Tuesday, 16 April 2024
  1.  Home/
  2. Asad Ullah Khan/
  3. Inhen Giran Faroshi Ki Ijazat Hai Kya?

Inhen Giran Faroshi Ki Ijazat Hai Kya?

انہیں گراں فروشی کی اجازت ہے کیا؟

آٹا مہنگا ہونے پر پریشان مت ہوئیے صاحب!چھوٹی دکان سے خریدتے ہوئے آپ کو تکلیف ہو رہی ہے تو بڑے سٹور سے خرید لیجئے، مہنگا اور ناقص آٹا خرید کر بھی آپ کی تسلی رہے گی۔ ہوتا یوں ہے کہ حکومت ایک نام نہاد سرکاری ریٹ لسٹ جاری کرتی ہے۔ گوشت، انڈے، چینی، چاول، دالیں، سبزیاں اور پھل، سب کے نرخ مقرر کیے جاتے ہیں۔ پھراس ریٹ لسٹ کا اطلاق کرانے کے لیے پرائس کنٹرول کمیٹیاں گلی محلوں میں گشت شروع کرتی ہیں۔ مجموعی طورپر توچھوٹے اور غریب دکاندار اس سرکاری حکم نامے کی پابندی کر ہی رہے ہوتے ہیں لیکن چند ایک گراں فروشی کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ گراں فروشی کرنے والے غریب دکانداروں میں سے کچھ پر تو مقدمہ ہو جاتا ہے اور باقی موقع پر معاملات طے کر کے ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کے اعدادوشمار میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں۔

اب آپ ایک بڑے یا درمیانے درجے کے سپر سٹور کا رخ کیجیے۔ گوشت سے لیکر انڈوں تک، چینی اور چاول سے لیکر دالوں اور مصالحہ جات تک، سبزیوں اور پھلوں سے لیکر آٹے اور خشک میوہ جات تک، کسی ایک چیز کی فروخت بھی سرکاری ریٹ لسٹ کے مطابق نہیں ہوتی۔ دالیں، سبزیاں اور پھل پچاس فیصد تک مہنگے ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان سے پوچھ لیں کہ ڈی سی ریٹ کی پابندی کیوں نہیں کی جا رہی تو جواب میں سٹور کے ایک "غریب" سے کونے میں رکھے چھ ڈبوں کی طرف اشارہ کر دیا جاتا ہے جہاں رکھی گنتی کی چار چھ اشیا پر ڈی سی ریٹ کی پرچی آویزاں کر کے حجت تمام کی گئی ہوتی ہے، یہ چند اشیاء دیکھنے میں ہی اتنی ناقص اور گھٹیا معلوم ہوتی ہیں کہ کوئی انہیں خریدنے پر غور کرنے کی جرأت ہی نہ کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری نرخ نامے کے ساتھ ساتھ ان سٹورز پر پابندی عائد کی گئی ہے کہ ان اشیاء کا ناقابل استعمال ہونا شرط ہے؟ اور پھر یہ ہوتی بھی گنتی کی چند اشیا ہی ہیں، محض حجت تمام کرنے کے لیے۔ کیا پرائس کنٹرول کمیٹیوں نے ان بڑے اسٹورز کو اپنی سرکاری نرخ پر اشیاء بیچنے کی شرط سے مبرا کر رکھا ہے؟ اس پر ڈھٹائی ملاحظہ کیجیے، سٹور میں جا بجا "ہمیشہ سستا" یا "سب سے سستا " کے بینرز اور اسٹیکرز آویزاں کر کے عوام کے جذبات سے بھی کھیلا جاتا ہے۔ حکومت سے سوال ہے کہ انہیں آپ نے گراں فراشی کی اجازت دے رکھی ہے کیا؟ اب آپ کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے چلے جائیے۔ ایک نان یا روٹی45 روپے سے لیکر 90 روپے تک میں دی جاتی ہے، پھر اس روٹی پر 16 فیصد کے حساب سے سیلز ٹیکس الگ۔ پانی کی پچاس روپے والی ایک بوتل کے ایک سو دس روپے سے لیکر ایک سو اسی روپے تک وصول کر لیے جاتے ہیں۔ حکومت سے سوال ہے کہ ان ریسٹورانٹ والوں کو گراں فروشی کی اجازت ہے کیا؟

آپ موٹروے پر سفر کیجیے، کسی قیام گاہ میں رک کر پانی کی ایک بوتل طلب کیجیے، ایک جوس لے لیجیے یا چپس کا ایک پیکٹ۔ طے شدہ نرخ سے دو گنا زیادہ پیسے آپ کو ادا کرنا ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ ہائی ویز اور موٹرویز حکومت کی پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں کیا؟

