1857ء کے آنسوئوں کی بوندیں
منشی منقی کا دیوان شائع ہوا تو اس کے زبر لفظ، (پیش لفظ کی جگہ انہوں نے زبر لفظ لکھا تھا)میں انہوں نے لکھا تھا اگر آپ یہ دیوان خرید کر پڑھ رہے ہیں تو آپ اول درجے کے فضول خرچ اور احمق ہیں اور اگر آپ یہ دیوان کسی سے مانگ کر پڑھ رہے ہیں تو آپ کسی مُلا کی اولاد ہیں۔ جدید دور میں یہ الجھن ختم ہو گئی ہے۔ اب نہ خرید کر پڑھنے کی ضرورت ہے نہ کسی سے مانگ کرکہ جن کتابوں کو پڑھنے کو جی کرتا ہے ان کی بڑی تعداد آن لائن دستیاب ہے۔
کبھی کبھار جی چاہتا ہے کہ 1857 کے بعد مسلمانوں پر کیا بیتی، اس کا مطالعہ کیا جائے۔ جارج میک ڈونلڈ سے جیمز فیرل تک بہت سے لوگوں نے اس عہد پر لکھا لیکن یہ ایک فاتح قوم کا بیانیہ تھا۔ مغلوں پر کیا بیتی، شاہی خاندان کی شہزادیوں اور شہزادوں کے ساتھ کیا ہوا اور مسلمان کس کرب سے گزرے، یہ سب کچھ لوگوں کے سینوں میں ہی دفن ہو گیا۔
سر سید احمد خان نے اسباب بغاوت ہند لکھی لیکن یہ ایک شکست خوردہ قلم سے لکھی گئی تحریر تھی۔ برصغیر سے انگریز کو جاتے جاتے 90 سال لگ گئے اور ان نوے سالوں میں سچ لوگوں کے ساتھ ہی قبر میں دفن ہو گیا۔ ہندوستان آزاد ہو گیا اور پاکستان قائم ہو گیا تو وقت بدل چکا تھا، چنانچہ اب کسی کو پرواہ نہ تھی کہ 1857 کے المیوں پر بات کرتا۔ نصاب بھی خاموش رہا اور اہل فکر و دانش بھی اور مسائل میں الجھ کر رہ گئے۔ تشنگی کبھی ہاتھ پکڑ کر ماضی کے ٹیلوں پر لے جاتی ہے تو آگے دھند نظر آتی ہے اور خاموشی۔ یوں گویا کسی کے لیے برصغیر سے مسلمانوں کے صدیوں پر محیط اقتدار کا خاتمہ سرے سے کوئی واقعہ ہی نہ ہو۔ حالانکہ یہ ایک ایسا عبرت کدہ ہے جسے ہمیں زاد راہ کے طور پر ساتھ رکھنا چاہیے تھا۔
غالب اس عہد کا ایک شاہد ہے۔ چنانچہ غالب کے خطوط کا مطالعہ کیا جائے تو کچھ کچھ احساس ہوتا ہے 1857ء میں کیا ہوا۔ غالب کے انہی خطوط کے اقتباسات کو اکٹھا کر خواجہ حسن نظامی نے" غالب کا روزنامچہ غدر " کے نام سے شائع کر دیاہے۔ حسن نظامی خود بھی معمولی آدمی نہ تھے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے شاہد احمد دہلوی نے لکھا ہے کہ خواجہ حسن نظامی دلی کی تہذیب کے موٹام تھے، ان کے مرنے سے دلی مر گئی۔ انہوں نے 1857ء کے حالات پر بہت لکھا۔ جو مظالم شاہی خاندان اور مسلمانوں پر ہوئے وہ بھی بیان کر دیے اور جو مظالم انگریزوں پر ہوئے انہیں بھی قلمبند کر دیا۔ ان کے بیان کردہ واقعات سچ اور ان کے کردار حقیقی ہیں مگر ان میں افسانوی رنگ دینے کو جو ڈائیلاگ لکھے ہیں وہ محض فسانہ ہیں۔ میری رائے میں نظامی صاحب نے افسانوی انداز کی ڈائیلاگز کی ملاوٹ کرنے کی بجائے محض حقیقت روایت کر دی ہوتی تو زیادہ مناسب ہوتا۔
