دیار شمس اور اس کا مسافر
ڈاکٹر طارق کلیم کو اللہ سلامت رکھے، ایک بار ان کے دل کا درد جاگا اور انھوں نے صحافتی ہنگامہ خیزی کے باعث زبان و ادب پر مرتب ہونے والے اثرات پر غور و فکر کا موقع فراہم کیا۔ کانفرنس بڑی کامیاب رہی کیوں کہ صحافت اور ادب، ان دونوں شعبوں کی بڑی اہم اور نمایاں شخصیات اس میں شریک ہوئیں جیسے کشور ناہید، عطا الحق قاسمی، ڈاکٹر طاہر مسعود، سید طلعت حسین، اوریا مقبول جان، ملک محمد معظم اور جناب سجاد میر۔ یہ کانفرنس یونیورسٹی آف سرگودھا میں ہوئی تھی۔
اب اگر کسی کو یاد رہ گیا ہو تو اس شہر میں ایک گورنمنٹ کالج بھی ہوا کرتا تھا۔ یہ جامعہ اسی کالج کی تاریخی عمارت میں قائم ہوئی۔ کانفرنس کی یادیں اپنی جگہ اہم اور خوب صورت ہیں لیکن مجھے سجاد میر کا ٹھٹھکنا یاد آتا ہے۔ میر صاحب جیسے ہی یونیورسٹی میں داخل ہوئے، ان کی آنکھیں چمک اٹھیں، ان کے کشمیری امرتسری چہرے پر حیرت اور مسرت کے رنگ کھل اٹھے اور انھوں نے طارق کلیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یار! یہ تو ہو بہو گورنمنٹ کالج ساہیوال ہے۔ ان دو شہروں کے تاریخی کالجوں کی عمارت میں مشابہت اپنی جگہ، ان شہروں کی ادبی روایت میں بھی بڑی مماثلت ہے جیسے مجید امجد ساہیوال کی خاک سے اٹھ کر شعر و ادب کے آسمان پر جگمگائے تو سرگودھا بھی شکیب جلالی جیسے دیے سے جگمگا رہا ہے۔ شکیب جلالی کے علاوہ بھی شعر و ادب کے ستاروں کی ایک کہکشاں ہے جو اس شہر کے افق پر طلوع ہوئی اور اس کی روشنی دور دور تک پہنچی۔ اسی کہکشاں کا ایک چمکتا ہوا ستارہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر بھی ہیں۔
ہماری عمر کو پہنچنے والی نسل کے بچپنے میں بزرگوں کا خیال ہوتا تھاکہ اگر بچوں نے آیندہ زندگی میں کوئی کامیابی حاصل کرنی ہے تو ضرور انھیں ڈاکٹر بننا چاہیے یا پھر پائلٹ، اسی درجے میں انجینئر وغیرہ بھی آتے تھے۔ شاید ایسا ہی کوئی خیال زاہد کے والدین کے ذہن میں بھی رہا ہو گا کہ انھوں نے اپنے نونہال کو کالج آف ٹیکنالوجی کے سپرد کیا لیکن اس بچے پر تو کوئی اور ہی دھن سوار تھی۔ والدین کا خیال ہو گا کہ لڑکا ذہین ہے، اس شعبے میں جا کر پھلے پھولے گا، اپنا نام روشن کرے گا اور فخر سے ہمارا سر بھی بلند کرے گا لیکن اس لڑکے کا دل مشینوں کے بجائے کتابوں میں لگتا تھا۔ یہی سبب تھا کہ جب ابھی اس کی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں، وہ ایک کتاب کا مصنف بن گیا۔
گورنمنٹ کالج میں خبر ہمیشہ کیفے ٹیریا سے چلا کرتی جس کے سموسے اور گاجر کا حلوہ سردیوں کے موسم میں کیا طلبہ، کیا اساتذہ، ہر ایک کو دور دورسے کھینچتا۔ دور سے یوں کہ شہر کے دیگر تعلیمی اداروں سے وابستہ زبان و ادب کے اساتذہ اگر وقت نکال کر ادھر کا رخ کرتے تو ان کی پیروی میں کچھ طلبہ بھی یہاں چلے آتے، یوں ا س مقام کی نوعیت ایک ادبی ڈیرے کی سی ہوگئی تھی۔ کیسی کیسی نفیس شخصیات، عالموں، شاعروں اور ادیبوں کی گل افشانی گفتارکی خوشبو ان سبزہ زاروں سے اٹھی اور دور دور تک پہنچی۔
سردیوں کی وہ دوپہر مجھے اچھی طرح سے یاد ہے جب استاد محترم سید ارشاد حسین نقوی کی محفل میں ہم نے میر انیس کے مرثیے کو سمجھا۔ اللہ انھیں صحت و سلامتی کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائے، استاد گرامی کے پڑھانے کا طریقہ اب بھی یاد آتا ہے تو دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ ان کے پڑھانے میں ایک آرٹ تھا، وہ بات کرتے تو شاگردوں کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے۔ میر انیسؔ کا مرثیہ رشتے ناتے کی پیچیدگی، منظر کی تفصیلات اور جذبے کی آنچ سے وجود میں آتا ہے اور پڑھنے والے کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس دن کی گلابی دھوپ کی حدت میں نقوی صاحب نے جیسے ہی بات شروع کی، سننے والے ٹرانس میں چلے گئے۔
