی آواز بھی دور تک سنائی دیتی، اگرچہ بریک مارنے کا فائدہ خال ہی دیکھنے میں آتا۔ بس، یوں سمجھئے کہ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کے سفر میں مسافر کے بلڈ پریشر کا درجہ نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے مسلسل سفر میں رہتا اور وہ اپنے ورثا کو پہنچنے والے کسی اچانک صدمے کے خوف سے حسب عقیدہ آیت الکرسی یا ناد علی کے ورد میں مصروف رہتا۔
وہ کوئی جبری قسم کی چھٹیاں تھیں جن میں فرزندان جامعہ سے ہاسٹل تک خالی کرا لیے گئے تھے، اس لیے مجبوراً گلشن اقبال میں ایک ایسے دوست کے ہاں پناہ لینی پڑی، سرکلر ٹرین کا گیلانی اسٹیشن جس کے پہلو میں گھر تھا۔ دفتر جانے کا وقت ہوا تو میں تھیلا گلے میں لٹکا کر اسٹیشن جا پہنچا، ٹکٹ لیا اور انگریزوں کے زمانے کی بوگی میں آڑی بچھی ہوئی کئی کئی گز طویل چوبی نشستوں میں ٹھسا ٹھس بھرے ہوئے مسافروں کو دیکھتا ہوا جی تھری کی طرح ہی پورے شہر سے گزر کر سٹی اسٹیشن کے اس بچھڑے ہوئے پلیٹ فارم پر جا پہنچا جو خصوصی طور پر سرکلر گاڑیوں کے لیے بنایا گیا تھا۔
روٹ اجنبی تھا، فاصلہ زیادہ تھا، وقت بھی معمول سے کچھ زیادہ ہی لگا لیکن مزہ آیا، بس، اسی مزے کی کشش میں گزشتہ روز بھی اسٹیشن پر جا پہنچا۔ ٹکٹ بابو نے کہا کہ ٹکٹ تو میں تمھیں دے دیتا ہوں لیکن ٹرین ابھی دوسری طرف سے بھی نہیں آئی، وہ جب کبھی ایک طرف سے آئے گی، دوسری طرف پہنچے گی پھر اُس طرف سے روانہ ہوگی اور یہاں پہنچے گی تو یہ ٹکٹ کار آمد ہوگی۔ میں نے دونوں طرف کے فاصلے اور اس میں لگنے والے وقت کا اندازہ لگایااوران میں اُس نامعلوم وقت کو جوڑا جب یہ ٹرین سٹی اسٹیشن سے امکانی طور پر چلتی، اندازہ ہوا کہ اتنی دیر میں تو چھٹی کا وقت ہو جائے گا۔ میں نے ایک تشویش آمیز نگاہ ٹکٹ بابو پر ڈالی اورسوچا کہ اس سے تو جی تھری ہی بھلی۔ بس، کوئی یہی زمانہ تھا فیصلہ سازوں نے سرکلر ٹرین کو مستقل طور پر ہی بند کردیا۔
اتنے برسوں اور اتنے زمانوں کے بعد اُس ٹکٹ بابو کا نیند میں ڈوبا ہوا چہرہ میری نگاہ کے سامنے آگیا جب ادبیات فیکلٹی سے نکل کر صدیوں کی خوشبو دیتی ہوئی طویل راہ داری سے گزر کر ہم باہر نکلے تو ڈاکٹرخلیل طوقار پلٹ کر کھڑے ہو گئے اور مسکراتے ہوئے پوچھا، فاروق بھائی، کہئے، میٹرو سے جانا ہے یا فیری سے؟ ہمیں ایک بر اعظم سے دوسرے براعظم کی طرف سفر کرنا تھایعنی یورپی استنبول سے ایشیائی استنبول کی طرف۔ شہر والوں کوباسفورس کے پانیوں پر تیرنے کی آرزو ہو تو فیری کا رخ کرتے ہیں اور ان ہی پانیوں کے پیٹ سے گزرنے کو دل چاہے تو میٹرو میں بیٹھتے ہیں۔ کئی برس پہلے نیو یارک کی زیر زمین سب وے کے سفر کا لطف میں بہت اٹھا چکا تھا لیکن دریائے ہڈسن کے نیچے سے گزرنے کی حسرت باقی تھی، میں نے میٹرو کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
کچھ دیر میں ہم جانے کتنی ہی سیڑھیاں نیچے اتر کر میٹرو اسٹیشن میں تھے۔ مجھے حاتم طائی کی یاد آگئی۔ حسن آرا نے ایک سوال کا راز پوچھا تھا: " ایک بار دیکھا، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے"۔ حاتم طائی یہ معمہ حل کر نے کے لیے ایک دریا کے کنارے پہنچتا ہے اورحلق تر کرنے کے لیے اس میں ہاتھ ڈالتا ہے تو کوئی ان ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لے کر اسے پاتال میں لے اترتا ہے جہاں ایک اور ہی دنیا آباد تھی، ڈاکٹر صاحب مجھے بھی ایک ایسی ہی دنیا میں لے آئے تھے۔ سیڑھیوں کے اختتام پر ایک بہت بڑا گول ہال، ایک ہی وقت میں جس سے بلا مبالغہ ہزاروں افراد گزر سکیں۔
میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تاکہ اپنے ریلوے اسٹیشنوں کی طرح اس کی اونچی دیواروں پربال کھولے روتی ہوئی اداسی کی ایک جھلک دیکھ سکوں لیکن مایوسی ہوئی کہ یہ دیواریں تو کسی میوزیم کی گیلری کی طرح عثمانی عہدکی چمکتی ہوئی مغل منی ایچر طرز کی توجہ جذب کرلینے والی تصویروں اور قرآنی خطاطی سے دعوت نظارہ دیتی تھیں۔ آگے بڑھ کرگیلری کئی راستوں میں تقسیم ہوگئی۔ مسافر آتے اور گنگناتے ہوئے ناک کی سیدھ اپنے اپنے پلیٹ فارم کی طرف بڑھ جاتے۔ میٹرو پکڑنے کے لیے نہ کوئی تیزی اور نہ بدحواسی۔ کچھ دیر میں ٹرین پہنچ گئی۔ دروازے کی ایک جانب سے مسافر اترنے لگے اور دوسری طرف سے چڑھنے لگے جو سوار ہونے کے لیے مخصوص نشانوں پر نہایت اطمینا ن سے قطار میں کھڑے تھے۔ میری نگاہوں میں اپنی جی تھری گھوم گئی نیز کراچی سرکلر ٹرین جن میں جگہ پانے کے لیے کرتے پھٹ جایا کرتے۔ (جاری ہے)