پہلے حصے کا نام آنسوئوں کی بوندیں ہے۔ اس میں حسن نظامی صاحب نے کچھ سچے واقعات بیان کر دیے ہیں کہ مغل اقتدار کے خاتمے پر شہزادیوں اور شہزادوں پر کیا بیتی۔ ان میں سے کچھ شہزادیوں اور شہزادوں سے خواجہ صاحب نے خود ملاقات کی اور ان کا احوال بیان کیا ہے۔ خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں کہ دلی کی جامع مسجد سے جو راستہ مٹیا محل اور چتلی قبر سے ہوتا ہوا دلی دروازے کی طرف گیا ہے، وہاں سے رات کو ایک فقیر باہر نکلتا ہے۔ یہ فقیر کسی کے پاس رک کر اس سے نہیں مانگتا، یہ صرف آواز لگاتا جاتا ہے کہ " یا اللہ ایک پیسے کا آٹا دلوا دے"۔
خواجہ حسن نظامی کہتے ہیں کہ دلی والوں کو معلوم نہیں یہ فقیر کون ہے لیکن جو چند لوگ جانتے ہیں وہ جانتے ہی کہ یہ بہادر شاہ بادشاہ کا حقیقی نواسہ مرزا قمر سلطان ہے۔ جو کبھی انہی راستوں پر گزرتا تھا تو خدام ادب قطار اندر قطار ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے۔
دوسرا سچا واقعہ بمبئی کے تاج محل ہوٹل کا ہے۔ یہاں مہاراجہ بھائو نگر ٹھہرتے ہیں اور ان کے لیے کھانا تیار کرنے کے لیے ستر سال کے قسمت بیگ نامی خانساماں کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے۔ مہاراجہ اسے کھانے کا آرڈر دیتے ہیں لیکن وہ تھوڑا اونچا سنتا ہے اس لیے بات سمجھ نہیں پاتا تو ہاتھ باندھ کر کہتا ہے: جو ارشاد ہوا اس کی تعمیل ہو گی لیکن اگر تکلیف نہ ہو تو تھوڑی سی تفصیل اور فرما دی جائے"۔ مہاراجہ کو تجسس ہوتا ہے کہ اب تو عملہ انگریزی بولتا ہے یہ کون ہے جو ایسے تہذیبی رچائو کے ساتھ بات کر رہا ہے۔ تحقیق کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے قسمت بیگ نامی یہ بوڑھا اصل میں مغل شہزادہ تیمور شاہ تھا۔ مغلوں کے سپہ سالار مرزا مغل کی سگی بیٹی لالہ رخ اس وقت صرف آٹھ سال کی تھی جب بہادر شاہ ظفر گرفتار ہوئے۔ وہاں سے بھاگی تو لوگوں کے گھروں میں نوکرانی بنی رہی۔ ایک گھوسن کے ہاں آبلے تھاپتے اسی کے بیٹے سے بیاہی گئی۔ سالوں بعد خواجہ حسن نظامی اس تک پہنچے تو اس نے کہا اب تو میں بھی خود کو گھوسن ہی سمجھتی ہوں۔ لالہ رخ نہیں۔
ماہ جمال اکبر شاہ ثانی کی بھتیجی تھی اور بہادر شاہ ظفر کی سب سے لاڈلی شہزادی تھی۔ محل سے بھاگیں تو در در کے دھکے کھائے۔ کبھی اس کے ہاں نوکری کی تو کبھی اس کے ہاں۔ یہاں تک کہ ایک فقیر نے پہچان لیا اور عزت دی۔ بہادر شاہ ظفر تاجدار ہند کی لاڈلی شہزادی نے اسی فقیر سے شادی کر لی۔
دلی میں کپڑے کی ایک دکان کے ملازم نے ایک بد تمیز گاہک کو تھپڑ جڑ دیا اور جیل جا پہنچا۔ حسن نظامی اس تک پہنچے تو معلوم ہوا اس ملازم کا نام مرزا تیغ جمال ہے، جس کا باپ مرزا جہانگیر تھا جو اکبر ثانی بادشاہ کا بیٹا، شاہ عالم کا پوتا اور بہادر شاہ کا بھائی تھا۔ خود بہادر شاہ ظفر کی سگی بیٹی کلثوم زمانی بیگم کی کہانی لہو رلاتی ہے۔
کتنی ہی کہانیاں ہیں، ایک کالم میں اب کون کون سی کہانی بیان کی جائے؟ وقت نے کتنے ہی شہزادوں اور شہزادیوں کو راج کرتے اور پھر غربت کی زندگی گزارتے دیکھا اور معمولی زمینداروں سے مار کھاتے اور گالیاں کھاتے دیکھا۔ وقت وقت کی بات ہے۔