1200 ارب روپے کی لولی پوپ
مالی اعدادوشمار کی جو ہیرا پھیری ہماری اِس حکومت کے لوگوں نے کی ہے وہ شاید ہی ہماری کسی اور سابقہ حکومت کے لوگوں نے کی ہوگی۔ یا یہ کہیے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا جو ہنر ہماری اِس حکومت کو آتا ہے وہ شاید ہی کسی اور کو آتاہوگا۔ کام کاج کچھ کرنا نہیں بس کاغذوں میں حساب کتاب پورا دکھانا۔ اپنے دور اقتدار کے تقریباً دو سال اُنہوں نے پچھلی حکومتوں کوکوستے اورلتاڑتے ہوئے گذاردئیے۔ اب جب کچھ کردکھانے کا وقت آیاتو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ کورونا کی وبانے رہی سہی طاقت اور ہمت بھی ختم کرکے ر کھد ی ہے۔ وزیراعظم قوم کو جو دلاسہ دے رہے تھے کہ اِس سال اُنہیں کچھ ریلیف ملنے والا ہے وہ بھی کورونا کی وباکے ساتھ ہواؤں میں تحلیل ہوکر رہ گیا ہے۔
قوم اب اِس سال بھی کوئی آس و اُمید نہ رکھے کہ ہماری سب سے پاک اور نیک دامن یہ حکومت کرپشن سے بچ جانے والے پیسے ہی سے اُسکی تقدیر بدل کر رکھ دے گی۔ اُس کے پاس اب مکمل ٹھوس، دلیل اورجواز موجود ہے کہ جب ساری دنیا کی معیشت کورونا کے وا ئرس کی وجہ سے تباہ ہوگئی ہے تو پھر ہم اُنکے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم تو پہلے ہی زوال پذیر ہورہے تھے اور بڑی مشکل سے انتہائی نگہداشت والے کمرے سے باہر نکلے تھے کہ کورونا کی وجہ سے ایک بار پھر ICUمیں چلے گئے۔ اب تو ہمیں شاید ہی کوئی باہر نکال پائے گا۔
حکومت نے کورونا کی وبا کو سامنے رکھتے ہوئے جس طرح دیگر فیصلوں میں تاخیرکی یاسست روی کامظاہرہ کیا۔ اِسی طرح اُس نے لاک ڈاؤن سے متاثر افراد کے لیے ریلیف پیکیج اناؤنس کرنے میں بھی بہت دیر لگادی۔ اللہ اللہ کرکے بادلِ نخواستہ 1200 ارب روپے کی خطیر رقم کے پیکیج کااعلان ہوااور ساتھ ہی ساتھ اُسکی منصفانہ تقسیم کے لیے ٹائیگر فورس بنانے کا بھی اعلان کرڈالا گیا۔
جتنی پھرتی اور تیزی اِس مجوزہ ٹائیگرفورس کی رجسٹریشن اور اُسکی یونیفارم بنانے میں دکھائی گئی ہے وہ اگر کورونا سے نمٹنے کے لیے ماسک اور کٹ فراہم کرنے میں دکھائی جاتی تو شاید ہمارے یہاں کوروناوائرس کاقیام اتنا طویل نہ ہوتا۔ ملک بھر سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں نوجوان اِس ٹائیگر فورس کا حصہ بننے کے لیے جو ق در جوق چلے آرہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے جس طرح ہماری KPK کی حکومت نے اپنے پچھلے دور حکومت میں وہاں اربوں کی تعداد میں درخت اُگانے کا تاریخی ریکارڈ بناڈالاتھا بالکل اُسی طرح اِس بار ہماری وفاقی حکومت ٹائیگرفورس میں نوجوانوں کی رجسٹریشن کا ریکارڈ بھی بناڈالے گی۔ اصل کام چاہے ہونا ہولیکن ٹائیگرفورس کی رجسٹریشن اوراُن کی یونیفارم کی مد میں ریلیف فنڈ کابیشتر حصہ یقینا خرچ ہوجائے گا۔ ویسے بھی 1200ارب روپے کی اِس پیکیج کے خدوخال آہستہ آہستہ واضح ہوتے جارہے ہیں توویسے ویسے ہمارے لوگوں پر اپنی حکومت کی نیک نیتی اور حب الوطنی سے بھر پورجذبات و احساسات پوری طرح آشکار اورعیاں ہوتے جارہے ہیں۔
1200 ارب روپے کے اِس ریلیف پیکیج میں 280ارب روپے تو اُس گندم کی خریداری کے لیے وقف کردئیے گئے ہیں جوہماری حکومت ہرسال اپنے کسانوں سے خریداکرتی ہے اوراِس کے لیے وہ ہمیشہ اپنے سالانہ بجٹ میں ایک مخصوص رقم بھی مختص کیاکرتی ہے۔ اگر ہم اپنے گذشتہ بجٹ کے صفحات کھول کردیکھیں تو یقیناگندم کی خریداری کے لیے ایک خطیر رقم اِس مد میں دکھائی گئی ہوگی۔
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ سالانہ خریدی جانے والی اِس گندم کاکورونا کے ریلیف سے کیالینادینا۔ پھر آجائیے یوٹیلیٹی اسٹورز کو دی جانے والی سبسڈی پر۔ ہماری حکومت عوام کے دکھ درد کا ہمیشہ بڑا تذکرہ کیاکرتی ہے اورمہنگائی سے پسے ہوئے اپنے غریب لوگوں کے لیے وہ ہمیشہ یوٹیلیٹی اسٹورکو سستی اشیاء فراہم کرنے کی خاطر سبسڈی دینے کا اعلا ن کیاکرتی ہے۔ اوراُس نے ابھی چند ماہ پہلے ایسا کیا بھی ہے۔ لیکن موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس نے سبسڈی کی مد میں رکھی جانے والی اماؤنٹ کوبھی رونا ریلیف فنڈ سے منہاکرلی۔ حکومت کے معاشی جادوگروں کوداد دینے کو جی چاہتا ہے۔ ایک طرف عوام لاک ڈاؤن کی وجہ سے انتہائی کسم پُرسی کاشکار ہورہے ہیں اوردوسری وہ اُنکی معاشی مشکلات حل کرنے کی بجائے ریلیف فنڈز سے بھی اپنافائدہ تلاش کرنے میں مگن اور سرگرداں ہے۔
اور تو اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں تیل کی قیمت تاریخ کی سب سے کم ترین سطح پر آگئی ہے اورحکومت نے اِس ارزاں تیل کے ثمرات بھی قوم کو منتقل کرنے میں روایتی بخل پن کامظاہرہ کیااورمکمل فائدہ دینے کی بجائے صرف 15 فیصد پیٹرول سستا کیاجب کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق حکومت کو اب بھی 150ارب روپے کابراہ راست فائدہ پہنچ رہا ہے۔
دوسری جانب حکومت نے پیٹرول 15فیصدسستا کرنے کا خرچہ بھی ریلیف فنڈ سے وصول کرلیااور75ارب روپے فوراً سے پیشتر منہاکرلیے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ایک طرف پیٹرول سستا ہونے کا 30فیصد فائدہ حکومت دونوں ہاتھوں سے وصول کررہی ہے اورعوام کو15فیصد دیاجانے والا فائدہ بھی وہ ریلیف فنڈ سے واپس وصول کررہی ہے۔ عوام کا دکھ درد محسوس کرنے والی ایسی حکومت شاید ہی ہم نے پہلے کبھی دیکھی ہوگی۔ اب آئیے ریلیف فنڈ کی دوسری ہیراپھیریوں پر۔ دنیا بھر میں ایک قاعدہ موجود ہے کہ ایکسپورٹرز جو ایڈوانس ٹیکس اداکردیتے ہیں اُنکے اگر کچھ ریفنڈز باقی ہوں تووہ حکومت وقت اُنہیں واپس کیا کرتی ہے۔
اِس کاکورونا کی وبا سے کوئی لینادینا نہیں۔ لیکن حیرانی طور پر حکومت نے اِس مد میں متوقعہ طورپر اداکرنے کے لیے بھی پورے ایک سوارب روپے کی رقم کورونا ریلیف فنڈ سے پیشگی الگ کرلی ہے۔ اِسی طرح اُس نے کاروباری طبقہ کودئیے جانے والے قرضوں کو ایک سال کے لیے ڈیفر کرنے پر جو اضافی سود لگنا ہے وہ بھی اِس کورونا ریلیف فنڈ سے ایڈوانس وصول کرلئے ہیں حالانکہ وہ سود اُنہی بزنس مینوں نے اداکرنا ہے جنہوں نے یہ قرضے حاصل کیے ہیں۔ بس اُن کی واپسی ایک سال کے لیے ڈیفر کردی گئی ہے۔ حکومت پر اِس جانب کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑنا تھا۔ مگر عوام کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے کب بازآتے ہیں۔ وہ ہر حکمراں کو ایسے کرتب سکھاتے رہتے ہیں۔
1200ارب روپے کی اِس شاندار پیکیج کی حقیقت اب کھل کرسامنے آرہی ہے۔ کہنے کو حکومت نے آٹھ ارب ڈالر عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کردئیے اوروہ اِس طرح عوام کی سچی ہمدرد اورخیرخواہ بن کر ابھری ہے۔ لیکن دل کا حال وہی جانتا ہے جس پرگذر رہی ہوتی ہے۔ قوم اِس وقت انتہائی مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔
ایک طرف لاک ڈاؤن نے اُس کاذریعہ معاش چھین لیا ہے اوردوسری جانب حکومت اُن کے دکھوں کامداواکرنے کی بجائے اُن کے جذبات سے کھلواڑ کررہی ہے۔ اُنہیں 1200 ارب روپے کی لولی پوپ پکڑا کے اُن کامذاق بنارہی ہے۔ حکومت کے اِن ہتھکنڈوں سے 1200ارب روپے میں سے اصل رقم جوشاید غریبوں تک پہنچے گی وہ صرف 500 ارب روپے سے ذیادہ ممکن نہیں ہے۔ جب کہ حکومت کورونا کی وباکو عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے رکھ کر بھی کچھ نہ کچھ ریلیف حاصل کرنے کی جستجو میں لگی ہوئی ہے۔ ورلڈ بینک اورایشیائی ترقیاتی بینک نے تو پہلے ہی اِس جانب کچھ مالی امداد کااعلان کررکھاہے۔ ویسے بھی ہمارے وزیراعظم امداد اور قرضے حاصل کرنے کے ہنر اور فن میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ بس کورونا کی وباسے جیسے ہی جان چھوٹے گی وہ اپناطیارہ لے کر ہر اُس ملک کی دہلیز پر پہنچ جائیں گے جو ہمیں امداد دینے کی تھوڑی بہت سکت اوراستطاعت رکھتاہوگا، مگر ہاں وہ اپنے عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں بڑے محتاط اورکفایت شعار ہیں۔