سیاسی کارکنان: شعور کی علامت یا فکری بے گار کی؟
سوچ رہا ہوں کہ اگر نگران وزیر اعظم کا تعلق کسی نمایاں سیاسی جماعت سے ہوتا تو کیا پھر بھی بجلی کے بلوں پر وہی رد عمل آتا جو اس وقت آ رہا ہے؟ اس سوال کے جواب سے پھر وہ سوال پیدا ہوتا ہے جو اصل سوال ہے۔
فرض کریں جناب انوار الحق کاکڑ کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہوتا۔ بجلی کے بل اسی طرح آتے جیسے اب آئے ہیں تو کیا ہوتا؟ لوگ احتجاج کرتے تو پیپلز پارٹی کے کارکنان اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیتے اور یہ ثابت کرنے میدان عمل میں اتر آتے کہ بھٹو زندہ ہے۔ ایک پہر سے پہلے وہ یہ ثابت کر دیتے کہ ان پر تنقید کرنے والے اصل میں جمہوریت دشمن ہیں اور غیر جمہوری قوتوں کے آلہ کار ہیں۔ وہ آپ کو یہ بھی بتاتے کہ اس احتجاج کی آڑ میں سندھ کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ رجز پڑھے جاتے کہ مرسوں مرسوں سندھ نا ڈیسوں۔ ان کے نقاد مذہبی انتہا پسندقرار دیے جا چکے ہوتے جو بجلی کے بلوں کے خلاف بات کرکے اصل میں جمہوریت دشمن ہونے کا ثبوت دے رہے ہوتے اور بتایا جا رہا ہوتا کہ ان سے پیپلز پارٹی کے مبارک دور میں چہار سو پھیلنے والی روشن خیالی برداشت نہیں ہو رہی اور وہ تاریکی کی قوتوں کی طرف داری کر رہے ہیں۔ ہو سکتا کچھ ابلاغی قلی یہ بھی سمجھا رہے ہوتے کہ بجلی کا بل تو بہانہ ہے، اصل میں تو تہتر کا آئین نشانہ ہے اور جمہوری حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاری ہو رہی ہے۔
اور فرض کریں کاکڑ صاحب کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہوتا۔ آپ کو گن گن کر بتایا جاتا کہ چار ہزار قبل مسیح سے اب تک ہونے والے تمام مسائل کا ذمہ دار وہ شخص ہے، جس نے بانوے کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔ آج اگر ملک میں بجلی کا بحران ہے یا حتی کہ گندم کی فصل اچھی نہیں ہو رہی تو یہ اسی کی وجہ سے ہے۔ سارا قصور تو اسی شخص کا ہے، جو ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھ گیا۔ اس لیے اب کسی کو بجلی ملے یا نہ ملے اسے قائد محترم غائب اور قائد محترم حاضر دونوں برادران کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جن کی بصیرت کے صدقے ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ دوچار لوگ اس دوران خود کشی سے مر بھی گئے تو کیا ہوا، یہ تو شہید جمہوریت کے درجے پر فائز ہیں۔ یہ جتنے لوگ مہنگائی پر احتجاج کر رہے ہیں، یہ اسی فتنے کے پروردہ ہیں، جو بانوے کے ورلڈ کپ کی صورت ہمیں چمٹا ہوا ہے۔ بجلی کے بلوں پر شور مچانے والے یہ لوگ اصل میں غیر ملکی قوتوں کے ایجنٹ ہیں، جو ملک میں انتشار چاہتے ہیں اور سی پیک کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایک آدھ ترانہ بھی تیار ہو جاتا کہ: بل بھاڑو نہ دھرنا دو، بس ووٹ کو عزت دو۔
فرض کریں کاکڑ صاحب جے یو آئی کے ہوتے۔ اللہ رحم فرمائے پھر تو بجلی کے بلوں پر تنقید والے یہودی ایجنٹوں، کا بہت برا حال ہوتا۔ پھر ہم دیکھتے کہ کس کی یہ جرات ہے وہ مساجد سے بل نہ دینے کی اپیل کرتا۔ پھر مساجد سے بل ادا کرنے کے فضائل بیان ہو رہے ہوتے کیونکہ ان کا تو سیاسی دفترہی مسجد میں ہوتا ہے اور آج تک الیکشن کمیشن ان سے یہ نہیں پوچھ سکا کہ اسلام آباد میں سیاسی جماعت کا دفتر قانون کی روشنی میں مسجد میں ہو سکتا ہے یا نہیں، نہ ہی کبھی ان سے واپڈا نے یہ سوال کیا ہے کہ سیاسی جماعت کے دفتر کی بجلی مسجد کے میٹر سے جاتی ہے یا اس کا میٹر الگ ہوتا ہے، نیز یہ کہ اس جملہ اہتمام کے اخراجات کا فارمولا کیا ہوتا ہے، اور لوگوں سے چندہ صرف مسجد کے لیے لیا جاتا ہے یا سیاسی دفتر کی چندہ رسید الگ سے دی جاتی ہے۔
