ہم سب غدار ہیں
سمجھ نہیں آتا جس ملک میں اتنے سارے لوگ غدار ہوں وہ ملک ابھی تک دنیا کے نقشہ پر باقی کیوں ہے۔ حسین شہید سہروردی سے شروع ہونے والاغداروں کا یہ سلسلہ فاطمہ جناح سے ہوتاہواخان عبدالغفار خان، پھر اُن کے بیٹے ولی خان، اورپھر اکبر بگٹی سمیت محمود خان اچکزئی اوراب میاں نوازشریف کے ساتھ ساتھ کشمیر کے وزیراعظم تک جاپہنچا۔ لگتاہے یہاں محب وطن لوگ بہت کم ہیں۔ ہر کوئی ملک دشمن بناہوا ہے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے حصے کے کشمیر میں بھی اپنے ہاتھوں سے منتخب کرکے ایک غدار کو ہی اُس کاوزیراعظم لگادیا ہے۔
اب بھارت جو ہمارا ازلی دشمن ہے اُس کے لیے تو کام بہت آسان ہوگیاہے کہ وہ جب چاہے ہمارے والے کشمیر کو بھی اپنے کشمیر کے ساتھ ضم کرلے، اُس کے لیے اُسے کسی جنگ کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ جس طرح اُس نے جموں و کشمیر پر راتوں رات وہاں کے حکمراں مہاراجہ ہری سنگھ کی مدد سے قبضہ کرلیاتھابالکل اُسی طرح وہ آج آزاد کشمیر پر بھی راجہ فاروق حیدر کی مدد سے بھی باآسانی قبضہ کرسکتا ہے۔
غداری کا لیبل لگانے والے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ وہ کیاکررہے ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کاقصور کیاتھا۔ وہ ایک آمر کے مدمقابل الیکشن لڑرہی تھیں۔ کیااُن کابیانیہ بھی اُس وقت کے بھارتی بیانیہ سے مل رہاتھا۔ کیا بھارت نے انھیں اُکسایاتھا کہ وہ اپنی حکومت کے خلاف نبردآزماہوجائیں اور اگر وہ الیکشن میں دھاندلی کے ذریعہ ہروائی نہیں جاتیں تو شاید پاکستان کی پہلی خاتون حکمراں کااعزاز بھی حاصل کرلیتیں۔ الزام لگانے والوں نے یہ بھی نہیں سوچاکہ وہ جس پر الزام لگارہے ہیں وہ بانیِ پاکستان کی ہمشیرہ بھی ہیں۔ اُن کی اِس ہرزہ سرائی اور دشنام طرازی کی زک براہ راست قائداعظم کو بھی پہنچ سکتی ہے۔ اِسی طرح بعد میں آنے والے حکمرانوں نے بھی یہی وتیرہ اپنائے رکھا۔
جب سیاست میں دلائل اور تاویلات باقی نہ رہیں تو پھر یہی حربہ استعمال ہمیشہ استعمال کیاجاتا ہے۔ کبھی انھیں ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت کئی سالوں تک اپنے عقوبت خانوں میں بند کرکے اور کبھی انھیں لاپتہ کرکے منظر نامہ سے ہی غائب کیاجاتا رہا ہے اور پھر بھی بس نہ چلے تو پولیس مقابلہ یا پھر کوئی ان کا کاؤنٹر شوکرکے اُن کی زندگی ہی ختم کردی جاتی ہے۔ جناب اکبر بگٹی کے ساتھ بھی یہی گھناؤناکھیل کیا گیا۔ وہ وقت کے حکمرانوں سے کیاچاہتے تھے۔ اگر اُن کے مطالبے ناجائز تھے تو پھر انھیں عوام کے سامنے یاعدالتوں کے روبرو پیش کیاجانا چاہیے تھا۔
اکبربگٹی وہ شخص تھے جنھوں نے ہمیشہ آئین پاکستان سے اپنے حلف کی وفاداری نبھائی۔ وہ پارلیمنٹ کے ایک بار نہیں کئی بار رکن بنے اوربلوچستان کے گورنرشپ کے علاوہ وہ ایک مرتبہ وفاقی وزیر داخلہ اورایک بار وزیرمملکت برائے دفاع بھی بنے۔ وہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کاخاتمہ چاہتے تھے، وہ بلوچ قوم کے حقوق کی بات کیاکرتے تھے۔ وہ کبھی پاکستان سے علیحدگی کی باتیں نہیں کیاکرتے تھے۔ لیکن انھیں 79سال کی عمر میں ملک دشمن قرار دیکر موت کی نیند سلادیاگیا۔
مارنے والوں نے پہلے ہی کہہ دیاتھا کہ" یہ سن ستر کی دہائی نہیں ہے کہ تم پہاڑوں میں چھپ جاؤگے۔ اب تمہیں پتابھی نہیں چلے گا کہ گولی کہاں سے آئی ہے۔"طاقت و اختیار کے زعم میں مبتلاحکمرانوں نے یہ بھی نہیں سوچاکہ ایک عمررسیدہ شخص کو ویسے بھی آج نہیں توکل چلے جاناہے۔ اور انھوں نے اپنے انجام کے بارے میں بھی نہیں سوچا کہ اُن کی موت کیسے واقع ہوگی۔
"سب سے پہلے پاکستان" کا دعویٰ کرنے والابظاہر بڑا محب وطن شخص آج زندگی کے اپنے آخری ایام میں دیار غیر میں بیمار پڑا ہوا ہے۔ اقتدار ایک ایسا نشہ ہے جوایک بارچڑھ جائے توپھراُسے اپنی موت کااحساس بھی نہیں رہتا۔ وہ اپنے آپ کو لازوال اورلافانی سمجھنے لگتاہے۔ یہ سابق حکمران بھی اِسی نشہ میں سرشار اوردھت تھے۔ لال مسجد اورجامعہ حفصہ کے طلبہ اورطالبات کے خلاف کارروائی کے علاوہ کراچی میں 12مئی 2007کو خون خرابہ انھیں کے دور میں ہوا۔
جناب جی ایم سید، خان عبدالولی خان، نواب خیربخش مری، میر غوث بخش بزنجو اورعطااللہ مینگل سمیت بہت سارے غداران وطن تو اپنی صفائی پیش کرتے کرتے اِس دنیاسے چلے گئے۔ لیکن ابھی نئے نئے غداران وطن جو سامنے آرہے ہیں اُن میں میاں محمد نوازشریف کے علاوہ شاہد خاقان عباسی اوراُن کے چالیس رفقاء ایسے غدارلوگ ہیں جو اپنے خلاف ایف آئی آر درج ہونے پرخود ہی لاہورکے علاقے شاہدرہ کے تھانے پہنچ گئے کہ لو ہمیں گرفتار کرلواوراپنی حسرتیں پوری کرلو۔
میاں نواز شریف اگر اپنی نواسی کی شادی میں نریندر مودی کو دعوت دیں تو اُن کا یہ عمل وطن سے غداری گردانہ جائے یاپھروہ اٹل بہاری باجپائی کو اپنے یہاں بلاکریہ تسلیم کرنے پرمجبور کردیں کہ کشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے جسے بہرحال حل ہونا ہی ہے تو اُن کایہ فعل بھی ناپسندیدہ قرارپائے۔ وہ بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ دھماکے کرکے دکھائیں توبھی وہ ڈرپوک اوربزدل ٹہریں۔ وہ ملک کو ترقی کی راہ پرڈال دیں اور معیشت کی بہتری اور خوشحالی کے لیے جتن کریں توکرپٹ اورچور کہلائیں اوروہ موٹروے بناکرقوم کو خودانحصاری کی منزلوں کی راہ پرگامزن کردیں تو بھی ملک دشمن قرار پائیں۔
وہ موٹروے جس کے بارے میں آج ہم اپنے دشمن کو واضح طور پر یہ پیغام بھی دے رہے ہیں کہ اب ہمارے پاس چند ہوائی اڈے ہی ہمارا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ ساراملک اور سارے شہر ہی ہمارے لیے محفوظ لینڈنگ اور ٹیک آف کامتبادل انتظام ہیں۔ میاں نواز شریف نے اِس ملک کی ترقی وخوشحالی میں جتناحصہ ڈالا ہے وہ شاید ہی ہمارے کسی اورسویلین حکمراں نے ڈالاہو۔ اُن کی یہی خصلت اُن کے لیے سب سے بڑی مشکل اوردشمن بن گئی۔ وہ خالصتاً اپنی اہلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر کچھ لوگوں کی نظر میں لازوال اورناقابل شکست بنتے جارہے تھے۔ سیاست اور جمہوریت کو اپنے بنائے ہوئے مخصوص اُصولوں پرچلانے والوں نے انھیں اپنے لیے ایک خطرہ سمجھا۔ پہلے تو کوشش کی گئی کہ انھیں ایسے کاموں سے روکاجائے لیکن وہ باز نہ آئے تو پھرانھیں نشانِ عبرت بنادینے کی ٹھان لی گئی۔
وطن سے محبت کرنے والوں کو غدار کہنے کا یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔ اِس الزام سے شاید ہی کوئی بڑا سیاستداں بچ سکا ہے۔ جس نے بھی عوام کے حقوق کی بات کی، ملک و قوم کو ترقی وخوشحالی کی راہ پرڈالناچاہا وہی اِس قوم کاسب سے بڑا دشمن قرار پایا۔ تمغہ حسن غداری کے یہ سویلین اعزازات قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی سے تقسیم ہونا شروع ہوگئے تھے۔
پہلے پہل توسوائے پنجاب کے باقی تمام صوبے اِس سے مستفید ہوتے رہے لیکن الحمدللہ اب پنجاب بھی اِس کا حقدار قرار دیاجانے لگا ہے۔ خان صاحب کو پہلی بار اقتدار نصیب ہوا ہے اِس لیے وہ شاید ہواؤں میں ابھی بہت اونچااُڑرہے ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ حالات ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے اوروہ اپنے سرپرستوں کے اِسی طرح منظورنظر بنے رہیں گے۔ لیکن نہیں میاں صاحب بھی کبھی یہی گمان کیاکرتے تھے اور خود کو سب سے بڑا خوش نصیب سمجھاکرتے تھے۔ مگر آج وہ اپنے ممدوح اور ممنون طبقہ کے سب سے ناپسندیدہ شخص بن چکے ہیں۔