سیاست، صحافت اور ہم
برادرم اے بی اشرف گزشتہ کئی دہائیوں سے ترکی میں مقیم ہیں اور اُردو کی تدریس سے ریٹائرمنٹ کے بعد انقرہ ہی کے ہوکر رہ گئے ہیں۔
میرا اُن سے واقفیت اور محبت کا تعلق تقریباً نصف صدی پر محیط ہے کہ میری شاعری پر اُس وقت انھوں نے ایک مبسوط مضمون لکھا تھا جب میری صرف ایک کتاب یعنی "برزخ" شائع ہوئی تھی، ان دنوں وہ غالباً ملتان یونیورسٹی کے شعبہ اُردو سے متعلق تھے، اُن کی ترکی روانگی اور میری ڈرامہ نگاری کی مصروفیات کے باعث بیچ میں خاصا لمبا عرصہ خاموشی کا گزرا لیکن چند برس قبل یہ رابطہ بحال ہوا تو نہ صرف اس کی تازگی برقرار تھی بلکہ باہمی احترام میں بھی اضافہ ہوچکا تھا۔
2019میں ترکی کی طرف سے ملنے والے نجیب فاضل انٹرنیشنل ایوارڈ کے سلسلے میں استنبول اور انقرہ جانے کا موقع ملا تو عزیزہ آسمان اوزجان کی معرفت تجدید ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد سے اب تک ہم مسلسل ایک د وسرے سے رابطے میں رہتے ہیں اور آپس میں لائقِ مطالعہ و دید چیزیں فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔
آج کا یہ کالم بھی اُن کی بھجوائی ہوئی ایک ویڈیوکی دین ہے جس میں ہمارے پانچ صحافی بھائی سیاست اور صحافت کے موجودہ تعلقات کے حوالے سے ا س کی تاریخ اور اُن مختلف مراحل پر گفتگو کر رہے ہیں جن کی وجہ سے دونوں شعبوں کے باہمی تعلقات متوازن ہونے کے بجائے مسلسل ایک انتشار، زوال اور دو طرفہ شکائتوں کا ایک منظر نامہ بن کر رہ گئے ہیں۔ ان پانچ میں سے دو صحافیوں کو میں ذاتی طور پر بہت اچھی طرح اور نزدیک سے جانتا ہوں جب کہ باقی تین حضرات سے تعلق قدرے فرمائشی سا ہے۔
میں ان میں سے کسی کا بھی نام نہیں لوں گا کیونکہ اس سے ہمارے اُن کے بارے میں پہلے سے قائم شدہ نظریات کی وجہ سے چیزوں کو مکمل آزاد اور بے لاگ طریقے سے دیکھنا بوجوہ مشکل ہوجاتا ہے کہ مجھ سمیت ہر آدمی اپنی رائے سے ہم آہنگ آوازوں کو صحیح اور کسی بھی سطح اور حوالے سے اختلافی باتوں کو فطری طور پر"غلط" کے خانے میں ڈال دیتاہے اور بعض اوقات کسی پرانے اختلاف کو بِنا سوچے سمجھے کسی مختلف یا نئے موضوع پر نافذ اور طاری کردیتا ہے، سو انصاف اور عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ کسی کی ذات، گروہ اور موضوع زیرِ بحث سے اوپر اُٹھ کر اُن کے خیالات کو سُنا اور سمجھا جائے اور صرف لہجے کی تلخی یا تنقید کے مخالفانہ روّیئے کی وجہ سے اُنکے نظریات، تجربات، مشاہدات یا اندازوں اور تجزیوں کو یہ کہہ کر ردّی کی ٹوکری میں نہ ڈال دیا جائے کہ یہ "ٹھیک لوگ" نہیں ہیں۔
عین ممکن ہے اُن میں سے کچھ لوگ واقعی کسی نہ کسی حوالے سے "ٹھیک نہ ہوں مگر اس طرح کے لوگ تو اعتراض اور یہ فیصلہ کرنے والوں کی صفوں میں بھی ہوتے ہیں بشرطیکہ اُن کو رعائتی نمبر دے کر پاس نہ کردیا جائے تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وطنِ عزیز کی 73 سالہ زندگی میں سرکار اور اخبار یعنی سیاست اور صحافت میں ہمیشہ سے کچھ ایسے معاملات چلے آرہے ہیں جنھیں دونوں طرف سے ٹھیک کرنا ضروری تھا مگر یہ بھی ضروری تھا کہ یہ کام دونوں اداروں کے اہلِ نظر افراد خود کرتے اور دوسروں کی غلطیاں گننے کے بجائے اپنی طرف کے مسائل اور لوگوں کو ٹھیک کرتے اور اپنے اپنے روّیوں میں وہ لچک پیدا کرتے جس کی توقع وہ دوسروں سے کررہے ہیں۔
غور سے دیکھا جائے تو صحافت اور سیاست کے اس منظر نامے میں میڈیا کی منیجمنٹ اور عوام کی شکل میں دو اور stake holdersبھی موجود ہیں لیکن ان کی علیحدہ حیثیت کو تسلیم کرنے کے بجائے ہم میڈیا کی مینجمنٹ کو عامل صحافیوں اور عوام کو حکومت اور اس کی پالیسیوں سے خلط ملط کردیتے ہیں جب کہ ان چاروں کے بیشتر معاملات اور تشخص واضح طور پر ایک دوسرے سے الگ ہیں۔
