عدم اعتماد،آئین کیا کہتا ہے؟
جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہونے لگے تو کیا یہ ممکن ہے کہ کسی ایک پارٹی کا ایم این اے اپنی پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے برعکس ووٹ دے؟ فرض کریں تحریک انصاف کا کوئی رکن عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دے دیتا ہے تو اس صورت میں قانون کیا کہتا ہے؟ یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ وزیر اعظم کے پاس مشکوک اراکین کی فہرست موجود ہے تو کیا سپیکر قومی اسمبلی ایسے اراکین کو ووٹ ڈالنے سے روک سکتے ہیں یا وہ کسی کے ووٹ کو اس بنیاد پر مسترد قرار دے سکتے ہیں کہ وہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے برعکس ڈالا گیا تھا؟
یہ اور اس طرح کے کچھ اور سوالات اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں اس لیے ان کا پورے سیاق و سباق کے ساتھ جواب تلاش کرنا چاہیے۔ یہ قانون سب سے پہلے نواز شریف صاحب نے 14ویں آئینی ترمیم میں متعارف کرایا تھا۔ اس کے مطابق اصول یہ تھا کہ کوئی بھی رکن پارلیمان کسی بھی معاملے میں پارٹی کے فیصلے کے برعکس ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ اور اگر کوئی ایسا کرتا تو پارٹی کا سربراہ سپیکر کو اس رکن کے خلاف ریفرنس بھیج سکتا تھا اور سپیکر پابند تھا کہ اس ریفرنس کو دو دنوں کے اندر الیکشن کمیشن کو بھجواتا اور الیکشن کمیشن پابند تھا کہ سات دنوں میں اس رکن کو نا اہل قرار دے دے۔ نہ سپیکر کے پاس کوئی اختیار تھا کہ ریفرنس بھیجنے سے انکار کرے اور نہ ہی الیکشن کمشن کے پاس کوئی اختیار تھا کہ ریفرنس مسترد کر دے۔
پر ویز مشرف صاحب کے دور حکومت میں 17ویں ترمیم کے ذریعے یہ قانون بدل دیا گیا۔ اب یہ قرار پایا کہ اراکین اسمبلی اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دینے میں آزاد ہیں اور صرف تین معاملات ایسے ہیں جہاں ان پر یہ پابندی ہے کہ وہ اپنی پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے مطابق ووٹ دیں گے۔ تحریک عدم اعتماد، وزیر اعظم کے انتخاب اور منی بل کے وقت یہ پابندی لگائی گئی کہ اگر کوئی رکن پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا پارٹی ہدایات کے خلاف غیر حاضر رہتا ہے تو وہ نا اہل قرار دے دیا جائے گا۔ اسی طرح نا اہلی کا ریفرنس بھیجنے کا اختیار پارٹی سربراہ سے لے کر پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کو دے دیا۔
اس کے بعد نواز شریف اورآصف زرداری صاحب کے دور میں اس قانون کوپھر دیکھا گیا اور نواز شریف والا قانون بحال کرنے کی بجائے پر ویز مشرف والا قانون اختیار کیا گیا۔ البتہ ایک ترمیم کر دی گئی کہ نا اہلی کا ریفرنس بھیجنے کا اختیار پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کی بجائے واپس پارٹی سربراہ کو دے دیا گیا۔
چنانچہ موجودہ قانون کے مطابق اگر کوئی رکن پارلیمان عدم اعتماد کی تحریک کے وقت اپنی پارٹی کی ہدایات کے برعکس ووٹ دیتا ہے یا پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر حاضر رہتا ہے تو اس کو نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اراکین اس بات پر پابند ہیں کہ وہ پارٹی ہدایات کے مطابق ووٹ دیں۔ یعنی پارلیمان میں پارٹی کی سیٹوں کو سامنے رکھ کر حلیف اور حریف کی ترتیب کو دیکھتے ہوئے آسانی سے بتایا جا سکتا ہے کہ عدم اعتماد میں کس کو کتنے ووٹ ملیں گے۔
