ڈھاک کے وہی تین پات؟
پاکستان تحریک انصاف کے ایک بزرگ رہنما جنہوں نے سیاست میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہے، اگلے روز میں نے ان سے استفسار کیا کہ آپ اپنے وسیع تجربے کی روشنی میں بتائیں کہ حکمران جماعت کا مسئلہ کیا ہے اور اقتدار سنبھالنے کے قریباً پندرہ ماہ گزرنے کے باوجو د اس کے پاؤں کیوں نہیں جم رہے، تو موصوف نے جو پارٹی میں ہونے کے باوجود کسی عہدے پر فائز نہیں برجستہ جواب دیا کہ "گورننس "۔ ان کی اس بات میں کافی حد تک صداقت نظر آتی ہے۔ اس عرصے میں عمران خان کی کابینہ اور "ڈریم ٹیم " کی کارکردگی یا عدم کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو واقعی "گورننس" کہیں نظر نہیں آتی گویا کہ جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ تازہ مثال کراچی سے راولپنڈی آنے والی تیز گام ایکسپریس کو پیش آنے والا حادثہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے اس بدترین حادثے میں آگ لگنے سے 74 افراد جاں بحق ہو گئے۔ وزیر ریلویز شیخ رشید احمد جو اپنی ذات میں انجمن ہیں نے اپنے مخصوص انداز میں یہ ٹکا سا جواب دے کر جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کی کہ حادثے کے ذمہ دار مسافر ہیں، ریلوے نہیں کیونکہ ٹرین میں سوار چند مسافروں نے گیس کے چولہے پر ناشتہ بنانے کی کوشش کی جس دوران سلنڈر پھٹ گیا یعنی ٹرین میں آتش گیر مادہ لے جانے کی کوئی ممانعت نہیں۔ گویا کہ خدانخواستہ اگر ٹرین پر سوار کوئی دہشت گرد، خودکش بمبار جیکٹ پہن کر دھماکہ کر دے تو مسافروں کا ہی قصور کہلائے گا۔ اپنے بہت سے کابینہ کے ساتھیوں کی طر ح شیخ صاحب کا بنیادی مسئلہ بھی یہی ہے کہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے بجائے دوسرے کاموں میں ٹانگ اڑاؤ۔ شیخ صاحب نے پوری حکومت اور اپوزیشن کو اپنی اپنی جگہ پر رکھنے کا بوجھ اپنے سینگوں پر سما رکھا ہے۔ وہ خارجہ وسکیورٹی پالیسی کے علاوہ مستقبل کے بارے میں پیشگوئیاں جو اکثر غلط ثابت ہوئیں کرنے میں یکتا ہیں۔ اس پراسس میں ان کے اپنے محکمے ریلویز کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جب سے وہ وزیر بنے ہیں یہ کلیدی محکمہ روبہ زوال ہونے کے علاوہ اقتصادی بدحالی کا بھی شکار ہے۔ ٹرینوں کا پٹڑی سے اتر جانا اور تاخیر کا شکار ہو جانا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ اس سے پہلے صادق آباد میں دو ٹرینوں میں تصادم کے نتیجے میں 20 افراد جاں بحق اور 84 زخمی ہو گئے تھے۔ حیدر آباد کے قریب حادثے میں مسافر ٹرین کی مال گاڑی سے ٹکر کے نتیجے میں ریلوے کے تین ڈرائیور ہلاک ہو گئے تھے اور سارا ملبہ ڈرائیور اور اس کے نائب پر ڈال دیا گیا تھا۔ شیخ صا حب کا اصرار ہے کہ یہ بھی پچھلی حکومت کی نالائقی ہے کہ اس نے نیا ٹریک اور سسٹم نہیں بنایا۔ کسی بھی مہذب ملک میں اتنے بڑے حادثے پر متعلقہ وزیر مستعفی ہو جاتا لیکن شیخ صاحب اپنے مخصوص لہجے میں کہتے ہیں کہ حادثے کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور قوم سے معافی مانگتا ہوں۔ انہوں نے ماہ جولائی میں صادق آباد حادثے کے فوراً بعد کہا تھا ریلوے کا قلمدان میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، میں پہلے بھی آٹھ بار وزیر رہ چکا ہوں۔ ان کا فرمانا ہے جب بھی میرے ضمیر پر بوجھ پڑا وہ مستعفی ہو جائیں گے، نہ جانے ان کے ضمیر پرکب کوئی بوجھ پڑے گا۔
