شنگھائی سربراہی کانفرنس سنہری مستقبل کا دروازہ
دنیا کی وہ اکنامک پیرا ڈائم شفٹ جس کی تیاریاں پچھلے بیس سالوں سے منظر عام پر نمودار ہونا شروع ہوگئی تھیں اب زیادہ واضح ہوچکی ہیں جس کے بنیادی خد و خال میں یورپ اور امریکہ کی جگہ ایشیاء اور اردگرد کے ممالک کے اتحاد سے معاشی مرکز کا ایشیاء میں شفٹ ہونا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا میں اس وقت کئی ایسے اتحاد موجود ہیں جو معیشت یا سکیورٹی اور دفاعی ضروریات کیلئے بنائے گئے ہیں۔ ان میں بڑے اتحاد جیسا کہ جی سیون، جی ٹوئنٹی، کواڈ، نیٹو اور ایس سی او ہیں۔ جی سیون اور جی ٹوئنٹی تو معیشت اور اقتصادی امور کی بنیاد پر بننے والے الائنس ہیں جن کی توجہ کا مرکز رکن ممالک میں معاشی استحکام، ترقی اور سیاسی ہم آہنگی کا فروغ ہے۔ اسی طرح شنگھائی تعاون تنظیم کے مقاصد بھی افرو ایشیائی ممالک کے اتحاد سے اور خطے میں معاشی و ثقافتی تعاون سے امن و ترقی کو بڑھاوا دینا ہے۔
بلاشبہ شنگھائی تعاون تنظیم کا مقصد یہ نہیں کہ یہ مغربی اتحادوں سے کسی قسم کا تصادم اختیار کرے گی، بلکہ اس کا اولیں مشن دوسری معاشی اتحادی تنظیموں سے توازن پیدا کرنا اور معیشت کے یکساں مواقع اور سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس اتحاد سے خطے میں کشیدگی کم کرنا تنظیم کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001ء میں چین اور روس نے رکھی تھی جسکے اراکین میں اب قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان، انڈیا اور ایران بھی شامل ہیں۔ چونکہ آبادی کے لحاظ سے دو بڑے ممالک انڈیا اور چین اس تنظیم کے رکن ہیں اس لیے یہ تنظیم دنیا کی کل آبادی کے 40 فیصد کا ایک فورم ہے۔
پاکستان 2005ء سے 2017ء تک اس تنظیم کا آبزرور رکن رہا اور پھر جولائی 2017ء میں اسے باضابطہ طور پر ایس سی او میں شامل کیا گیا۔
اس تنظیم کا آغاز ایک یوریشیائی سکیورٹی تنظیم کے طور پر ہوا، جس کا مقصد روس، چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان سکیورٹی اور استحکام کو فروغ دینا تھا۔ 2017ء میں، انڈیا اور پاکستان کی مکمل رکنیت اور افغانستان کی مبصر کی حیثیت سے شمولیت کے بعد، تنظیم نے اپنے دائرہ کار کو وسیع کیا۔ گذشتہ برس ایران کو بھی تنظیم کی باقاعدہ رکنیت دے دی گئی۔ اب ایس سی او کی توجہ دہشت گردی، انتہا پسندی، منشیات کی سمگلنگ اور بنیاد پرستی جیسے مشترکہ مسائل پر ہے۔
پاکستان میں ہونیوالی شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس ایک اہم تقریب ہے جو اقتصادی انضمام اور علاقائی تعاون کی طرف ملک کی تزویراتی تبدیلی کو اجاگر کرتی ہے۔ پاکستان کا شنگھائی تعاون تنظیم کی گورننگ باڈیز کیلئے سالانہ مواقع، بشمول کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ، کونسل آف ریجنل اینٹی ٹیررازم سٹرکچر، اور کونسل فار ہیڈز آف سٹیٹ، علاقائی اور عالمی سطح پر روابط کو فروغ دینے اور دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اس کے عزم کی علامت ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ بڑا واضح ہے کہ اس سرگرمی کا سب سے زیادہ بینیفشری پاکستان ہوگا۔
پاکستان کی اقتصادی تبدیلی روس اور SCO کے دیگر رکن ممالک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہے، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے ذریعے۔ سی پی ای سی قدرتی طور پر علاقائی روابط اور تجارت کے فروغ کے ایس سی او کے اہداف سے ہم آہنگ ہے۔ پاکستان کا انسداد دہشت گردی کا وسیع تجربہ اور شنگھائی تعاون تنظیم کے علاقائی انسداد دہشت گردی کے ڈھانچے (RATS) میکانزم کے ساتھ تعاون بھی اسے خطے میں سیکیورٹی تعاون کو فروغ دینے کیلئے ایک فطری شراکت دار کی حیثیت دیتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اندر پاکستان کی اہم سٹریٹجک ترجیحات شامل ہیں جس میں خود کو ایک قابل اعتماد پارٹنر کے طور پر قائم کرنا، خاص طور پر ہندوستان کی پاکستان مخالف حکمت عملیوں کو سمجھتے ہوئے اور مغربی ترجیحات کے ادراک کے ساتھ اپنی اقتصادی ترجیحات کا تعین کرکے پوزیشن لینا ناگزیر ہے۔ پاکستان کیلئے اس معاملے میں سب سے نازک پہلو یہی ہے کہ بھارت جیسے ملک کے ساتھ دشمنی کو کم کرتے ہوئے علاقائی معیشت کیفروغ کیلئے دوطرفہ تعلقات میں بہتری لا کے تنظیم کے بنیادی مقاصد سے خود کو ہم آہنگ کیا جائے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا ایجنڈا چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کے ساتھ ہم آمیز ہے اور پاکستان کا CPEC اس ہم آہنگی کا ایک لازمی جزو ہے۔ جغرافیائی معیشت کے ماہرین SCO فورم میں اقتصادی تعاون میں شمولیت اور کثیر جہتی شرکت کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ خاص طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کے اندر مالیاتی انضمام بہت اہمیت رکھتا ہے، ماہرین رکن ممالک کی متنوع معیشتوں کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں اور اقتصادی صلاحیت کو مؤثر طریقے سے فائدہ اٹھانے کیلئے برآمدات میں اضافے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
اگرچہ تنظیم کے ذمہ داران کی طرف سے تو ابھی تک اس طرح کا کوئی تاثر نہیں دیا گیا نہ ہی دیا جائیگا لیکن پولیٹیکل اکانومی کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ شنگھائی تعاون امریکی ڈالر کی بین الاقوامی اجاری داری پر کاری ضرب لگائیگا۔ جس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت تنظیم کے اندر اور باہر علاقائی کرنسیوں میں تجارت کے امکانات پر بطور خاص بحث جاری ہے۔
پاکستان میں کانفرنس کی میزبانی سے یہ صاف ظاہر ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاسوں اور اقدامات میں فعال طور پر شرکت کرکے پاکستان کا مقصد وسطی ایشیاء کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات کو مضبوط بنانا اور چین کے ساتھ اپنی جامع اسٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس کا منعقد ہونا علاقائی تعاون اور اقتصادی انضمام کیلئے ملک کے عزم کو اجاگر کرتا نظر آتا ہے جو کہ اس کی اقتصادی حکمت عملی میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ بننے سے پاکستان کو مستقبل میں مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
1۔ پاکستان کی تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا کیونکہ تنظیم کی رکنیت 3 بلین سے زیادہ لوگوں کی وسیع مارکیٹ تک رسائی فراہم کرتی ہے، جس کی وجہ سے ایک تو پاکستان کی برآمدات میں اضافہ متوقع ہے اور دوسرا اس سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی بڑھوتری ممکن ہے۔
2۔ علاقائی رابطوں پر تنظیم کی توجہ کی وجہ سے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے روابط بڑھیں گے جس سے ملک کے انفراسٹرکچر کی ترقی میسر آئیگی۔ خاص طور پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کے ذریعے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے، بشمول سڑکیں، ریلوے اور توانائی کے منصوبوں کو تقویت ملے گی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے بنیادی مقاصد میں ممبر ممالک کو توانائی کے منصوبوں پر تعاون میں سہولت فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ پاکستان کی ترجیح بھی ملک کی توانائی کی سلامتی اور سٹیبلیٹی کو یقینی بنا کر ہرممکن کوشش کرنا ہے کہ ملک کو اس کی جغرافیائی پوزیشن کا زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہندوستان کے ساتھ تجارتی فروغ کا چیلنج قبول کرتے ہوئی شنگھائی تعاون تنظیم کے اقدامات میں فعال طور پر حصہ لے کر، پاکستان ایک روشن اقتصادی اور تزویراتی مستقبل کو یقینی بناتے ہوئے وطن عزیز کیلئے ان گنت فوائد کا دروازہ کھول سکتا ہے۔
اگرچہ بھارتی وزیر خارجہ پاکستان سے جاتے ہوئے خلافِ معمول اچھے کلمات کے ساتھ رخصت ہوئے ہیں لیکن نفرت کی دیوار جس بلندی تک لے جائی جاچکی ہے اب اسے گرانے کیلئے دونوں میں سے کس ملک کی لیڈرشپ کیا اقدامات اٹھاتی ہے اس کا اندازہ لگانا ابھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