بس، یہ اسی دن کی بات ہے، نقوی صاحب نے جیسے ہی بات مکمل کی، کسی نے کہا کہ زاہد صاحبِِ کتاب ہو گیا۔ یہ تو ذہن میں نہیں کہ زاہد اس وقت تک کالج آف ٹیکنالوجی کو چھوڑ کر گورنمنٹ کالج میں ڈاکٹر خورشید رضوی جیسے نابغہ علم و ادب کے زیر تربیت آئے تھے یا نہیں لیکن لکھنے پڑھنے والے حلقے میں ان کی شہرت آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی۔ یہ خبر سن کر تھوڑا سا حسد ہوا کہ یار یہ لڑکا تو آگے نکل گیا۔ یہ شاید ان کے انٹر میڈیٹ کے زمانے کی بات ہے یا پھر بی اے میں داخلے کے بعد کے ابتدائی دنوں کی جب انھوں نے آغا شورش کاشمیری مرحوم کے خطوط نہ صرف مرتب کر دیے بلکہ انھیں شایع کر کے اپنے ہم عصروں کو پریشانی میں بھی مبتلا کر دیا۔
زاہد کا شمار آج ملک کے اہم اہل قلم اور دانش وروں میں ہوتا ہے لیکن اُس زمانے میں بھی ان کے مزاج میں سنجیدگی اور بے نیازی کی ایسی کیفیت تھی جس کی وجہ سے ارد گرد کے ماحول کے اثرات وہ کم ہی قبول کرتے، نتیجہ یہ نکلا کہ انھیں کبھی معلوم ہی نہ ہو سکا کہ ان کے ہم عصر ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ وہ نہایت سنجیدگی اور ظالمانہ بے نیازی کے ساتھ اپنے کام میں محو رہتے۔ یہ ان کی اسی مستقل مزاجی کا نتیجہ ہے کہ آج اس کے باوجود کہ اللہ کے فضل و کرم سے بہت سے ادیبوں، شاعروں اور بزرگ اہل علم کا سایہ ہمارے سروں پر موجود ہے، اس علمی کہکشاں میں زاہد الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔
زاہد اس تحریر کا موضوع کیوں بنے؟ اس کا سبب ان کے صاحبزادے محمدحذیفہ ہیں جنھوں نے امتحان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو موجودہ دور کی روایت کے مطابق باپ نے نہ تو پی ایس فور، فائیو جیسی مہنگے ڈیجیٹل کھیلوں کے آلات خرید کر انھیں دیے اور نہ اس بچے کے دل میں کوئی ایسی خواہش پید اہوئی جیسی خواہشات کے دباؤ تلے اس دور کے والدین اکثر دبے رہتے ہیں۔ باپ نے کسی زمانے میں بیٹے کو نصیحت کی ہو گی کہ سیرو فی الارض۔ بیٹے نے یہ نصیحت پلو سے باندھ لی اور جب موقع آیا، معصومیت سے اس کا اظہار کر دیا۔ او لیول کے امتحان میں بچے نے باپ کا دامن خوشی سے بھر دیا تو باپ نے جمع پونجی اکٹھی کی اور اپنے لخت جگر کو لے کر ترکی جا پہنچے۔
"دیار شمس" اسی سفر کی داستان ہے جس میں ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ کوچہ گردی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس داستان میں کبھی وہ اپنے بیٹے کو تاریخ کے کسی راز سے آشنا کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی کسی پُر تجسس سیاح کی طرح ترکی کے گلی کوچوں میں کھوئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ترکی میں ہمارے لوگوں کا آنا جانا بہت ہے، کئی احباب کے سفر نامے بھی شایع ہو چکے ہیں لیکن ان سفر ناموں میں دیار شمس اس لیے نمایاں ہے کہ اس میں دو برادر ملکوں کے تاریخی، روحانی اور جذباتی تعلق کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب ہمارے ادب کی ایک گم گشتہ روایت کا احیا بھی ہے۔ ماضی میں صوفی تبسم، مولوی اسمٰعیل میرٹھی اور آخر میں حکیم محمد سعید جیسے قدآور بزرگوں نے اپنی تمام تر بزرگی کے باوجود بچوں کے لیے لکھنا ضروری خیال کیا لیکن رفتہ رفتہ یہ روایت دم توڑ گئی۔"دیار شمس" اسی خوبصورت روایت کا احیاء ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ کتاب صرف بچوں کے لیے لکھی گئی ہے، اس کا ایک سبب تو یہی رہا ہو گا کہ آج کے بڑوں کی تربیت پر بھی توجہ کی اتنی ہی ضرورت ہے، ماضی میں جتنی توجہ ہمارے بزرگ بچوں پر دیا کرتے تھے۔