Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Dr. Ashfaq Ahmad Virk/
  3. Chalo Chaliye Anarkali

Chalo Chaliye Anarkali

چلو چلیے انارکلی

انارکلی سے میرا پہلا اور رومانوی قسم کا تعارُف اس وقت ہوا جب شادی بیاہوں پہ لڑکیاں بالیاں لہک لہک اور کسی حد تک بہک بہک کے گایا کرتیں: ؎

ساڈے بُوہے اگے کار کھَلی

چاننیاں راتاں، چلو چلیے انارکلی

ہمارے ذہنوں میں اس لفظ کے ساتھ ہی کسی پرستان یا خیالی دنیا کا تصور انگڑائیاں لینے لگتا۔ انارکلی سے دوسرا تعارف اس وقت ہوا جب ہمارے شدید قسم کے بچپن میں پاکستان ٹیلیوژن پہ دھوم دھڑکے کے ساتھ امتیاز علی تاج کے ڈرامے "انارکلی" پہ مبنی فلم مغل اعظم دکھائے جانے کا اعلان ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹی وی اینٹینوں کے رُخ دور درشن کی طرف مُڑے۔ گھروں اور سینماؤں کے ساتھ ساتھ گلی گلی سے: ؎

جب پیار کیا تو ڈرنا کیا

کی آوازیں آنے لگیں، اشتیاق مزیدبڑھ گیا۔ انارکلی سے تیسرا تعارف اس وقت ہوا جب مَیں میٹرک میں تھا اور خاندان کے کسی فرد نے بتایا کہ آج سے سو سال پہلے ہمارے پردادا میاں چراغ دین کے کپڑے انارکلی لاہور سے دُھل کے آتے تھے، پھر تو پردادا جی پہ فخر کے ساتھ ساتھ اس تعلق میں ایک ذاتی قسم کا احساس بھی جا گ اٹھا۔ یاد رہے اس وقت یہ بات اپنے خاندان تو کیا ارد گرد کے دس بیس دیہاتوں میں نہایت فخر اور کرو فر کے ساتھ گردش کرتی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانے میں ہم زمینوں کی ملکیت پہ اس قدر نہیں اِترایا کرتے تھے جتنا خاندانی کاغذات میں سے پردادا کے نام پہ انارکلی کے کسی ڈرائی کلینر کی رسید برآمد ہونے پر سینہ تان کے چلتے تھے۔ انارکلی سے چوتھا تعارف عجیب و غریب انداز سے انور مسعود نے کرایا: ؎

تُوں کی جانیں بھولیے مَجّے نار کلی دیاں شاناں

وَن سونّے گاہک نیں اوتھے، بھلیو بھلی دُکاناں

بھینس اگرچہ ہماری دیہاتی ثقافت کا جزوِ لاینفک تھی، ہم اس کے خلاف کوئی بات سننے کے روادار نہ تھے لیکن یہاں چونکہ معاملہ انارکلی کا تھا، اس لیے شاعر کی جسارت پر محض مسکرا کے رہ گئے۔ انارکلی سے پانچواں اور بھرپور تعارف اس وقت ہوا جب ہم شیخوپورہ کالج سے بی اے کرنے کے بعد ایم اے اُردو کے لیے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں داخلہ لینے کے بعد وولنر ہاسٹل میں آن براجے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ وولنر ہاسٹل اور انارکلی میں اتنی قربت ہے کہ انارکلی میں دھڑکنے والے دلوں کی صدا ہاسٹل میں صاف طور پر سنی جا سکتی ہے۔ چنانچہ ایم اے اُردو اور ایم اے فارسی کے چار سالوں میں لوہاری سے جَین مندر تک کی ایک ایک اینٹ، ایک ایک دکان دار، ایک ایک سُندر چہرے کے نقش ہماری آنکھوں اور پاؤں کے تلووں پر نقش ہوتے چلے گئے۔ رات کا کھانا روزانہ پرانی انارکلی سے اور ونڈو شاپنگ بانو بازار، نئی انارکلی سے۔ دکھ کی بات یہ کہ اس دوران کئی سال تک ہمارے کپڑے بھی انارکلی سے دُھل کے آتے رہے مگر فخر تو رہا ایک طرف، مجال ہے خاندان کے کسی فرد کو آدھی زبان سے ذکر کرنے کی بھی توفیق ہوئی ہو، حد ہوتی ہے جیلسی کی بھی۔

انارکلی سے ہمارا چھٹا تعارف محکمہ آرکائیو سے متعلق اپنے دوست نوید رضا کی وساطت سے ہوا، جن کو انارکلی کے مقبرے کے اندر انارکلی ہی کی قبر کے سرہانے میز کرسی لگائے بیٹھے دیکھ کے پوچھنا پڑا کہ میاں! مَیں تمھیں یہاں ملازم سمجھوں یا مجاور؟

اس وقت بتانا یہ مقصود ہے کہ بچپن سے جوانی تک انارکلی سے تعلق بڑھتا چلا گیا۔ اس دوران طرح طرحکی معلومات سے پالا پڑتا رہا، کسی نے اسے بالکل جھوٹی کہانی قرار دیا، کسی نے بتایا کہ یہ ناول مولوی ممتاز کے پریس پہ چھپنے آیا تھا، جسے تاج کے نام سے چھاپ دیا گیا۔ اس کی وجہ سے ابوالفضل جیسے وزیر کا قتل ہوا، اکبر کو زہر دیا گیا۔ کہیں انارکلی کو اکبر کی بیوی قرار دیا گیا کہیں رقاصہ، لیکن ترکستان سے آئی اس ماہ رُو کہ جس کا رنگ انار کی کلی جیسا اور حسن کی ایسی چکاچوند کہ ہندوستان کے دو شہنشاہ دل ہارے بیٹھے ہیں، سے ہمارا دل کھٹا نہیں ہوا۔ ایک زمانے میں تو سلیم کی چوری چوری کی ملاقاتیں سن کے میرے قلم سے یہ انوکھا جملہ بھی ٹپک پڑا تھا:

"انارکلی کی ماں اکبر کے گھر میں آیا، تھی، اکبر کا بیٹا بھی انارکلی کے گھر میں آیا تھا۔"مختصر یہ کہ انارکلی کے کردار کے ساتھ وابستہ رومانس، انس اور اپنائیت روز بروز بڑھتے چلے گئے۔ ۱۵۹۹ء کو چوبیس سال کی عمر میں اس کے شاہی قلعہ لاہور کی دیوار میں زندہ چنوائے جانے کی خبر نے تو گویا جیتے جاگتے ہر نوجوان کے سینے میں عشق اور ہمدردی کا الاؤ روشن کر دیا۔ اب آپ کو کس دل سے بتائیں کہ پھر اس کردارسے ہمارا آخری اور تحقیقی قسم کا تعارف مرزا حامد بیگ کے ناول انارکلی، کے ذریعے ہوا، جو کچھ اس طرح کا تھا کہ:

۱۶ فروری ۱۵۸۴ء کو شہزادہ سلیم کی پہلی شادی بہ عمر سولہ سال خاندانِ کچھواہہ کے ہندو راجا بھگوان داس والیِ امبر کی بیٹی مان بائی سے ہوئی۔ شہزادی سلطان النسا بیگم اور خسرو مرزا اسی کے بطن سے ہوئے۔ جون ۱۵۸۶ء کو شہزادہ سلیم کی دوسری شادی جودھ پوری سکھ گھرانے کے سوٹھ راجا اُودھے سنگھ راٹھور کی بیٹی مان متی سے ہوئی۔ شاہ جہان نے ۱۵۹۱ء میں اسی کے بطن سے جنم لیا۔ ۷ جولائی ۱۵۸۶ء کو تیسری شادی مہاراجا سری رائے سنگھ کی بیٹی سے ہوئی۔ چوتھی شادی کاش گڑھ کے راجاابو سید خاں کی بیٹی شکار بیگم سے ہوئی۔ ۱۵۸۶ء ہی کے آخر میں شہزادہ سلیم کی پانچویں شادی ہرات کے خواجہ حسن ہروی کی بیٹی سے ہوئی۔ (یعنی ایک سال میں چار شادیاں ) ۱۵۸۷ء کو چھٹی شادی بیکانیر کے اہم منصب دار رائے سنگھ کی بیٹی پھول بیگم المعروف رتن بائی سے ہوئی۔ ۱۵۸۷ء ہی میں ساتویں شادی رکن الدولہ کی بیٹی ملکہ جہاں بیگم سے ہوئی، جس کے بطن سے جہاندار مرزا پیدا ہوا۔

۱۵۹۱ء کو آٹھویں شادی اڑیسہ کے مبارک خاں حسنی کی بیٹی سے ہوئی۔ اس کے چند ہی روز بعد شہزادہ سلیم کی نویں شادی تبت کے حاکم علی رائے کی بیٹی سے ہوئی۔ شہزادہ سلیم کی دسویں شادی راجا کیشو داس کی بیٹی سے ہوئی۔ گیارھویں شادی راجا ملبھاس کی بیٹی سے ہوئی۔ ۱۵۹۲ء میں شہزادہ سلیم کی بارھویں شادی گل رُخ بنتِ محمد کامران سے سے ہوئی۔ شہزادہ سلیم کی تیرھویں شادی زین خاں کوکلتاش کی بیٹی صاحبِ جمال، سے ہوئی۔ زین خاں اکبر کا دودھ شریک بھائی، جس کی بنا پر باپ بیٹے میں جھگڑے کی ابتدا ہوئی۔ شہنشاہ ہند نے چودھویں شادی اپنے استاد قائم خان عرب کی بیٹی سے کی۔ ۱۶۰۸ کوبادشاہت کے تیسرے سال پندرھویں شادی کنور جگت سنگھ کی بیٹی سے کی۔ ۶مئی ۱۶۱۱ء کو تخت نشینی کے چھے سال بعد جہانگیر بادشاہ نے سولھویں شادیشیر افگن کی بیوہ مہرالنسا بیگم المعروف نورجہاں سے کی۔ ?

اب انارکلی سے سلیم کے معاشقے کی تصدیق ہو بھی جائے، تو بندہ پُچھے ہُن معاشقے دے پَلّے کیہ رہ گیا اے!!! پھر کیا یہ بتانا ایسا ہی ضروری تھا کہ اکبر نے انارکلی کے کان اور ناک کٹوا کے دیوار میں چنوا یا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کل کو کوئی نیا محقق آ کے بتائے کہ ہیر کے پچھلے دو خاوندوں سے تیرہ بچے تھے یا سوہنی کے پیٹ میں بہت بڑی رسولی تھی یا صاحباں کی ایک ٹانگ لکڑی کی تھی۔ آخری بات یہ کہ مرزا صاحب ایک مختلف قسم کا تحقیقی ناول لکھنے میں یقیناً کامیاب ہو گئے ہیں لیکن بات یہ ہے لوگ ایسے لطیف اور نفیس کرداروں کو محقق کی نہیں محبت کی نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں۔

Check Also

Sifar Se Aik Tak

By Hafiz Safwan