فریم سے باہر
اردو ادب میں ایک عرصہ سے بڑی کہانی اور اعلیٰ افسانہ کم ہوتا ہوتا نایاب ہو کر رہ گیا ہے۔ ویسے بھی ہماری ادبی تاریخ میں عہد حاضر کو ناول کے عہد کو طور پر یاد رکھا جائے گا۔ البتہ یہ جو ڈاکٹر اظہار اللہ اظہار، فرحت پروین، طارق بلوچ صحرائی، ارشد رضوی اور ثمینہ سید اور دعا عظیمی کی صورت کہیں کہیں کہانی کے چراغ ٹمٹماتے دکھائی دیتے ہیں کہانی کو ناپید ہونے سے بچانے کے لیے کافی ہیں۔
دعا عظیمی اگرچہ ایک نئی اور تازہ دم لکھاری کے طور پر ابھی ابھی وارد ہوئی ہیں لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ وہ تخلیقی قابلیت میں کسی سے کم نہیں ہے۔ دعا عظیمی بلا شبہ ایک نہایت طاقتور تخلیقی نثر نگار ہے جس کی نثر کی پہلی خوبی ہی اس کا شاعرانہ ہونا ہے۔
دعا کی کہانیاں علامتی بھی ہیں اور بیانیہ بھی۔ اس کے ہاں علامتوں، تشبیہات اور استعاروں کا استعمال اس کی نثر کو سادہ بیانیے سے نکال کے تخلیقی نثر سے جا ملاتا ہے۔ یہاں پر ایک وضاحت بھی ضروری ہے کہ دعا کی نثر مرصع نثر نہیں ہے تخلیقی نثر ہے۔
مرصع اور تخلیقی نثر کا بنیادی فرق یہی ہوتا ہے کہ مرصع نثر نثر کے خارجی سٹرکچر کی خوبصورتی پیدا کرتی ہے جب کہ تخلیقی نثر باطنی کیفیات اور فضاء کے ابلاغ کا باعث بنتی ہے۔ میرے نزدیک فطری تخلیق کار ہمیشہ احساسات اور کیفیات کے اظہار کی مجبوری کے باعث ادب اور دیگر فنون لطیفہ کی طرف آتا ہے۔
فیشن، ماحول اور کسی دنیاوی مفاد کے لیے ادب کی طرف آنے والے لفظی بازیگر زندگی بھر لوگوں کو حقیقی ادب سے دور رکھنے اور کنفیوز کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ فطری فنکار یہ جانے بغیر کہ اس نے اپنی کیفیات کے اظہار کے لیے کب اور کیسی تشبیہات، استعاروں اور علامتوں کو استعمال کیا، تخلیقی عمل سے گزرتا ہے۔
دعا عظیمی بھی اسی راستے کی مسافر ہے۔ اس کے ہاں باطنی فضا اور کیفیاتی مد وجزر کا اظہار طاقتور مجرد در و بست سے تشکیل پاتا ہے۔
کتاب کی پہلی کہانی سے مجرد تشبہات کے استعمال کی مثال دیکھیے "وہاں کی کالی ہوا شانگلے کی شفاف ہوا کو موت بھرے نوحے بھیجتی مگر یہاں کی ہوا برف کی طرح سرد اور خدا کی طرح خاموش تھی"۔
میں نے "فریم سے باہر" کی چند ہی کہانیوں کے مطالعے سے یہ بھی جانا ہے دعا عظیمی کے موضوعات کا کینوس گلوبل اور بیانیہ نظریاتی ہے۔ اسے ہر بڑے نثر نگار کی طرح جملوں کی ساخت سے کہانی کے باطن کی فضا کو قائم رکھتے ہوے اسے خارجی فضاء میں لے آنے کا نہ صرف ہنر آتا ہے بلکہ یہ ہنر اس کی بنیادی خوبیوں میں سے ایک ہے۔
کہانی کالی ہوا سے چند لائینیں دیکھیے "جوان بھائی کو پردیس بھیجتے ہوے اس نے اچھے خواب نہیں دیکھے تھے۔ اس وادی میں ویسے بھی خوابوں پہ جنازوں کا سایہ تھا۔
جس گاؤں میں ہر ہفتے کم از کم ایک چارپائی ضرور اٹھتی ہو وہاں خوابوں پہ ہریالی کیسے آسکتی ہے "۔
ایک اور پہلو جو گہرے تجزیے کا متقاضی ہے وہ ہے کہ اس کی کہانیوں کے فریم سے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں موت اور موت سے جڑے ہوے المیے ضرور جھانکتے دکھائی دیتے ہیں۔ مجموعے کی چھوٹی اور مختصر کہانیوں میں بڑے موضوعات پوری تخلیقی اور علمی خوش اسلوبی سے اس طرح نبھائے گئے ہیں کہ تین سے چار صفحے کی کہانی پڑھ لینے کے بعد قاری کو کوئی عمدہ اور ضخیم ناول پڑھ لینے کی سرشاری حاصل ہوتی ہے۔
یقین کیجئیے کہ "فریم سے باہر" کی پہلی کہانی، "کالی ہوا" کے اختتام پر میری کیفیت وہی تھی جو میکسم گورکی کے ناول، "ماں" کو پڑھ لینے کے بعد ہوئی تھی۔