Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Laltain Ka Jo Zikr Kya Tu Ne Humnasheen

Laltain Ka Jo Zikr Kya Tu Ne Humnasheen

لالٹین کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں

بجلی کا طویل بریک ڈائون ہوا اور یو پی ایس بھی جواب دے گیا تو موسم کی پہلی بارش کے ہمراہ آنے والے جھونکے کی طرح لالٹین کا خیال آیا۔ یادوں کی سمت دریچہ سا کھل گیا۔ سامنے پروین شاکر کھڑی تھیں:

کچا سا اک مکان کہیں آبادیوں سے دور

چھوٹا سا ایک حجرہ فرازِ مکان پر

وادی میں گھومتا ہوا بارش کا جلترنگ

سانسوں میں گونجتا ہوا اک ان کہی کا بھید

اتری ہوئی پہاڑ پر برسات کی وہ رات

کمرے میں لالٹین کی ہلکی سی روشنی

ایک سہہ پہرمیں برف باری کی امید میں خانس پور پہنچا تو تیز بارش نے آ لیا۔ بجلی کی ترسیل متاثر ہو گئی۔ شام ہوئی تو ہلکی ہلکی برف باری شروع ہو گئی۔ انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ریسٹ ہائوس میں، کچھ وقت تو موم بتی کی ٹمٹماتی لو میں گزارا پھر چوکیدار چاچا نے انگاروں کی تازہ انگیٹھی کے ساتھ لالٹین لا کر رکھ دی۔ رات کے دوسرے پہر برف باری میں شدت آگئی۔ پھر رات گئے تک برف پڑتی رہی، لالٹین ٹمٹماتا رہا اور ساتھ والے گائوں ریالہ کا اشرف چرواہا بانسری کی دھنیں بکھیرتا رہا۔ حسن کے اس امتزاج نے رات بھر سونے نہیں دیا۔ خانس پور کی برف باری ویسے ہی ایک فسوں ہے لیکن لالٹین کی ٹمٹماتی لو اور بانسری کی تان نے اس رات اس برفباری کے فسوں کو سحر میں بدل دیا تھا۔ اگلی رات برف نہیں تھی۔ تارے چمک رہے تھے۔ وہ رات میں صرف اس لالٹین اور اس بانسری کے لیے وہاں رکا۔

اپنے گائوں میں تو لالٹین صرف لوڈ شیڈنگ کے وقت استعمال ہوتا تھا۔ لیکن نانی کے گائوں وجھوکہ میں بجلی نہیں تھی۔ جاڑے کی ان راتوں کا فسوں آج بھی یاد ہے۔ سر شام ہی تیاریاں شروع ہو جاتیں۔ گھر کے سارے لالٹین جمع کر لیے جاتے۔ ان کی چمنی نکال لی جاتی اور جلے ہوئے گوبر اور گیلے کپڑے سے اسے صاف کر کے چمکا دیا جاتا۔ لالٹین کے نچلے حصے میں مٹی کا تیل بھرا ہوتا تھا، یہ تیل پورا کر دیا جاتا۔ لالٹین میں کپڑے سے بنی ایک " واٹ" ڈالی جاتی جسے آگ لگائی جاتی تو لالٹین جل اٹھتا۔ روشنی بڑھانے یا کم کرنے کے لیے اس واٹ کو حسب ضرورت اوپر نیچے کیا جا سکتا تھا۔ اس واٹ کو دیکھ کر تسلی کر لی جاتی کہ کافی مقدار میں موجود ہے کیونکہ اس نے ساری رات جلنا ہوتا تھا۔ رات کے پہلے پہر لالٹین کی لو بڑھا دی جاتی تھی اور دوسرے پہر کم کر دی جاتی تھی۔ لیکن یہ بند نہیں ہوتا تھا۔ ایک کونے میں پرہلکی ہلکی سی روشنی دیتا رہتا تھا۔ اس ٹمٹماتی لو میں بڑا رومان ہوتا تھا۔

