باڑا مارکیٹیں یا کباڑا مارکیٹیں؟
کیا آپ کے شہر میں کوئی باڑا مارکیٹ ہے؟ اورکیا کبھی آپ نے سوچا کہ ہماری معیشت کی بربادی میں ان مارکیٹوں کا کتنا بڑا کردار ہے؟ کیااب بھی ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے لپٹی عملی قباحتوں نے ٹریڈ، کو نہیں بلکہ سمگلنگ، کو فروغ دیا ہے اور ہماری مقامی انڈسٹری کا اس نے ستیا ناس کر دیا ہے؟
وجوہات جو بھی رہی ہوں، زمینی حقائق ہوں، جنگ ہو، یا ہماری جانب سے خیر خواہی کا عمومی رویہ، حقیقت مگر یہ ہے کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو تجارتی اصولوں کی روشنی میں استوار نہیں کیا جا سکا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے شہر اور ہماری مارکیٹیں سمگلنگ کے مال سے بھری پڑی ہیں۔ اگر اس قدر سہولت سے اس طرح کھلے عام سمگلنگ کا مال پاکستانی مارکیٹ میں فروخت ہونا ہے تو لوکل انڈسٹری اس کے مقابل کیسے کھڑی ہو سکتی تھی۔ منطقی نتیجہ تھا کہ وہ برباد ہو جاتی اور وہ برباد ہو چکی ہے۔
یہ کوئی ایک یا دو سال کا قصہ نہیں۔ عشروں کی بات ہے۔ زمانہ طالب علمی میں، ہم یونیورسٹی کا ٹرپ لے کر جب جب پشاور گئے، باڑا مارکیٹ ضرور گئے۔ طلباء کا اصرار ہوتا تھا کہ باڑا مارکیٹ ضرور جانا ہے۔ معیشت کی تو نہ تب سمجھ تھی نہ اب، لیکن اتنایاد ہے کہ امپورٹڈ اشیاء یہاں سر عام فروخت ہوتی تھیں اوریہ بالعموم سمگلنگ کا مال ہوتا تھا۔ ڈیوٹی فری۔ لوگ دوڑے چلے آتے تھے کہ امپورٹڈ مال یہیں سے سستے داموں مل جائے گا۔
تعجب انگیز بات یہ تھی کہ سمگلنگ کا مال کارخانو مارکیٹ میں تو مزے سے فروخت ہورہا ہوتا تھا لیکن کسٹم اہلکار اٹک پل پر گاڑیاں روک کر چیکنگ فرمایا کرتے تھے کہ کہیں آپ سمگلنگ کا مال (ہماری خدمت کیے بغیر) تولے کر نہیں جا رہے۔ آدمی سوچتا رہتا کہ وہاں آزادی ہے اور دریائے سندھ کے پل پر قانون آستینیں چڑھائے آ جاتا ہے تو یہ معاملہ کیا ہے؟
رفتہ رفتہ یہ مارکیٹیں پورے ملک میں پھیلتی گئیں۔ باڑا مارکیٹ راولپنڈی، باڑا مارکیٹ سرگودھا وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ اس تکلف کی بھی کوئی ضرورت نہ رہی۔ ہر شہر کی ہر مارکیٹ میں سمگلنگ کا یہ مال پہنچنا شروع ہوگیا۔ مقامی مینوفیکچرر جو ٹیکس بھی دیتا تھا اور لوگوں کور وزگار بھی دیتا تھا وہ اس طوفان کا مقابلہ نہ کر سکا۔ ایک ایک کرکے چھوٹی صنعتیں بند ہوتی چلی گئیں۔ اور آج جو حال ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ یہ دن ہمیں اپنے ہی نامہ اعمال نے دکھائے ہیں۔
پاک افغان تجارت وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ ٹرانزٹ ٹریڈ، تجارت کی بجائے سمگلنگ کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ اس کی اصلاح نہ کی گئی تو یہ پاکستان کی معیشت کے لیے تباہ کن ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ریاستوں کے باہمی تعلقات کیسے ہی اچھے کیوں نہ ہوں، اپنی معیشت کی مبادیات ان پر قربان نہیں کی جاسکتیں۔ اطراف سے سمگلنگ کا مال مارکیٹیوں میں بکنے لگے اور عشروں تک بکتا رہے تو مقامی مارکیٹ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ بظاہر تو لوگ خوش ہو جاتے ہیں کہ امپورٹڈ مال قدرے سستا مل رہا ہے لیکن اس کی جو قیمت ملک اور معاشرے کو دینا پڑتی ہے وہ تباہ کن ہوتی ہے۔ مقامی انڈسٹری بند ہوتی ہے تو روزگار کے مواقع بھی ختم ہونے لگتے ہیں۔ وقت کے ساتھ پھر سمجھ تو ساری آ جاتی ہے لیکن تب تک نقصان بہت ہوچکا ہوتا ہے۔
افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور اس کے جائز مفادات کا پاکستان نے ہمیشہ خیال رکھا ہے اور رکھنا بھی چاہیے۔ لیکن اس حقیقت سے اب انکار ممکن نہیں کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو غلط استعمال کیا گیا ہے۔ اس میں اصلاح بہت ضروری ہے۔ افغانستان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے، نیپال، بھوٹان وغیرہ کی طرح، اسے اپنی اشیاء عالمی منڈی تک لے جانے کے لیے پاکستان نے ہمیشہ راستہ دیا ہے۔ لیکن پاکستان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس عمل سے متصل بے قاعدگیوں کے نتیجے میں جو قباحتیں جنم لے رہی ہیں، ریاستی معیشت کب تک ان کی متحمل ہو سکے گی۔
ماضی میں، ہم دیکھ چکے (غالبا اشرف غنی کے دور صدارت میں ) کہ پاک افغان تجارتی میٹنگ طے ہو چکی تھی لیکن افغانستان نے اپنا وفد یہ کہہ کر بھیجنے سے انکار کر یا کہ جب تک ان مذاکرات میں ایک تیسرے فریق یعنی بھارت کو بھی شامل نہیں کیا جاتا، پاکستان سے تجارت پر مذکرات نہیں ہو سکتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر دو طرفہ مذاکرات بھی بھارت کے بغیر نہیں ہو سکتے تو ٹرانزٹ ٹریڈ کی بھی پھر کیا ضرورت ہے؟
یہی نہیں بلکہ اشرف غنی نے بھارت میں کھڑے ہو کر کہا کہ جب تک پاکستان بھارت کو پاک افغان ٹریڈ معاہدے میں شامل نہیں کرتا اور جب تک بھارت سے افغانستان راہ داری نہیں کھولی جاتی تب تک پاکستان کو سنٹرل ایشیاء سے تجارت کے لیے ہم راستہ نہیں دیں گے۔ افغان صدر یہ بات کر رہے باوجود اس کے کہ افغان ٹرکوں کو اپنا سامان واہگہ بارڈرپر لے جانے کی اجازت تھی۔ پابندی صرف اتنی تھی کہ واپسی پر بھارتی سامان نہیں لے جائیں گے بلکہ لے جانا ہے تو پاکستانی سامان لے جائیں گے۔
اس پابندی کی وجہ واضح تھی کہ بھارتی مال کہیں راستے میں پاکستانی مارکیٹ میں ہی ڈمپ نہ ہ جائے۔ یہ خطرہ اس لیے بھی تھا کہ افغانستان کے لیے جو ٹرک پاکستانی پورٹس سے نکلتے تھے ان میں سے بعض افغانستان جاتے ہی نہیں تھے اور وہ مال پاکستانی مارکیٹ میں ہے پھیل جاتا تھا جس سے پاکستانی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ افغانستان کے ٹرکوں پر ٹریکنگ سسٹم نہ ہونے کے باوجود ان کے ٹرکوں کو آنے کی اجازت دی جاتی رہی۔ پاکستان نے بارڈر پر کراسنگ پوائنٹس کی تعداد بھی بڑھائی۔ پاکستان اور افغانستان پڑوسی ہیں، مسلمان ملک ہیں، ان کے درمیان اچھے تعلقات ضروری ہیں، تجارت بھی بڑھنی چاہیے اور قربت بھی، لیکن تجارت مروجہ قوانین کی روشنی میں ہونی چاہیے۔ سمگلنگ کا مکمل خاتمہ ملکی معیشت کے لئے ناگزیر ہے۔
اس نیٹ ورک کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ صرف پشاور کے یادگار چوک میں ایف آئی اے نے ایسی 45 دکانیں سیل کرکے لوگوں کو گرفتار کیا ہے جو بغیر لائسنس لیے غیر ملکی کرنسی کا کاروبار کر رہے تھے۔ یعنی ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے معاملات چلا رہے تھے۔ اسی طرح کی خبریں کوئٹہ سے آ رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ سب طورخم اور چمن تجارتی راہداری کے ساتھ جڑا ہوا معاملہ ہے۔ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے حکومتی سطح پر اٹھائے والے حالیہ اقدامات قابل تعریف ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اہم ہے کہ کہ ایف آئی اے نے اب تک ان چالیس دکانوں کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی تھی جہاں سے ڈالر کا غیر قانونی کاروبار ہو رہا تھا۔ یہ دکانیں آخر ایک رات میں تو نہیں بنیں۔ اگر ایف آئی اے کی حساسیت اور صلاحیت کا عالم یہی ہے تو پھر خطرہ ہے کہ چند روز بعد کہیں معاملات پھر سے پہلے کی طرح نہ چلنے شروع ہو جائیں۔ ہمیں پالیسی میں تسلسل اور ہمہ جہت تحرک کی ضرورت ہے۔