Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Asad Ullah Khan/
  3. Mazi Mein Is Noiyat Ka Ikhtilaf Kab Kab Hua?

Mazi Mein Is Noiyat Ka Ikhtilaf Kab Kab Hua?

ماضی میں اس نوعیت کا اختلاف کب کب ہوا؟

دنیا بھر میں سول ملٹری قیادت میں اختلاف رائے ہوتا ہے جسے اختلاف رائے کے طور پر ہی لیا جاتا ہے۔ ابھی پچھلے ہی ہفتے یہ خبر اخبارات میں نمایاں طور پر چھاپی گئی تھی کہ کئی معاملات پر وائٹ ہائوس اور پینٹاگون کے درمیان اختلاف موجود ہے۔ مختلف تھنک ٹینکس نے ان پالیسی اختلافات کا جائزہ لینے میں تو ضرور دلچسپی لی ہو گی لیکن کسی کو ویسی تشویش نہ ہوئی ہو گی جیسی ہمارے ہاں ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں تشویش پیدا ہوجانے کی بھی کچھ جائز وجوہات موجود ہیں کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات اور کشیدگی کی ایک تاریخ رہی ہے۔ کبھی کبھار تو ایسے اختلافات ہوئے کہ دو بڑوں میں سے کسی ایک کو گھر جانا پڑا۔ کبھی بھٹو صاحب نے جنرل گل حسن کو گھر بھیج دیا تو کبھی ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو۔ کبھی جنرل وحید کاکڑ نے نواز شریف کو بھجوایا تو کبھی نواز شریف نے جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لے لیا۔

پرویز مشرف اور نواز شریف کے اختلافات کی کہانی تو زبان زد عام ہے۔ لیکن اگر پاکستان میں ایسی تاریخ رہی ہے تو کیا اس کا ہمیشہ مطلب یہ ہوگا کہ اختلاف ہمیشہ ایک ہی جیسا نتیجہ پیدا کرے گا؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں یوں بھی ہوچکا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی لگانے سمیت کئی معاملات پر اختلافات رہے لیکن اداروں نے اپنا اپنا کام جاری رکھا اور سب نے اپنی اپنی مدت مکمل کی۔ دو روز پہلے وزیر اطلاعات فواد چودھری کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس کے کئی مطالب نکالے گئے۔ ایک واضح مطلب تو یہ ہے کہ تعلقات میں وہ کشیدگی نہیں جو کسی بحران کو پیدا کرے۔ میں نے فواد چودھری کی پریس کانفرنس سے سات نکات اخذ کیے ہیں جوتجزیے کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

-1 فواد چودھری کی پریس کانفرنس سے ہمیں باضابطہ طور پر پتہ چلا کہ وزیر اعظم نے فوج کی طرف سے ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی کے حوالے سے جاری کی گئی پریس ریلیز ماننے سے انکار کر دیا اور اس انکار کو قبول بھی کر لیا گیا ہے۔

-2 وزیر اطلاعات فواد چودھری کی جانب سے پریس کانفرنس کرانے کا مطلب یہ بھی تھا کہ حکومت اپنے انکار کو رجسٹر کرانا چاہتی تھی اور واضح پیغام دینا چاہتی تھی کہ ہم نے ڈی جی کی تعیناتی کے لیے اختیار کیے گئے طریقہ کار کو تسلیم نہیں کیا اور ڈی جی لگانے کے اپنے حق کو تسلیم کرایا ہے۔

-3 فواد چودھری کی پریس کانفرنس سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ جنرل فیض حمید کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی ذمہ داریاں جاری رکھنے کی وزیر اعظم کی خواہش کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ تبھی تو تین نام وزیر اعظم کو دیے جائیں گے۔ گویا یہاں وزیر اعظم کو قائل کر لیا گیا کہ وہ اس پر اصرار نہ کریں۔

-4 وزیر اعظم کو تین نام بھیجے جانے کا مطلب یہ بھی تھا کہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز جس میں نئے ڈی جی آئی کی تعیناتی کی خبر دی گئی تھی، کالعدم ہو گئی ہے۔