مولانا فضل الرحمن کا "آزادی مارچ" اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے لیکن اس مارچ کے طفیل حکومت کی جملہ کمزوریاں پوری طرح آشکار ہو گئی ہیں۔ وزیراعظم کی اس گردان کے باوجود کہ مجھے کسی مارچ یا دھرنے کی کوئی پروا نہیں حکومت کا عدم تحفظ کا احساس عیاں ہو گیا ہے۔ مزید برآں موجودہ سیٹ اپ کی آمرانہ روش کو بھی مولانا نے خاصا بے نقاب کیا ہے۔ میڈیا کو ہی لیں، عمران خان اور طاہر القادری کے 2014 ء کے دھرنوں کو 24گھنٹے بلاناغہ لائیو کوریج دی گئی حتیٰ کہ بقول مسلم لیگ (ن) کے یہ تک بتایا جاتا تھا کہ خان صاحب اب اپنے بیڈ روم میں آرام کر رہے ہیں۔ پہلے تو یہ کہا گیا کہ مولانا دھرنا دیں ان کو کنٹینر اور کھانا بھی دیا جائے گا لیکن ساتھ ہی مولانا کے جم غفیر کی لائیو کوریج پر پابندی لگا دی گئی۔ اینکروں اور تجزیہ کاروں پر مزید پابندیاں لگانے کی کوشش کی گئی لیکن سارا معاملہ اس وقت چو پٹ ہو گیا جب میڈیا تنظیموں کے علاوہ خود حکومتی وزرا نے بھی اس کی مخالفت کر دی۔ اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب مشیر اطلاعا ت محترمہ فردوس عاشق اعوان جو کابینہ اجلاس میں "روں روں، کرنے کے حوالے سے یکتا ہیں نے شکایت کی کہ کابینہ کے بعض سینئرساتھیوں نے پابندی کے حوالے سے پیمرا کے اس فیصلے پر تنقید کر کے بلا واسطہ طور پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا روئے سخن محترمہ شیریں مزاری، اسد عمر اور سینیٹر فیصل جاوید سے زیادہ اپنے پیشرو فواد چودھری کی طرف تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں اس سر پٹھول کا کوئی زیادہ نوٹس نہیں لیا اور کہا کہ اس سے زیادہ ضروری مسائل ہیں جن پر توجہ دینی چاہیے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ پیمرا کے اس متنازعہ اعلامیے کو جسے لاہور ہائیکورٹ بھی معطل کر چکی ہے، کس خفیہ ہاتھ کی ہدایت پر جاری ہوا تھا اور لگتا ہے کہ وزیراعظم نے بھی اس کی اونر شپ نہیں لی۔ یہی حکومت کا المیہ ہے کہ اس کی طنابیں کون کون ہلاتا ہے؟۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی خارجہ محاذ سے زیادہ سیاسی صورتحال پر بیانات داغتے ہیں۔ وزیرسائنس وٹیکنالوجی فواد چودھری سائنس وٹیکنالوجی کے بجائے دوسرے موضوعات پر تبصرہ آرائی کرتے ہیں۔ وزیر ریلویز شیخ رشید تومسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایٹمی جنگ کی دھمکیاں دینے اورحساس سویلین ملٹری تعلقات پر بھی بات کرنے سے نہیں چوکتے۔ جہاں تک خان صاحب کا تعلق ہے ان کا سیاسی بیانیہ این آر او نہیں دونگا، چوروں کو نہیں چھوڑوں گا اور مدینہ کی ریاست بناؤں گا، سے آ گے نہیں بڑھتا۔ انھوں نے حکومتی ترجمانوں کی ایک فوج ظفر موج اکٹھی کر رکھی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی یلغار اسلام آباد پہنچنے سے پہلے پہلے انھوں نے ترجمانوں کو ہدایت کر دی ہے کہ گالم گلوچ کے بجائے سیاسی انداز سے حکومت کی ترجمانی کریں۔
حکومتی ترجمان اول محترمہ فردوس عاشق اعوان جو خود حکومت کے سیاسی مخالفین کا ذکر انتہائی حقارت آمیز انداز میں کرتی ہیں نے عدلیہ کو بھی اسی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی جس بنا پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کا نوٹس دے دیا اور وہ اپنے رویہ پر عدالت عالیہ سے معافی مانگ چکی ہیں۔ چند روز قبل جب میاں نوازشریف کو ہسپتال منتقل کیا گیا تو انھوں نے مضحکہ خیز دعویٰ کیا کہ میاں نوازشریف ہشاش بشاش ہیں اور یہ سب محض ڈرامہ بازی ہے۔ اس حوالے سے محترمہ کا خاصا مذاق بھی اڑایا گیا کیونکہ وہ خود بھی میڈیکل ڈاکٹر ہونے کی دعویدار ہیں لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جیسے انگریزی کا محاورہ ہے Charity begins at home (خیرات گھر سے شروع ہوتی ہے ) کے مصداق وزیراعظم کو باقی ماندہ مدت کے لیے گزشتہ پندرہ ماہ کی کارکردگی کی روشنی میں جمہوری راستہ متعین کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے کابینہ کے ارکان میں ڈسپلن پیدا کرنا اور نالائق لوگوں کو فارغ کرنا ان کی لیڈر شپ کا اصل امتحان ہے۔ نیز پارلیمنٹ کو فعال بنانے اور اپوزیشن سے مذاکرات کے ذریعے ضروری معاملات پر قانون سازی کرنے سے بھی گورننس کے معاملات بہتر ہو سکتے ہیں بصورت دیگر ڈھاک کے وہی تین پات۔