آپ اسلام آباد کے ایک معمولی سے گیسٹ ہائوس یا ہوٹل میں قیام کیجیے، معمولی سا سستانے کے بعد چائے کا ایک کپ منگوائیے، آپ سے اس ایک کپ کے ڈھائی سو روپے لے لیے جائیں گے۔ بھئی مان لیجئے کہ چائے کے ایک کپ پر آپ کے بیس روپے خرچ ہو گئے ہوں گے تو آپ چالیس لے لیجئے، پچاس لے لیجئے یا چلئے ستر روپے ہی صحیح مگر ڈھائی سو روپے؟ منافع کمانے کی یہ کونسی شرح ہے جس پر نہ حکومت کی کوئی رٹ نافذ ہوتی ہے، نہ اخلاقی اقدار کا کوئی دبائو۔ ہو سکتا ہے آپ کے پاس میرے ان اعتراضات کے جواب میں دلیل یہ ہو کہ اگر ریسٹورنٹ میں ایک روٹی کے 90 روپے وصول کیے جا رہے ہیں تو بیٹھنے کے لیے اچھا ماحول اور صاف ستھرے برتن بھی تو دیے جا رہے ہیں۔ یہی جواب ان پرائیویٹ ہسپتا ل کے مالکان نے بھی سپریم کورٹ میں دیا تھاجب جسٹس ثاقب نثار اپنی مدت کے آخری چند ماہ میں عوامی مفاد کے مقدمات سن رہے تھے اور ہفتہ اتوارکو لاہور میں عدالت لگایا کرتے تھے۔ جسٹس ثاقب نثار نے لاہور کے بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں کے مالکان کو بلا کر پوچھا کہ ایک کمرے کا ایک رات کا کرایہ ستر ہزار روپے؟ اتنا تو فائیو سٹار ہوٹل کا بھی نہیں ہوتا۔ ثاقب نثار نے پوچھا ہسپتال چھوڑتے وقت ایک مریض کا بل 16 لاکھ روپے؟ آخر ایسا کیا علاج کیا گیاکہ اتنا بل بنا؟ جواب میں پرائیویٹ ہسپتال کے مالکان کا کہنا تھا کہ ہم جو سہولتیں اور ماحول فراہم کرتے ہیں اس کے عوض بھاری قیمتیں وصول کی جاتی ہیں۔ کئی دن تک بحث ہوتی رہی سپریم کورٹ نے تمام دلائل ماننے سے انکار کر دیا اور پابند کیا کہ کہ وہ اینجیو پلاسٹی کا ایک لاکھ روپے سے زائد وصول نہیں کر سکتے جس کے پہلے پانچ لاکھ روپے تک وصول کر رہے تھے۔ میں کمرہ عدالت میں موجود تھا، مجھے یا د ہے جب ایک ہسپتال مالک نے انکار کرتے ہوئے کہا، اتنے میں ہم نہیں کر سکتے ہسپتال بند ہو جائے گا۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا تو بندکر دیجئے، کوئی اور کام کیجئیے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی کاروبار میں منافع کمانے کے لیے مادر پدر آزادی نہیں دی جا سکتی، محکمہ صحت کو پابندکیا کہ جو عمل درآمد نہ کرے اسے بھاری جرمانے کیے جائیں اور ضرورت پڑے تو اسپتال بند کر دیا جائے۔ وہ الگ بات کہ قانون کی عملداری کو ان کے جانے کے بعد یقینی نہ بنایا جا سکا اور حالات جوں کے توں ہیں جیسا کہ سب محکموں میں ہیں اور حکومت کان لپیٹے سو رہی ہے یا اپنے جوڑ توڑ میں لگی ہے۔

ہمارے ہاں کنزیومر کورٹس موجود تو ہیں مگر عوام میں صارف کے حقوق سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ شاید عدالتوں کا مشکل اور سست نظام عوام کو صارف عدالتوں کا رخ کرنے سے روکتا ہے جس کے نتیجے میں گراں فروش بے دید ہو چکے ہیں۔ مسئلہ صرف گراں فروشی کا ہی نہیں، ناقص اور غیر معیاری اشیاء نہایت اعتماد کے ساتھ فروخت کی جاتی ہیں۔ تصور بدل چکا ہے، اچھی اور مہنگی پیکنگ، اشیاء کے معیار کی علامت بن چکا ہے۔ ناقص اشیاء کی خوبصورت پیکنگ کیجیے اور مہنگے داموں بیچ دیجیے کہ یہاں سب بکتا ہے۔

Check Also

Baba Ji

By Muhammad Saqib