تا ہم اگر کوئی شخص پارٹی ہدایات کے بر عکس ووٹ دے آتا ہے تو کیا ہو گا؟ کیا اس کا ووٹ کالعدم اور منسوخ کیاجاسکتا ہے؟ آئین کے مطابق سپیکر کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ کسی ووٹ کو اس بنیاد پر کالعدم قرار دے سکے۔ ووٹ انہی بنیادوں پر منسوخ ہو سکتا ہے جو اصول طے کیے جا چکے ہیں۔ ان اصولوں میں کہیں ایسی کوئی بات نہیں کہ پارٹی ہدایات کے برعکس دیاجانے والا ووٹ کالعدم ہو گا۔
تو کیا وزیر اعظم کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ مشکوک اراکین کو خود یا سپیکر کے ذریعے ووٹ ڈالنے ہی سے روک دیں؟ آئین کے مطابق اس بات کا جواب بھی نفی میں ہے۔ آئین میں سپیکر یا وزیر اعظم یا کسی بھی پارٹی سربراہ کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں۔ اوپر دیے گئے تین مواقع پر پارٹی ہدایات کے برعکس جانے کی صرف ایک سزا ہے اور وہ ہے نا اہلی کا ریفرنس اور پھر نا اہلی۔ یہ اختیار بھی ووٹ ڈالنے کے بعد کا ہے، محض شک کی بنیاد پر کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ نہ ہی کہیں آئین میں یہ لکھا ہے کہ دلوں کے راز سپیکر بھی جانتا ہے نہ کہیں یہ لکھا ہے کہ سپیکر کے پاس ایسے ووٹ کوروکنے یا مسترد کرنے کے اختیار ہیں۔ آئین کے مطابق ایسا ووٹ ڈالاگیا تو اس کی حیثیت مسلمہ ہو گی۔ البتہ ووٹ ڈالنے والے کے خلاف کارروائی ہو سکے گی۔
یہاں ایک اور نکتہ البتہ بہت اہم ہے۔ سوال یہ ہے کہ عدم اعتماد کے موقع پر اپنی پارٹی کی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنے پر جو نا اہلی ہو سکتی ہے اس کی مدت کیا ہو گی؟ اگر تو یہ نا اہلی اس ایک ٹرم کے لیے ہے تو پھر تو کسی رکن کو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہو گا کیونکہ وہ اسمبلی توو یسے ہی ختم ہونے کو ہو گی۔ اگر یہ مدت ارٓٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہونے والی نا اہلی کی طرح تاحیات ہے تو پھر صورت حال انتہائی سنگین ہو جائے گی۔ اور اگر یہ پانچ سال کے لیے ہے تب بھی بات اتنی سادہ نہیں ہے۔
آئین کو دیکھیں تو یہاں نااہلی کی بات تو کی گئی ہے لیکن یہ نا اہلی کتنے عرصے کے لیے ہو گی یہ نہیں لکھا۔ کچھ دیگر امور میں آرٹیکل 63 میں پانچ سال اور دو سال کا انتظام موجود ہے لیکن اس سے ایک گمان تو کہاجا سکتا ہے اسے نا اہلی کی مدت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بھی یاد رہے کہ آرٹیکل 62 کے تحت نا اہلی کی مدت بھی آئین میں نہیں لکھی لیکن سپریم کورٹ نے اس نااہلی کو تاحیات نا اہلی قرار دیا ہے۔ تو کیا وہی اصول یہاں بھی لاگو نہیں ہو سکتا؟
نا اہلی تا حیات ہو یا پانچ سال کے لیے ہو، یہ آسان نہیں ہے۔ یہ دو دھاری تلوار ہے۔ تحریک انصاف کاوہ کون ایم این اے ہو گا جو ن لیگ یا پی پی پی یا مولانا کی خاطر اپنی ہی پارٹی کی ہدایات کے خلاف ووٹ دے، اپنے ہی وزیر اعظم کو وزارت عظمیٰ سے ہٹائے اور پھر نا اہل ہو کر گھر بیٹھ جائے۔ یہ سیاست ہے کوئی اعلائے کلمۃ الحق کی جنگ تھوڑی ہے کہ تحریک انصاف کے ایم این ایز پرائی بارات کے بکرے بن کر ذبح ہو جائیں گے اور نا اہل ہو کر گھر بیٹھ کر جاڑے کی دھوپ سینکا کریں گے۔
ق لیگ، ایم کیو ایم یا کوئی اور اتحادی جماعت اگر حکومت سے الگ ہو جائے اور بطور پارلیمانی جماعت عدم اعتماد کی حمایت کر دے تو وہ ایک الگ معاملہ ہے لیکن کوئی سمجھتا ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی اگلے انتخابات میں ن یا پی پی کے ٹکٹ کے وعدے پر عدم اعتماد کی تائید کریں گے تو یہ ممکن نہیں ہو گا۔