-5 اگروزیر اعظم کو بھیجے جانے والے تین ناموں میں جنرل ندیم انجم کا نام بھی شامل ہوتا ہے اور وزیر اعظم رسمی کارروائی کے بعد انہی کو ڈی جی لگانے کی منظوری دے دیتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے ہیں۔ اگر وزیر اعظم کی جانب سے کسی اور کو ڈی جی لگایا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہو گا تنائو برقرار ہے۔

-6 فواد چودھری کی پریس کانفرنس سے واضح ہوا ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان نئے نام پر اختلاف نہیں ہوا بلکہ پرانے ڈی جی کے برقرار رہنے یا نہ رہنے پر اختلاف ہوا، دوسرا اختلاف طریقہ کار کو فالو نہ کرنے پر تھا۔ اب اگر اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ پرانے ڈی جی جائیں گے تو نئے نام پر اتفاق رائے ہونا مشکل دکھائی نہیں دیتا۔ گویا بنیادی نکتے پر اتفاق ہو گیا ہے کہ ڈی جی جائیں گے۔

-7 آخری نکتہ یہ ہے کہ فواد چودھری کی پریس کانفرنس سے تاثر ملتا ہے سول ملٹری تعلقات میں پیدا ہونے والا یہ اختلاف بغیر کچھ Damage کیے گزر گیا ہے۔ معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے ہیں۔ یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ اختلاف کی وجہ باقی نہیں رہی۔

ماضی میں وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان ڈی جی آئی ایس آئی لگانے پرکئی بار اختلاف ہو چکا ہے۔ پہلے دورحکومت میں نواز شریف کی طرف سے لگائے گئے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ناصر کو جنرل وحید کاکڑ نے وزیر اعظم کی مرضی کے بغیر تبدیل کر کے جنرل اشرف قاضی کو نیا ڈی جی لگا دیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جنرل ناصر اچانک بہت مذہبی شخصیت بن گئے تھے، زیادہ وقت تبلیغ میں گزارتے تھے، اتنے سخت مذہبی نظریات کے حامل ہو گئے تھے کہ خواتین کی طرف دیکھنے کو بھی گناہ سمجھتے تھے۔ ایسے میں فوجی قیادت کی رائے میں ان کی اپنے ادارے پر گرفت کمزور پڑ گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جنرل وحید کاکڑ نے انہیں تبدیل کر کے اشرف قاضی کو یہ ذمہ داری سونپ دی۔ اس پر نواز شریف کو اعتراض ہوا، انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا لیکن درگزر کا معاملہ ہو گیا اور بات آگے بڑھ گئی۔

ایسے ہی دوسرے دور حکومت میں جب نواز شریف نے محسوس کیا کہ پرویز مشرف آتے ہی دھڑا دھڑ تقرروتبادلے کر رہے ہیں، کئی کور کمانڈرز بدل دیئے ہیں، ڈی جی ایم اواور سی جی ایس کو بھی تبدیل کر دیا ہے تو نواز شریف کو کھٹکا ہو ااور انہوں نے پرویز مشرف سے بات کی۔ پرویز مشرف نے اسے اپنا اختیار اور روٹین میٹر قرار دے کر چپ کرا دیا۔ جواب میں نواز شریف نے بھی اپنی مرضی سے پرویز مشرف کی اینٹی لابی کے آدمی جنرل ضیاء الدین بٹ کو ڈی جی آئی ایس آئی لگا دیا۔

پرویز مشرف نے اس نام پر اعتراض کیا تو نواز شریف نے اسے اپنا اختیار قرار دے کر انہیں چپ کرا دیا۔ اسی طرح بے نظیر بھی اپنے پہلے دور میں اپنی مرضی کا ڈی جی آئی ایس آئی ڈھونڈ کے لائی تھیں جس کی فوج کے ساتھ بن نہ سکی اور روز کھٹ پٹ چلتی رہتی۔ اب ایک بار پھر اس معاملے پر اختلاف دیکھنے میں آیا ہے جس کی عمر زیادہ نہ ہونے کی توقع ہے۔ امید ہے دونوں جانب سے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملے کو خوش اسلوبی سے انجام تک پہنچا دیاجائے گا۔

Check Also

Pyara Herry

By Saira Kanwal