والد مرحوم کے لیے ایک نظم
عید سے دو تین دن پہلے میرے پوتے ابراہیم اور موسیٰ اپنے باپ علی ذیشان سے بکروں کو گھر میں لانے اور وہیں ذبح کرنے پر اصرار کررہے تھے جب کہ وہ انھیں کورونا کی چوتھی لہر اور اُس سے متعلق احتیاطی تدابیر کے حوالے سے آن لائن قربانی پر قائل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
پتہ نہیں کیسے اس منظر سے میرا ذہن یک دم ساٹھ پینسٹھ برس پیچھے چلا گیا جب میں خود پہلی بار اپنے والد صاحب کے ساتھ قربانی کے لیے خریدے ہوئے جانور کو گھر لارہا تھااور وہ مجھے سمجھا رہے تھے کہ اس قربانی کی تاریخ اور مقصد کیا ہے اور اب قربانی سے پہلے تک اس بکرے کی دیکھ بھال اور آئو بھگت کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا۔
اتفاق سے گزشتہ برس بھی کورونا کا دور دورہ تھا، اس لیے چھوٹے بھائی احسن کے گھر مل کر یہ فریضہ جلدی جلدی میں ادا کیا گیا مگر بچوں کے نزدیک بکرے کو بغیر دیکھے، چھوئے اور اُس کے ذبح ہونے کا منظر بچشمِ خود نہ دیکھ سکنے اوراُس کے آن لائن قربانی کا یہ تصور بالکل ناقابلِ فہم تھا جس کا اندازہ اُن کی آنکھوں اور چہروں سے بخوبی ہو رہا تھا۔
مجھے یاد آیا کہ ایسے موقعوں پر والد مرحوم مجھے کس طرح لوک دانش اور بچوں کی نفسیات کے مطابق عقل اور منطق کو ملا کر سمجھایا اور بہلایا کرتے تھے۔ سو ہُوا یوں کہ ابراہیم، موسیٰ اور علی ذی شان کی باتیں اور چہرے کسی نامعلوم طریقے سے فیڈ آئوٹ اور آئوٹ آف فوکس ہونا شروع ہوگئے اور اُن کی جگہ ایک نظم کی ایسی لائنوں نے لے لی جو نہ صرف آپ سے آپ بننے لگیں بلکہ اس کے بعد آخری لائن تک انھوں نے مجھے یعنی شاعر کو بھی ایک طرف کردیا۔ والد مرحوم پیشے کے لحاظ سے دستکار تھے اور درسی تعلیم بھی اُن کی واجبی سی تھی۔
نوجوانی میں فٹ بال اور اُدھیڑ عمر میں بیڈ منٹں کے اچھے کھلاڑی رہے۔ جاسوسی اور تاریخی ناول بہت شوق سے پڑھتے تھے۔ کھیل اور مطالعے کے شوق کے ساتھ جو سب سے بڑا تحفہ مجھے انھوں نے دیا، وہ اپنا راستہ خود بنانے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا تھا اور میں دل سے سمجھتا ہوں کہ جو والدین اپنے بچوں پر اعتماد کرنے اورانھیں خود پر اعتماد کرنے کی تحریک دیتے ہیں اور اُن کے ٹریک سے اُترنے یا کسی مخمصے میں گرفتاری کے وقت کے سوا انھیں اپنے رستے پر چلنے دیتے ہیں وہ اور اُن کے بچے ہمیشہ سکھی اور کامیاب رہتے ہیں۔ سو یہ نظم حاجی محمد اسلام مرحوم کی نذر کہ جو آج بھی میرے لیے ہمت، محنت اور محبت کا سرچشمہ ہیں۔
اس طلِسم حیات میں میری
آنکھ کُھلنے کے اوّلیں پَل سے
اُن کی آنکھوں کے بند ہونے تک
اک تسلسل کبھی نہیں ٹوٹا
کوئی مشکل گھڑی نہ تھی ایسی
حوصلہ خیز وہ نظر اُن کی
جب مرے ہم قدم نہ آئی ہو
اُن کی مانوس دِلربا تھپکی
ظلمتوں میں نہ جگمگائی ہو!
اُن کو معلوم یہ حقیقت تھی
وقت روکے سے رک نہیں سکتا
یہ جو اَب ہیں سوال، بدلیں گے
اُن پہ یہ راز آشکار تھا
یہ جو بدلے تو پھر جوابوں کی
شکل اور ساخت بھی نئی ہوگی
جب نئی روشنی کِھلے گی تو
سب پرانے خیا ل بدلیں گے
………
مرحلے زندگی کے ہوں یا پھر
درودیوار آشیانے کے
اُن کی خوشبو ہے ہر جگہ موجود
اُن کے لہجے کی روشنی اب بھی
ہر اندھیرا اُجال دیتی ہے
آگہی بے مثال دیتی ہے
………
کس قدر خوش نما یہ ناتا ہے
میرے بچوں سے اُن کے بچوں تک
ایک شفقت کا سائباں جیسے
ہر طرف پھیلتا ہی جاتا ہے
………
باپ کے دل سے ہو، سِوا، ایسا
کوئی دریا عمیق ہے ہی نہیں
زندگی کے بکھرتے رستوں میں
کوئی ایسا شفیق ہے ہی نہیں
دوست بھی، راہبر بھی، ناقد بھی
باپ جیسا رفیق ہے ہی نہیں
عین عید کے روز ہمارے صحافی دوست عارف نظامی بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ حمید نظامی مرحوم کی اولاد میں سب سے زیادہ انھوں نے ہی اپنے عظیم والد کی روائت کی پاسداری کی اور اُسے آگے بڑھایا بدقسمتی سے اپنے چچا مجید نظامی صاحب سے اختلافات کی وجہ سے وہ ادارہ نوائے وقت سے علیحدہ ہوگئے اور ہم نے دیکھا کہ اس واقعے کے بعد پھر یہ تاریخ ساز ادارہ بھی اپنی مقبولیت کو برقرار نہ رکھ سکا اور خود عارف نظامی مرحوم بھی الگ سے اپنی کوئی دنیا بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے جب بھی اُن کے ٹی وی پروگرام کو دیکھنے کااتفاق ہوا صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ تندرست نہیں ہیں اُن کی آنکھیں، باڈی لینگوئج اور گفتار کی لرزش سب اس بات کے غماّز تھے کہ اُن کے ردّعمل یا بحث کے انداز میں ایک خاص طرح کے ٹھہرائو اور سستی نے گھر کرلیا ہے شاید اس کی وجہ وہی دل کا عارضہ ہو جو بالآخر اُن کی جان لے گیا اُن کی رخصت سے نظامی خاندان بھی فی الوقت پاکستانی صحافت میں اپنی جاندار نمایندگی سے محروم ہوگیا ہے ربِ کریم اُن کی آخری منزلیں آسان فرمائے۔
فیس بُک کے ذریعے برادرِ عزیز سلیم مغل کے بھائی جاوید مغل کے انتقال کا پتہ چلا ربِ کریم اُن کی رُوح پر بھی اپناکرم فرمائے اور سلیم مغل سمیت سب پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے کہ اس خبر سے میرے اپنے چھوٹے بھائی محسن اسلام کی جدائی کا غم بھی پھر سے تازہ ہوگیا ہے۔