ورچوئل پرائم منسٹر
مسلم لیگ (ن) کے صدر، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف ایک بار پھر کورونا وبا کو جواز بنا کر نیب کو طرح دے گئے، بدھ کو انہیں نیب نے طلب کر رکھا تھا لیکن انہوں نے خود حاضر ہونے کے بجائے میڈیکل سرٹیفکیٹ بھیج دیا کہ وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا رہے ہیں، اگرچہ ان کی صحت اب ٹھیک ہے لیکن وہ نیب کے سامنے پیش ہو کر خود وبا کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ انہوں نے نیب کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات جو ان کے مطابق یادداشت میں تھے بھی لف کر دیئے کیونکہ شہبازشریف کا دعویٰ ہے کہ کورونا وائرس کی بنا پر اس وقت ریکارڈ مہیا نہیں ہو رہا۔ حسب توقع نیب نے جوابات کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے انہیں 4 مئی کو دوبارہ طلب کر لیا۔ بدھ کے روز ہی رانا ثنااللہ نے 92 نیوز پر میرے پروگرام "ہو کیا رہا ہے"میں سوال کا جواب دیتے ہوئے اس امکان کو رد نہیں کیا کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا حکومت لیڈر آف اپوزیشن کے سرگرم عمل ہونے اور کورونا وائرس کے حوالے سے ٹف ٹائم دینے کی بنا پر انہیں منظر سے ہٹانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ایسی کون سی نئی بات ہے جو نیب میاں شہبازشریف سے پوچھنا چاہتا ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی اس معاملے کو فراڈ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیب پوچھ گچھ تو کرتا نہیں اس کا مقصد انتقامی کارروائیاں کرنا ہی ہوتا ہے، اسی بنا پر وہ تو چاہتے ہیں کہ شہبازشریف کے ساتھ پوچھ گچھ کی روداد لائیو دکھائی جائے۔ شہباز شریف بھی اگرچہ آفر کر چکے ہیں کہ وہ ویڈیو لنک پر نیب کے سوالات کے جوابات دے دیتے ہیں لیکن نیب نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہمارا نیب سے کوئی لینا دینا نہیں۔ نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال بھی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ نیب آزاد ادارہ ہے کسی حکومت کے نہیں بلکہ پاکستان کی ریاست کے تابع ہے۔ حسب توقع حکومت کی ترجمان، معاون خصوصی اطلاعا ت فردوس عاشق اعوان خاموش نہیں رہ سکیں، ایک ٹویٹ میں ان کا دعویٰ ہے کہ شہباز شریف کا انکار لیگی قیادت کے قول وفعل میں تضاد کی زندہ مثال ہے۔ ایک طرف تو وہ نیب کی تحقیقاتی ٹیم کے سوال کا جواب دینے کو تیار نہیں کہ وہ وبا کی وجہ سے سماجی فاصلوں کا خیال کرتے ہیں لیکن دوسری طرف سینکڑوں ارکان پارلیمنٹ کی موجودگی میں اجلاس بلانے پر مصر ہیں۔ محترمہ کو اپوزیشن کی یہ منطق بھی نرالی لگتی ہے کہ ایک طرف مساجد کھولنے پر اعتراض کیا جاتا ہے تو دوسری طرف وہ پارلیمنٹ کھولنے کے لیے بے تاب ہیں۔ جب شہبازشریف لندن میں مقیم تھے تو حکومتی پارٹی کے یہی ترجمان طعنے دیتے نہیں تھکتے تھے کہ پاکستانکے انتہائی گھمبیر حالات کے باوجود قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر لندن کے مزے لوٹ رہے ہیں اور واپس آنے سے انکاری ہیں اب جبکہ وہ واپس آ چکے ہیں طرح طرح کی پھبتیاں کسی جاری ہیں۔ سب سے مضحکہ خیز اعتراض یہ ہے کہ شہبازشریف کو خطرہ تھا کہ کورونا وائرس کی بنا پر لندن میں انہیں وینٹی لیٹر مہیا نہیں ہو پائے گا لہٰذا وہ بھاگم بھاگ پاکستان آ گئے۔ ایک اور وزیر باتدبیر کا فرمانا ہے کیونکہ شہباز شریف کا خیال تھا کہ کورونا وائرس کی بنا پر حکومت کا چل چلاؤ ہے تو وہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے واپس آئے ہیں۔
اس سارے گورکھ دھند ے میں یہ بات افسوسناک ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس امر کے باوجود کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد ایک شدید ترین بحران سے گزر رہا ہے اور کورونا وائرس کے ہاتھوں بڑی تباہی کا ڈاکٹروں اور سنجیدہ حلقوں کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی اور فقرے بازی معمول کے مطابق چل رہی ہے۔ بلاول بھٹو، شہباز شریف اور اپوزیشن کی دیگر قیادت اس معاملے میں حکومت کو غیر مشروط تعاون کا یقین دلا چکی ہے لیکن وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو کورونا کے حوالے سے فیصلہ کن حفاظتی اقدامات کرنے پر نکو بنایا جا رہا ہے گویا کہ روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے۔ اس گھڑمس اور مخمصے کی صورتحال کی بنا پر پورے ملک میں لاک ڈاؤن مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ لگتاہے کہ قوم کو سو جوتے بھی مارے جا رہے ہیں اور سو پیاز بھی کھلائے جا رہے ہیں، نہ تو کاروبارچل رہے ہیں اور نہ ہی لاک ڈاؤن لیکن اقتدار کے ایوانوں میں سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا ہے۔ وی آئی پی کلچر اور بڑی بڑی موٹر کیڈ گورنرز اور وزرائے اعلیٰ استعمال کر رہے ہیں۔ وفاقی کابینہ جس کے بارے میں حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے تھے کہ" آپ نے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا، وزرا اور مشیروں کی فوج در فوج ہے، مگر کام کچھ نہیں، مشیروں کو وفاقی وزرا کا درجہ دے دیا، مبینہ طور پر کرپٹ لوگوں کو مشیر رکھا گیا، کابینہ کا حجم دیکھیں، 49 ارکان کی کیا ضرورت ہے؟ ، مشیر اور معاونین نے پوری کابینہ پر قبضہ کر رکھا ہے، اتنی کابینہ کا مطلب ہے کہ وزیراعظم کچھ جانتا ہی نہیں "۔ اب ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی امین الحق کے بطور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کا حلف اٹھانے سے کابینہ نے نصف سنچری مکمل کر لی ہے۔
دوسری طرف نیب بھی اس کے باوجود کہ کورونا وبا نے پورے ملک کو گھیر رکھا ہے معمول کے مطابق اپنے پکڑ دھکڑ کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے یہ ثابت کر رہاہے کہ وہ شاید قرنطینہ زدہ پاکستان میں نہیں بلکہ امن وآشتی یا خیر کے کسی جزیرے پر آپریٹ کر رہا ہے۔ دوسری طرف قومی اسمبلی کا اجلاس ویڈیو لنک پر بلانے یا نہ بلانے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے دو ٹوک اعلان کر دیا ہے کہ وہ ویڈیو لنک اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی کیونکہ پارلیمنٹ کو لاک ڈاؤن کرنا آئین کے ساتھ مذاق ہے اور ہم عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے نہیں دیں گے۔ خود صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک انٹرویو میں آن لائن پارلیمانی سیشن کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ حکومتی زعما کو اپوزیشن کا نہیں تو اپنے ہی نامزد صدر مملکت کا مشورہ مان لینا چاہیے۔ خواجہ محمد آصف نے بھی پارلیمنٹ کا اجلاس پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں ہی کرانے پر زور دیا ہے۔ ان کے مطابق اگر پارلیمنٹ ہال اور اس کے ساتھ گیلریزکو ملا لیا جائے تو اجلاس آسانی سے ہو سکتا ہے، ویسے بھی تمام ارکان اسمبلی اجلاس میں شرکت نہیں کرتے۔ حکومت کو آئند ہ بجٹ بھی اسمبلی سے منظور کرانا ہے لہٰذا اجلاس بلانا آئینی ضرورت بھی ہے۔ بہتر تو یہ ہو گا کہ خان صاحب جو کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہمیں اپوزیشن کے چوروں سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا لہٰذا سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ پارلیمانی پارٹیوں کے لیڈروں کے ساتھ میٹنگ کر کے اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔
شاہ محمود قریشی اور اسد عمر نپی تلی بات کرتے ہیں اور ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ کچھ اپوزیشن کی بات مان لیتے ہیں اور کچھ اپنی بھی منوا لیتے ہیں، مزید برآں وزیراعظم کو بھی قائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دراصل ویڈیو لنک پر پارلیمنٹ کا اجلاس ورچوئل پارلیمنٹ سیشن بلانے کے مترادف ہے۔ ورچوئل سے مراد یہ ہے کہ عملی طور پر نہیں بلکہ عملی طرز پر ہی اس حوالے سے ورچوئل لاک ڈاؤن کی اصطلاح بھی استعمال کی جا رہی ہے لیکن ورچوئل پارلیمنٹ کا حشر بھی اپوزیشن کی عدم شرکت کی صورت میں سمارٹ لاک ڈاؤن جیسا ہی ہو گا۔ حکمران جما عت کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ پارلیمانی جمہوریت کی ماں ہوتی ہے لیکن یہاں اسے محض اقتدار حاصل کرنے کے زینے کے طور پر اہمیت دی جاتی ہے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی میں ان کے مخالفین ہزار کیڑے نکال لیں لیکن وہ بطور وزیراعظم قر یباً بلاناغہ اجلاس میں شرکت کرتے تھے۔ یہ توفیق بطور وزیراعظم میاں نوازشریف کو حاصل ہوئی اور نہ ہی اب عمران خان کو، شاید اسی بنا پر وزیراعظم عمران خان سلیکٹڈ تو نہیں لیکن ایک ورچوئل پرائم منسٹر بنتے جا رہے ہیں۔