لالٹین کی روشنی میں بوڑھی پہاڑیوں جیسا ٹھہرائو ہے۔ یہ جلتا ہے تو وقت تھم جاتا ہے۔ گھر میں لالٹین سے روشنی پھوٹ رہی ہو تو رات ٹھہر ٹھہرکر گزرتی ہے۔ وقت میں برکت سی پڑ جاتی ہے۔ شاید اس لیے کہ جہاں لالٹین اور چراغ جلتے تھے وہاں عشا کے بعد آدھی رات ہو جاتے تھی۔ اب تو برقی قمقموں کا دور ہے اور ہماری مصنوعی زندگی میں آدھی رات تک رات آتی ہی نہیں۔ لالٹین جل اٹھیں تو رات سر شام ہی اتر آتی ہے۔ گائوں کی مسجد کے اوطاقوں پر چراغ رکھے ہوتے تھے اور صحن میں ایک لالٹین رکھا ہوتا تھا۔ ان چراغوں کی لو کے ساتھ جو سکینت اترتی تھی، وہ آج بھی وجود سے الگ نہیں ہوئی۔ ان ٹمٹماتے چراغوں کی روشنی میں عشاکی نماز کھڑی ہونے سے پہلے کے چند خاموش لمحوں میں جانے کیا تاثیر ہوتی تھی، یوں لگتا تھا ہر چیز ساکت ہو گئی ہے، سب کچھ تھم سا گیا ہے۔

کینڈل لائٹ ڈنر اب ایک خوابناک ماحول کا نام ہے۔ تو اگر میز پر مدھم سی لو میں جلتا ایک خوبصورت سا لالٹین لا کر رکھ دیا جائے تو ماحول کا فسوں بڑھے گا یا کم ہو گا؟ احساس کمتری راستہ روک لے تو اس داروغے کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ لالٹین دیسی نہیں ولایتی چیز ہے۔ کینڈل کی طرح لالٹین بھی انگریز ساتھ لائے تھے اور اسے Lantern کہتے تھے۔ انتظار حسین مرحوم کا خیال تھا کہ برصغیر میں انگریز سے پہلے لالٹین نہیں تھے کیونکہ غالب کی شاعری میں لالٹین کا ذکر نہیں ملتا۔ غالب چراغو ں کی بات کرتے ہیں۔ مجھے انتظار حسین کی بات سے اس لیے اتفاق ہے کہ میری نانی لالٹین کو بھی " ڈیوا" (دیا)کہا کرتی تھیں۔ گویا لفظ لالٹین ان کی لغت میں اجنبی تھا۔

تاریخی شواہد البتہ کچھ اور خبر بھی دیتے ہیں۔ لالٹین کی خبر ہمیں یونانی تہذیب سے بھی ملتی ہے جہاں دیو جانس کلبی چمکتے دن میں لالٹین ہاتھ میں لیے ایماندار آدمی کو تلاش کرتا پھرتے تھے۔ رومی نے کہا تھا:

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر

کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزو ست

(کل شیخ چراغ ہاتھ میں لیے سارے شہر میں گھومتا پھرا اور آواز لگاتا رہا کہ چوپایوں سے بے زار ہو چکا ہوں، مجھے کسی انسان کی تلاش ہے)۔ دیو جانس کی جتنی بھی تخیلاتی تصاویر ہیں وہ ہاتھ میں دیا یا چراغ نہیں، لالٹین لے کر پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔

کیا عجب کہ رومی نے بھی اسے چراغ کہ دیا تو غالب کے چراغ کے معانی بھی وسیع ہوں۔ کیونکہ جنوبی ہند میں قندیلوں کا استعمال انگریز سے بہت پہلے سے موجود ہے۔ البتہ یہ روایت بھی موجود ہے کہ قندیل کا لفظ اصل میں "کینڈل" ہی کی ایک مقامی شکل ہے۔ لالٹین کا ذکر ہمیں دسویں صدی کے فاظمی دور حکومت میں بھی ملتا ہے جہاں خلیفہ حاکم با امر اللہ نے حکم دے رکھا تھا کہ ہر گھر اور دکان کے باہر لالٹین لگائے جائیں اور خواتین گھر سے نکلیں تولالٹین ساتھ لے کر نکلیں تا کہ سب کو علم ہو جائے ایک عورت جا رہی ہے۔

لالٹین کے ساتھ میری نسل کی کتنی ہی یادیں وابستہ ہیں۔ بجلی کے بریک ڈائون کی اگلی صبح سوشل میڈیا پر شور مچا تھا۔ کوئی موبائل کی بیٹری کو رو رہا تھا تو کوئی اپنے یو پی ایس کو۔ لالٹین کا کہیں کوئی ذکر ہی نہ تھا۔ لالٹین کے ذکر پر انتظار حسین نے لکھا تھا:" لالٹین کا جو ذکر کیا تونے ہم نشیں "۔ اب نہ انتظار حسین ہیں نہ کہیں کوئی لالٹین دکھائی دیتا ہے۔

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari