فوجی عدالتیں: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد
سپریم کورٹ نے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ طے کر دیا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت جن عام شہریوں کے خلاف مقدمات چلائے جا رہے ہیں ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور جن کے خلاف مقدمہ شروع ہو چکا ہے وہ بھی کالعدم تصور کیا جائے گا۔ عدالت کے مطابق ایسے تمام مقدمات عام عدالت میں چلائے جائیں۔ یہی نہیں بلکہ عدالت نے آرمی ایکٹ کی بعض دفعات کو آئین سے متصادم قرار دے دیا ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ اس فیصلے کو حکومت من و عن تسلیم کر لے گی یا اس کے خلاف اپیل کی جائے گی اور اپیل کی جائے گی تو کیا اس کے لیے حکومت کے پاس کچھ دلائل موجود ہوں گے۔ نیز یہ کہ اس میں کامیابی کا امکان کتنا ہے؟
نگران حکومت کا مینڈیٹ محدود ہوتاہے۔ اور وہ پہلے سے طے شدہ پالسیوں کے مطابق آگے بڑھتی ہے۔ بالخصوص جب کسی نکتے پر پارلیمان اپنی رائے دے چکی ہو توو پھر نگران حکومت کے لیے اسی کو لے گر آگے چلنا ہوتا ہے، الا یہ کہ کوئی غیر معمولی صورت حل کسی نئے فیصلے کی متقاضی ہو۔ یہ چیز ہم مردم شماری کے معاملے میں بھی دیکھ چکے جب نگرانوں نے اور الیکشن کمیشن نے مل کر کہا کہ چونکہ پچھلی حکومت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ الیکشن نئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے اس لیے ہم اس فیصلے پر عمل کرنے پر مجبور ہیں۔ الیکشن کمیشن سے یہ کہا گیا کہ الیکشن کے حوالے سے آپ سابقہ حکومت کے کسی فیصلے کے محتاج نہیں اور آپ خود ایک فیصلہ لے سکتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن اپنی رائے پر قائم رہا اور نگران حکومت بھی۔
نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے معاملے میں، دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ، یہ فیصلہ صرف سابق حکومت کا انتظامی فیصلہ نہ تھا بلکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں نے اس فیصلے کی توثیق کی تھی کہ اس واقعے کی سنگینی کے پیش نظر اس کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں ہی چلایا جائے۔ چنانچہ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ نگران حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل کرتی ہے یا وہ اپنی ہی وضع کردہ جورسپروڈنس کے مطابق خود کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قراردادوں کی روشی میں آ گے بڑھنے کا فیصلہ کرتی ہے اور اس فیصلے کے خلاف اپیل کرتی ہے۔
وزیر اعظم کا ایک موقف سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے کہ اگر اس واقعے میں تحریک انصاف کی بجائے جے یو آئی کے لوگ ملوث ہوتے تو ان کا رد عمل کیا ہوتا۔ اس صورت میں شاید انہیں دہشت گرد مولوی قرار دے کر ان کو کچلنے کا مطالبہ کیا جاتا۔ یہ موقف، اگر درست بیان کیا جارہا ہے، تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومت اگر اپیل کا فیصلہ کرے گی تو کیا ا سکے پاس کچھ دلائل ہوں گے یا وہ محض ایک رسم ہی پوری کرے گی؟ دلائل کی قوت کی بحث سے قطع نظر، یہ دلائل تو موجوود ہیں۔ مثال کے طور پر:
1۔ جس طرح عدالت نے آئین و قانون کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے اسی طرح حکومتوں نے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے انتظامی امور کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے مقدمات کے بارے میں فیصلے پر حکومت اپیل نہیں کرتی تو وہ یہ سوچ سکتی ہے کہ اس صورت میں ایسے واقعات پھر یہاں معمول بن جائیں گے۔ حکومت کی شاید انتظامی مجبوری ہو کہ اس طرح کے واقعات کی حوصلہ شکنی کرے اور پوری معنویت کے ساتھ کرے۔ جب یہ مقدمات چلانے کا فیصلہ ہوا تب پوری انتظامی مشینری یہ سمجھتی تھی کہ یہ افواج میں بغاوت کی ایک کوشش تھی۔ یہ کامیاب ہو جاتی تو اس کے اثرات انتہائی مہلک ہوتے۔ خود تحریک انصاف کے متعدد رہنما بتا چکے ہیں کہ نو مئی کے واقعات کا مقصد کیا تھا اور اس کا ہدف کون تھا۔ یہ باتیں درست بھی ہو سکتی ہیں اور غلط بھی۔ لیکن جو کچھ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے اس دن دیکھا وہ غلط نہیں ہو سکتا۔ یہ سیاسی احتجاج نہیں تھا یہ بلوہ تھا اور واضح طور پر اس کے نشانے پر ریاست تھی۔
2۔ فوجی عدالتوں میں مقدمات بھی کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں ایسا ہوتا آیا ہے۔ پاکستانی جورسپروڈنس میں یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر مقدمہ عام عدالت میں ہی چلے۔ اگر اس تصور کو مان لیا جائے تو دہشت گردی کے معاملات کے لیے خصوصی عدالتیں کیوں بنائی جاتی ہیں۔ وہ بھی عام عدالت میں کیوں نہیں چلا لیا جاتا۔ عام عدالتوں کی فعالیت پر اتنا ہی اعتماد ہے تو پھر عام عدالتوں پر نگران جج کیوں مقرر کیے جاتے ہیں؟ اگر دہشت گردی کے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتوں کا جواز قانون ہے تو قانون تو فوجی عدالتوں کا بھی ہے اور یہ قانون بھی پارلیمان نے بنا رکھا ہے اور آج سے نہیں، عشروں سے نافذ العمل ہے اور اس کے تحت سویلین کے ٹرائل بھی ہوتے رہے۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ کا 2017ء کا ایک فیصلہ بھی بہت اہم ہے۔ جو پانچ رکنی بنچ نے دیا تھا۔ جس میں جناب جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس منظور احمد ملک، اور جسٹس فیصل عرب شامل تھے۔
3۔ جناب چیف جسٹس، قاضی فائز عیسی صاحب نے اس مقدمے کی سماعت کے لیے وہی بنچ برقرار رکھا جس نے سابق چیف جسٹس کے دور میں اس مقدمے کی سماعت کی تھی۔ اس بنچ میں سابق چیف جسٹس بھی شامل تھے اور ان کی ریٹائر منٹ کے بعد نئے چیف جسٹس کا یہ اختیار تھا کہ وہ نیا بنچ بناتے یا اسی بنچ میں کچھ مزید ججز بھی شامل کر دیتے۔ لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اسی بنچ کی دستیاب شکل کو برقرار رکھااور اپنے طرز عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ بنچ پر اثر انداز ہونے یا مرضی کا بنچ بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہ ایک اچھی چیز ہے۔
تاہم جب یہ بنچ پہلے مرحلے میں تشکیل پایا تھا تو اس پر سوالات اٹھے تھے۔ اور بہت سی باتیں کہی گئی تھیں۔ نگران حکومت ہی بتا سکتی ہے کہ اب اس کا موقف کیا ہے۔ یہ اعتراضات اب تو شاید ا پیل میں اٹھائے بھی نہ جا سکیں لیکن سوالات اگر تب موجودتھے تو وہ ظاہر ہے کہ اب بھی موجود ہو ں گے۔ یہ معاملہ بھی بڑا دلچسپ رہا ہے کہ حکومتی اراکین ٹاک شوز اور پریس کانفرنسوں میں تو بڑے رجز پڑھ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کا اٹارنی جنرل یا کوئی اور وکیل عدالت میں وہ اعتراض کم ہی اٹھاتا ہے جو یہ باہر چینلوں پر بیٹھ کر اٹھا رہے ہوتے ہیں۔
اب آئیے اس آخری سوال کی جانب کہ اگر حکومت اپیل کرتی ہے تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ یہ سوال تو بہت اہم ہے لیکن اس کا جواب وقت پر ہی چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ بے بسی یہ ہے کہ وطن عزیز میں قانون کے معاملات پر آپ قانون کی روشنی میں کوئی تجزیہ نہیں کر سکتے۔