عمر شیخ کی رہائی اور پاک امریکہ تعلقات
احمد سید عمر شیخ کی رہائی کے فیصلے نے پاک امریکہ تعلقات میں نئی چپقلش کا دروازہ کھول دیا ہے۔ آج سے انیس برس قبل، 2002 میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے عمر شیخ کو امریکی صحافی ڈینئیل پرل کواغوا اور قتل کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائی۔ اہم ہونے کے باوجود یہ مقدمہ عدالتی پیچ و خم اور سست روی کے باعث کسی انجام کو نہ پہنچ سکا۔ پھر پچھلے سال سندھ ہائی کورٹ نے عمر شیخ کی درخواست پر سماعت کے بعد نہ صرف اسکی سزائے موت معطل کی بلکہ اسے بری کرنے کا فیصلہ بھی جاری کر دیا۔ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی مگر فیصلے میں تبدیلی نہ آسکی۔ امریکی حکومت ڈینئیل پرل کی فیملی اور انسانی حقوق کے ادارے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اعتراض کر رہے ہیں۔ چونکہ ایسے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل بھی فیصلہ دینے والے جج کی عدالت میں سنی جاتی ہے اس لیے قانونی ماہرین کو یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔
امریکہ کے نئے سیکرٹری آف سٹیٹ اینتھنی بلنکن نے اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فونی رابطے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو دنیا بھر میں دہشت گردی سے متاثرین افراد کی توہین قرار دیا ہے۔ انہوں نے عمر شیخ کو امریکہ کی تحویل میں دینے کا مطابلہ کیا ہے تاکہ اس کے خلاف امریکہ میں مقدمہ چلایا جائے۔
پاکستان کے لیے یہ مقدمہ کسی ٹیسٹ کیس سے کم نہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نے دہشت گردی اور اس کے سرپرستوں کے خلاف جنگ میں کسی قسم کی رعایت نہیں برتی۔ نہ صرف عالمی برادری بلکہ پوری دنیا پاکستان کی اس کوشش پر سراپا ستائش ہے۔ فیٹف کے بعد تو پاکستان کی اس معاملے میں کارکردگی مزید بہتر ہوئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی سنجیدگی کا پہلو یہ بھی ہے کہ ہم نے بہت سی عسکریت پسند تنظیموں اور ان کے کارکنوں کے خلاف کامیاب کاروائیاں کیں مگر ڈینئیل پرل کے مقدمے کا فیصلہ بہر حال ہمارے عدالتی نظام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر عالمی سطح پر سوال اٹھا رہا ہے۔ ڈینئیل قتل کیس کا مقدمہ بین الاقوامی نوعیت کا ہونے کے باوجود استغاثہ کی غیر پیشہ وارانہ کارکردگی کا ہدف بنتا رہا۔ شواہد کی عدم فراہمی ہو یا گواہان کے تحفظ کا معاملہ یا مقدمے میں عدم دلچسپی، جس کی بنا پر کئی جج تبدیل کیے گئے۔ مجموعی تاثر یہی ہے کہ استغاثہ کی غیر سنجیدگی مقدمے کے بروقت فیصلے اور ملزمان کو سزا دینے میں حائل رہی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسداد دہشت گردی کے عمل کو موثر بنانے کے لیے پاکستان کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
ڈینئیل پرل وال سٹریٹ جنرل میں جنوبی ایشیاء کے لئے بیورو چیف تھا۔ وہ پاکستان میں عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر رپورٹ لکھنے کی غرض سے آیا تھا۔ عمر شیخ نے اس معاملے میں اسے مدد کی یقین دہانی کروائی اور کراچی بلایا جہاں اسے القاعدہ کے حوالے کر دیا گیا۔ پرل کے قتل کا الزام خالدشیخ پر لگایاجاتا ہے جسے مبینہ طور پر 9/11 کا ماسٹر مائنڈ بھی مانا جاتا ہے۔ مئی 2002 میں پرل کی لاش کراچی سے باہر ایک نرسری سے ملی۔ کہا جاتا ہے کہ ڈینئیل پرل کا قتل القاعدہ کا امریکہ کو افغانستان پر حملے کا پہلا پر تشدد جواب تھا۔ عمر شیخ نے ہمیشہ اس مقدمے کو اپنے خلاف سازش اور اسلام و کفر کے مابین جنگ سے تعبیر کیا۔ اپنے ایک خط میں عمرپرل کے قتل میں اپنا کردارمعمولی نوعیت کا بیان کرتا ہے۔ اسی لیے شائد عمرسزاوں کے خلاف اپیل دائر کرتا رہا۔
عمرشیخ کا تعلق برطانیہ میں مقیم دولت مند پاکستانی گھرانے سے ہے۔ اکیسویں صدی کے ابتدا میں تہذیبوں کے تصادم جیسے مفروضوں سے پیدا ہونے والی اسلام دشمن قوتوں نے بہت سے پڑھے لکھے مسلم نوجوانوں کوعسکریت پسندی کی طر ف مائل کیا۔ یوگوسلاویہ کی تقسیم کے بعد بوسنیا کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور قتل وغارت نے عمر شیخ پر گہر ے اثرات مرتب کئے اور وہ ان کی مدد کے لیے 1992 میں بوسنیا پہنچ گیا۔ لندن واپس پہنچنے کے بعد تعلیم کو خیرباد کیا اور لندن سکول آف اکنامکس جیسے بڑے تعلیمی ادارے کو چھوڑ کر افغانستان میں القاعدہ سے منسلک حرکت المجاہد ین میں تربیت کے غرض سے شمولیت حاصل کی۔ جولائی 1994 میں عمر شیخ کو دہلی میں ایک امریکی اور تین برطانوی شہریوں کے اغوا کے جرم میں پکڑ لیا گیا۔ دسمبر 2000 میں ایک بھارتی جہاز کو یرغمال بنا کر افغانستان کے شہر قندھار لے جایا گیا۔ مسافروں کی جان کے بدلے عمر شیخ اور اسکے دوسرے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا، جو کامیا ب رہا۔
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے عمر شیخ کو امریکہ کے حوالے کرنا ممکن نہیں۔ مستقبل میں یہ معاملہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تلخیاں پید ا کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔
چین کے ساتھ ہمارے معاشی و سماجی تعلقات جس قدربھی بہتر ہو جائیں، پاکستان کے لیے امریکہ کو نظر انداز کر کے علاقائی معاملے میں کسی قسم کی پیش رفت کرنا ممکن نہیں۔ ہماری سب سے بڑ ی مجبوری غیر ملکی مالیاتی اداروں پر انحصار ہے۔ ان اداروں کی کنجیاں امریکہ کے ہاتھ میں ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمر شیخ کے حق میں دیے گئے اس فیصلے کا فیٹف پر کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں۔ پاکستان کو سفارتکاری بروے کار لاتے ہوئے ابھی سے اس معاملے پر گرفت مضبوط کر لینی چاہیے تاکہ بعد میں ہم ہمیشہ کی طر ح ہاتھ ملتے نہ رہ جائیں کیونکہ اس کیس کو بھارت بھی ہمارے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