کورونا سے ڈرنا نہیں …
فروری کے مہینے میں جب سے کورونا کا پہلا کیس ہمارے یہاں دریافت ہوا، سارے سندھ صوبے میں سب سے پہلے اسکولز بند کر دیے گئے، پھر رفتہ رفتہ 22 مارچ تک سارے سندھ میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا۔ وفاق جب تک خاموشی سے حالات کاجائزہ لیتا رہا اور فوری فیصلہ نہ کر سکا کہ حکومتی سطح پر اِس عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے کیا اقدام کرنا چاہیے۔
ہمارے وزیراعظم پہلے دن سے لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھے۔ اُن کی دانست میں ایسا کرنا اپنے یہاں کے غریب لوگوں کو شدید مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہو گا، مگر چار و ناچار وہ بھی ایسا کرنے پر مجبور ہو گئے۔ یہ اور بات ہے کہ بعد کی تقریروں اور بیانات میں وہ ملک کے اندر کورونا کے کیسز کی کم تعداد کو اپنے اِس فیصلے سے جوڑتے رہے کہ بروقت لاک ڈاؤن کیوجہ سے ہمارے یہاں وہ حالات ابھر کر سامنے نہیں آئے جو دیگر یورپی ممالک کے یہاں دیکھنے میں آئے ہیں۔ بہر حال یہ فیصلہ ہوا اور آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
حکومت نے 1200 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان بھی کیا جو پاکستانی تاریخ میں کسی قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے پہلا منفرد پیکیج قرار دیا گیا۔ حالانکہ دیکھا جائے تو اُس میں ریلیف کی مد میں عوام کو بارہ بارہ ہزار روپے باٹنے کے لیے محض 140 ارب روپے ہی رکھے گئے جب کہ باقی ساری رقم اُن اخراجات کی نذر کر دی گئی جو عام حالات میں بھی خرچ ہونا ہی تھی۔
یعنی گندم کی خریداری کے لیے 280 ارب روپے، یوٹیلٹی اسٹور کوسبسڈی کے لیے 70 ارب روپے، پیٹرل سستا ہونے پر عوام کو ہونے والے فائدے کی مد میں 100 ارب روپے، بزنس مینوں کو اُن کی اپنی جمع شدہ رقم کی واپسی کے لیے 75 ارب روپے اور نجانے ایسے کئی اخراجات اِس 1200 ارب روپے کے پیکیج میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ دکھا دیے گئے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کر کے غریب اور نادار لوگوں کو ہر مہینے دی جانے والی 3000 ہزار روپے کی رقم بھی اب احساس پروگرام کے نام سے دی جانے لگی۔ اگر دیکھاجائے تو یہ 12000 روپے جو احسان کر کے عوام الناس میں تقسیم کیے گئے ہیں وہ بھی دراصل اِسی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ہی حصہ ہے۔
حکومت کو لاک ڈاؤن شروع کیے تقریبا ڈیڑھ مہینہ گزر چکا ہے اور اب تک کی ساری کامیابی کو اِسی لاک ڈاؤن کا نتیجہ بھی قرار دیا جا رہا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ وفاقی حکومت پہلے کی طرح کسی بھی لمحے سخت لاک ڈاؤن کی حمایت کرتی کبھی دکھائی نہیں دی۔ ہمارے یہاں ہر شخص کی اِس سلسلے میں مختلف رائے رہی ہے۔
کچھ لوگوں کے خیال میں اگر بروقت اقدام کر لیا جاتا تو نتائج اِس سے بھی بہتر ہوتے۔ اور اُن کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آج کورونا سے متاثرین کے تعداد روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی دکھائی دے رہی ہے اگر شروع شروع میں صرف پندرہ روز کے لیے سخت لاک ڈاؤن کر لیا جاتا تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ جب کہ حکومت کی حمایت کرنے والے وزراء اور افراد اب بھی اِسے حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کے زمرے میں گردانتے دکھائی دے رہے ہیں کہ حکومت کے فوری اقدام سے حالات بہت بگڑنے سے بچے رہے۔ مگر حیران کن طور پر اب جب کہ لاک ڈاؤن نرم کیاگیا ہے اُنہی دنوں میں ہمارے یہاں کوروناکے مثبت کیسزکی تعداد پہلے سے بہت زیادہ ہونے لگی ہے اور کچھ لوگوں کی رائے بھی یہی ہے کہ ایسے وقت میں لاک ڈاؤن کو نرم کرنا کسی لحاظ سے صائب اور مناسب فیصلہ نہیں ہے۔
حکومت کے مخالف سیاستداں اِسے حکومت کی نااہلی اورکمزور پالیسی سے جوڑتے دکھائی دے رہے ہیں کہ اگر وفاقی حکومت نے ابتدا ہی میں اگر صحیح معنوں میں لاک ڈاؤن کر لیا ہوتا تو یہ دن آج دیکھنا نہیں پڑتا۔ حکومت کی نیم دلانا اورکنفیوزڈ پالیسی کی وجہ سے آج ہمارے یہاں خوفناک صورتحال غالب آتی جا رہی ہے۔