اے بی اشرف کی بھجوائی ہوئی ویڈیو میں جو پانچ صحافی باتیں کرتے نظر آرہے ہیں، وہ سب کے سب حکومتِ وقت اور گزشتہ حکومتوں کے صحافیوں سے روارکھے جانے والے سلوک اور تعلق سے نالاں نظر آتے تھے مگر اس اختلاف اور شکائت کے باوجود وہ موجودہ سیاسی حزبِ اختلاف کے حامیوں میں سے نہیں بلکہ اپنے حقوق کی بات کررہے ہیں۔
اُن کا یہ کہنا کہ وہی سیاسی لوگ جو حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے ان کے حقوق کی حمائت اور باتیں کرتے نہیں تھکتے، اقتدار میں آتے ہی انھیں ان لوگوں میں تخریب کار، موقع پرستNGOsکے پروردہ ایجنٹ اور لفافوں کے متلاشی مرسنری نظر آنے شروع ہوجاتے ہیں اور وہ میڈیا اور صحافیوں کے مسائل کو الگ الگ حل کرنے کے بجائے زیادہ تنقید کرنے والے صحافیوں پر طاقت استعمال کرتے ہیں البتہ ایک غلطی میرے خیال میں دونوں طرف سے دہرائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ چند صحافی جو کسی اَن دیکھے انقلاب کا نام لے کر حکومت کی ہر بات پر مخالفانہ تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اُن صحافتی اقدار کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں جن کے وہ پابندہیں ان کو وقت پراور طریقے سے نہ تو حکومت روکتی ہے اور نہ خود اُن کی اپنی برادری۔
بلاشبہ صحافت کا ایک اعلیٰ تر منصب حاکمانِ وقت کو اُن کی غلط پالیسیوں اور اُن کے منفی اثرات سے آگاہ کرنا اور عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے انھیں اعتدال کے راستے پر گامزن رکھنا ہے بلکہ اس کے ساتھ وطن کی جغرافیائی، نظریاتی اور اقدار ی سرحدوں کی اپنے طریقے سے حفاظت کرنا بھی ہے۔
ہر اچھا صحافی فرانسیسی مفکّر والٹیئر کے اس قول کی زندہ مثال ہوتا ہے کہ "اگرچہ میں فلاں شخص کے خیالات و نظریات سے بالکل اتفاق نہیں کرتا اور انھیں قطعاً غلط سمجھتاہوں لیکن جس دن کسی نے اُس کو بولنے اور اپنی بات کہنے سے روکنے کی کوشش کی، میں سب سے پہلے اُس کے حق میں آواز بلند کروں گا"۔
لیکن جس طرح کسی حکومت کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی مخالفت رکھنے والے شخص کا منہ زبردستی بند کردے، اسی طرح کسی صحافی کو بھی یہ زیبا نہیں کہ وہ آزادی، ِ اظہار کے نام پر مسلمہ حدود سے تجاوز کرے جب کہ یہ چوک میں دھوئے جانے و الے کپڑے زیادہ بہتر طریقے سے گھر کے اندر بھی دھوئے جاسکتے ہیں لیکن ان دوستوں کی گفتگو کا جو مجموعی تاثر مجھ تک پہنچا ہے۔
اس سے اختلاف کی گنجائش حدسے حد 5% ہوسکتی ہے کہ اُن کی یہ بات اور تاثر بہت وزن رکھتے ہیں کہ حکومتِ وقت کو صبر، حوصلے، دانشمندی اور اعلیٰ ظرفی سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو ایک بہت محدود اقلیت کے ردّعمل میں مبتلا نہیں کردینا چاہیے بلکہ اوپر اُٹھ کر صحافت میں کی جانے والی تنقید کو بنیادی طور پر اپنا ہمدرد، محب وطن اور خیر خواہ سمجھنا چاہیے اور اگر ساری نہیں تو جتنی تنقید درست لگے اُس کو مان بھی لینا چاہیے اور اسی طرح سمجھانے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ممکن ہے پوری اور اصل تصویر اُس طرح سے نہ ہو جیسی انھیں نظر آرہی ہے۔
ایک دوسرے کو snub کرنے کے بجائے اگر ہم اس کی جگہ spaceدینے کا طریقہ اپنا لیں تو صورتِحال فوری طور پر چاہے درست نہ بھی ہو مگر اس کے بہتر ہونے کے امکانات اور رستوں کی تعداد میں یقینا اضافہ ہوسکتا ہے اور اگر ایسا ہوجائے تو یہ گِلے شکووں اور تلخیوں کی فضا بھی یقینا بہتری کی طرف چل نکلے گی اور یہی خیر کی تلاش وہ رستہ ہے جو اُس امن اور سلامتی کی طرف جاتاہے جس کی حد تک ہم سب متفق اور یک جان ہیں۔