پھر ہمیں بتایا جاتا کہ صدیوں کی طویل جدو جہد کے بعد ملک میں اسلامی نظام کا سورج طلوع ہوا ہے اور یہ یہود و ہنود کے ایجنٹ اس اسلامی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے بجلی کے بلوں کی آڑ میں باہر نکل آئے ہیں۔ یہ سب مغربی قوتوں کے آلہ کار ہیں جو اسلامی نظام کے دشمن ہیں۔ مفتی کفایت صاحب تو شاید احتجاج کرنے والوں کے دو چار ایسے کزن بھی سامنے لے آتے جو تل ابیب یا یروشلم میں بیٹھ کر پاکستان کی اسلامی حکومت کے خلاف سازشوں کی سرپرستی کر رہے ہوں۔
اور اگر کاکڑ صاحب کا تعلق تحریک انصاف سے ہوتا تو کیا ہوتا؟ تھوڑے تھوڑے ہینڈ سم تو وہ پہلے سے ہیں، قافلہ انقلاب نے تو عالی جاہ عثمان بزدار کو شیر شاہ سوری بنا دیا تھا، کاکڑ صاحب تو پھرسوٹ شوٹ بھی پہن لیتے ہیں اور وکٹوریائی تصور کائنات کے تحت جنٹل مینی کے معیارات کے قریب تر ہیں۔ ان کے تو نونہالان انقاب نے وہ قصیدے پڑھنے تھے کہ احتجاج کرنے والوں کا نچنے نوں دل، کر پڑنا تھا۔ ہر تنقید کرنے والا پٹواری، ضمیر فروش اور لفافہ کہلایا جانا تھا۔ لوگ بلوں کو بھول جاتے اور اپنی سات نسلوں کو پڑنے والی گالیوں کا حساب کرتے رہ جاتے۔ لوگوں کو بتایا جاتا کہ کاکڑ صاحب کے پاس تو اللہ کا دیا سب کچھ ہے وہ تو عوام کی خدمت کے لیے وزیر اعظم بنے ہیں ورنہ وہ توروز نئی ٹائی کی نئی ناٹ لگانے کا طریقہ بتا کر بھی ٹک ٹاک پر کروڑوں کما سکتے تھے اور اگر ساتھ ہی اس ٹائی پر دستخط بھی کر دیتے تو پھر تو پانچ سات ٹائیاں اور دو چار سوٹ بیچ کر پاکستان کا سارا قرض اتر جانا تھا۔ ایک ڈی جے بٹ ہوتا ایک ہمارا عمران اسماعیل ہوتا، ایسے ایسے سر بکھیرے جاتے کہ ہر احتجاج کرنے والا گنگنانے لگتا: نیکسٹ سٹاپ اڈیالہ۔
اور اگر کاکڑ صاحب کا تعلق جماعت اسلامی سے ہوتا۔ (ہنسیں نہیں، فرض ہی تو کر رہا ہوں)۔ پھر تو اگر کوئی احتجاج کو نکلتا تو یہ غیر شرعی خروج قرار پاتا اور اس کے ساتھ وہی ہوتا تو صالحین بقلم خود کا بازوئے شمشیر زن پنجاب یونیورسٹی میں مخالفین کے ساتھ کرتا ہے۔ مہنگی بجلی کے حق میں حکمت یار سے طیب اردگان تک کے ایسے ایسے ایمان افروز خود ساختہ بیانات کے سٹکر درودیوار پر چسپاں اور سوشل میڈیا پر شیئر کر دیتے کہ آپ کا دل کرتا یہی بل لہراتے ہوئے نکلیں اور شام سے پہلے پہلے دو چار بر اعظم فتح کر لیں۔ عجب نہیں کہ ہمیں بتایا جاتا یہ اصل میں ٹرانسجینڈرز ہیں جو بجلی کے بلوں کی آڑ میں نکل کر ہماری حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
کسی کی بھی حکومت ہو اس کے حصے کے بے وقوف اس کی فصیلوں پر پہرا دینے کو موجود ہوتے ہیں۔ کسی نے آج تک اپنے قائد انقلاب کی کسی غلطی کو تسلیم نہیں کیا۔ یہ غیر مشروط وابستگی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔ یہ جس طرح نگرانوں پر تنقید ہو رہی ہے، ایسے ہی اپنے سیاسی آقائوں پر بھی کی جاتی تو یہ دن دیکھنا ہی نہ پڑتے۔
یہاں آ کر پھر وہ دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سیاسی کارکن اس ملک میں شعور کی علامت ہیں یا فکری بے گار کی؟