ساری دنیا میں جب کیسز کم ہونا شروع ہوئے تو وہاں کی حکومت نے لاک ڈاؤن کونرم کرنا شروع کیا جب کہ ہمارے یہاں یہ معاملہ بالکل الٹ ہے۔ ہمارے یہاں آج جب کیسز زیادہ ہونے لگے ہیں توہم لاک ڈاؤن ہلکا کر رہے ہیں۔ اب قوم کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ حقیقت کیا ہے۔ ویسے بھی کورونا کے مثبت کیسز کے حوالے سے ہمارے یہاں شکوک و شبہات پہلے دن سے ظاہر کیے جاتے رہے ہیں۔ کچھ لوگ حکومت سندھ کے بتائے گئے اعداد و شمار کو بالکل درست اور صحیح ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ بلکہ خود وفاقی حکومت کے وزراء یہ بات پبلک میں سرعام کہتے دکھائی دیتے رہے ہیں کہ سندھ حکومت جان بوجھ کر اعداد وشمار بڑھا چڑھا کے پیش کرتی رہی ہے۔
ایسے میں لوگ کس کا اعتبار کریں۔ سوشل میڈیا پر یہ بات بھی کی جاتی رہی ہے کہ سارے اسپتالوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہر مرنے والے فرد کو چاہے وہ کسی بھی مرض میں مبتلا ہو کرانتقال کر گیا ہو صرف اور صرف کورونا کا کیس ظاہرکیا جائے۔ ہم نے خود ایسی ویڈیوز دیکھی ہیں جن میں مرنے والے کے لواحقین احتجاج کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ اسپتال والوں نے وفات پانے والے شخص کو بلاوجہ کورونا ظاہرکر کے ہمارے لیے مشکل کھڑی کر دی ہے اور اب سارے خاندان کو قرنطینہ میں زبردستی رہنے پر مجبورکیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب مرنے والے کی تدفین بھی ایک نئی مصیبت سے دوچار ہو گئی ہے۔
حکومت نے گرچہ اب لاک ڈاؤن کو نرم تو کر دیا ہے لیکن بازاروں اورمارکیٹوں میں عوام کا ہجوم غفیردیکھ کر وہ اپنا فیصلہ واپس لینے کی دھمکیاں بھی دینے لگی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ تو ہونا ہی تھا۔ عوام پہلے دن سے اِس لاک ڈاؤن کو اپنانے پر تیار نہ تھے۔
وہ طوعاً وکرہاً ایسا کرنے پر مجبورکر دیے گئے کیونکہ تمام ٹرانسپورٹ، دفاتر، فیکٹریاں اور دکانیں سبھی کچھ تو بندکردیا گیا تھا۔ وہ کرتے تو کیا کرتے۔ مجبوراً یہ سوچ کرگھر بیٹھ گئے کہ شاید بہت جلد یہ لاک ڈاؤن ختم کر دیا جائے گا۔ مگر اب چونکہ عید بھی قریب آ رہی ہے اور حکومت نے اُنہیں صرف دس بارہ روز اِس مقصد کے لیے عنایت فرما دیے ہیں کہ وہ باہر جا کر عید الفطر کی کچھ خریداری کر لیں۔ حالانکہ اِس مقصد کے لیے اُنہیں روزانہ صرف چند گھنٹے ہی تفویض کیے گئے ہیں۔ رش بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ صبح دس بجے سے شام چار پانچ بجے تک اُنہیں اپنے سارے کام نمٹانے ہوتے ہیں۔
حکومت کی یہ منطق ابھی تک کسی کی سمجھ میں نہیں آئی ہے کہ کورونا اِن چند گھنٹوں کے علاوہ باقی تمام دن پھیل سکتا ہے یا پھر ہفتے کے چار دن تو یہ نہیں پھیلے گا اور صرف جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو پھیلے گا۔ اِسی طرح میاں بیوی کے ایک ساتھ گھر میں رہنے سے دونوں کو کچھ نہیں ہو گا مگر موٹر سائیکل پر ساتھ بیٹھنے سے یہ کورونا ایک دوسرے کو لگ سکتا ہے۔ اِسی لیے یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ اِس سارے گورکھ دھندے کے پیچھے کوئی اور ہی راز پنہاں ہے۔
حکومت ایک طرف تو کورونا سے ڈرنا نہیں کا درس دیتی ہے تو دوسری جانب اپنے ہی عوام کو اُس سے خوفزدہ بھی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ کورونا سے لڑنے کی باتیں بھی کرتی ہے اور ڈر کے گھر میں یابلوں میں چھپ جانے کی ہدایات بھی دیتی ہے۔ اپنے بروقت فیصلوں کا کریڈٹ بھی لیاکرتی ہے اورساتھ ہی ساتھ آنے والے برے دنوں سے بھی ڈراتی رہتی ہے۔ یہ کورونا تو اگلے چھ ماہ میں بھی ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ وزیر اعظم کھل کر قوم کو بتا دیں وہ ایسے میں کریں تو کیاکریں۔ ڈر ڈر کرزندگی گزاریں یا پھر اِسے اللہ کی مشیت سمجھ کر اپنے روزمرّہ کے کاموں کی طرف لوٹ آئیں۔ حکومت اُن کا پیٹ بھر لے پھر چاہے ایک سال تک لاک ڈاؤن سخت سے سخت کر لے، وہ مکمل تعاون کرنے کو تیار ہیں۔