شین وارن اور راڈنی مارش
آج کل آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر ہے اورعمومی تجزیوں کے برخلاف پہلے ٹیسٹ کی حد تک پاکستانی ٹیم نے بہت ہی اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا ہے اور غالباً یہ ہماری تاریخ کی حد تک پہلا موقع ہے کہ ٹیم نے کسی ٹیسٹ کی ایک اننگز میں سنچری اوردوسری میں ڈبل سنچری کی اوپننگ پارٹنر شپ کی ہے لیکن اس وقت میں اس بات کو یہیں چھوڑوں گا کہ انھی دنوں میں ایک ہی دن آسٹریلیا کے دو عظیم سابق کرکٹر شین وارن اور راڈ مارش اس دنیا سے پردہ کرگئے۔ انتقال کے وقت شین وارن کی عمر 52برس کی تھی اور راڈ مارش اپنے چوہترویں سال میں تھے۔
شین وارن ٹیسٹ وکٹوں کے اعتبار سے سری لنکا کے مرلی دھرن کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے لیکن جن بڑے کھلاڑیوں نے اِن دونوں کے خلاف کھیلا ہے، وہ سب کے سب شین وارن کو پہلے نمبر پر رکھتے ہیں کہ معیار اور خطرناکی کے اعتبار سے وہ مُرلی دھرن سے کہیں آگے تھا، اُس نے لیگ اسپن میں جو کرشمے دکھائے ہیں بلاشبہ وہ اپنی مثال آپ ہیں، اگرچہ وہ پاکستانی اسپنر مرحوم عبدالقادرکو ایک طرح سے اپنا استاد مانتا تھا مگر عبدالقادر کو نہ تو اس کے برابر مواقع مل سکے اور نہ ہی تسلسل کہ اُس کے دورمیں مخالف ٹیموں کو میچ میں دو بار آئوٹ کرنے کی ذمے داری زیادہ تر فاسٹ بالرز اُٹھاتے تھے۔
شین وارن مزاج کے اعتبار سے ایک شوریدہ سر، رنگین مزاج اور قدرے بے ترتیب تھا اور غالباً اُس کی اسی شوریدہ سری اور من موجی پن کی وجہ سے اُسے ٹیم کا سب سے اہم کھلاڑی ہونے کے باوجود کبھی کپتان نہیں بنایا گیا۔ وہ بنیادی طور پر رِسٹ سپنر تھا یعنی فنگر سپنرز کے برعکس وہ انگلیوں اور ہاتھ کے ساتھ ساتھ اپنی کلائی کا بھی بھرپور استعمال کرتا تھا، یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات اس کا لیگ سائیڈ پر وائڈ کی حد تک باہر گِرا ہوا بال بھی اس قدر تیزی سے بریک ہوتاتھا کہ مائک گیٹنگ سمیت اکثر بہت ماہر بلے باز بھی بال کو چھوڑتے یعنی Leave کرتے ہوئے ٹانگوں کے پیچھے سے بولڈ ہوجاتے تھے۔
آج کل فیس بک پر اس کے ایسی ہی کئی طلسماتی بالز کی وڈیوز دیکھی جاسکتی ہیں، اُس نے اپنے پندرہ سالہ ٹیسٹ کیریئر میں جو سات سو وکٹ لیے اُن میں سے بیشتر کو آج تک بھی یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کیسے آئوٹ ہوئے تھے، وہ صحیح معنوں میں اپنے فن کے حوالے سے ایک جادوگر تھا اور ایمانداری کی بات یہی ہے کہ آج کل جاری جس ٹیسٹ سیریز کی ٹرافی کا نام رچی بینو اور عبدالقادر کے نام پر رکھا گیا ہے، وہاں بینو کی جگہ وارن کا نام ہونا چاہیے تھا اگرچہ بینو یقینا آسٹریلیا کے بہت کامیاب کپتان، عمدہ لیگ اسپنر اور انتہائی پسندیدہ تجزیہ کار اور کمنٹیٹر رہے ہیں مگر جہاں تک بالنگ کی مہارت، معیار اورریکارڈز کا تعلق ہے شین وارن ان سے بہت بلند رتبے کا حامل تھا۔
ایک دوست نے رائے دی کہ شاید اس کی وجہ ان دو بڑے کھلاڑیوں کو اُن کی موت کے بعد تعظیم دینے سے ہو کہ اس وقت ابھی شین وارن زندہ تھے۔ مجھے کچھ ایسے پاکستانی کرکٹرز سے اس کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملا ہے جنھوں نے اُسے کھیل کے میدان کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر دیکھا ہے، اُن سب کا یہی کہنا ہے کہ وہ بہت بہادر، سمجھ دار اور لڑاکا کھلاڑی تھا اور میدان میں مخالفین سے باقاعدہ دشمنوں کی طرح پیش آتا تھا مگر اپنی عام زندگی میں وہ بہت زندہ دل، دوست دار اور کُھلا ڈُلا آدمی تھا۔ شراب، جُوا اور عورت تینوں اُس کی کمزوریوں میں شامل تھے مگر ان کی حد کھیل کا میدان شروع ہوتے ہی ختم ہوجاتی تھی۔ کھیل سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ ہمیشہ خبروں میں ر ہا کہ وہ منہ پھٹ ہونے کی حد تک صاف گو تھا۔
وکٹ کیپنگ کرکٹ کا وہ شعبہ ہے جسے Thank less کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وکٹوں کے پیچھے کھڑا ہونے والا یہ شخص ایک لمحے کے لیے بھی Relax نہیں ہوسکتا، پورے میچ میں سیکڑوں کی تعداد میں بال روکنے کے باوجود اس کے گلوز میں ٹھیک سے نہ آتے ہوئے دو تین بال اُس کی ساری محنت پر پانی پھیر دیتے ہیں اور اگر کہیں اُس سے کوئی ایک آدھ کیچ چُھوٹ جائے تو اس کے درجنوں خوب صورت اور شاندار کیچ کسی کو یاد نہیں رہتے۔
راڈ مارش کا شمار ٹیسٹ کرکٹ کی تقریباًڈیڑھ سو سالہ تاریخ کے دس بہترین وکٹ کیپرز میں ہوتا ہے۔ وہ آسٹریلیوی کرکٹرز کی مخصوص جارحانہ روش کا ایک مکمل ماڈل تھا جب تک کھیلتا رہا کوئی بھی وکٹ کیپر اُسے اُس کی جگہ سے ہلا نہ سکا لیکن جو کام اس نے کھیل سے ریٹائرمنٹ کے بعد کرکٹ اکیڈمی کے حوالے سے کیا، اس کا کام، معیار اور انداز ایسا شاندار ہے کہ گزشتہ تیس پینتیس برس میں آسٹریلیا کے بیشتر نامور کرکٹر اُس کی ہی اکیڈمی کے پروردہ اور تربیت یافتہ ہیں۔
اطلاعات کے مطابق وہ سات آٹھ سال کی عمر کے بچوں سے اپنی ٹریننگ کا آغاز کرتا تھا اور پھر اُن میں سے جو بچے اپنے فطری رجحان اور محنت کی وجہ سے اپنے آپ کو منوا لیتے، اُن کو وہ اگلے درجے تک لے جاتا اور اسی طرح کی دو تین ترقیوں کے بعد وہ بچ جانے والے منتخب بچوں کو کھیل ایک پیشے کے طور پر سکھاتا یعنی وہ اپنی بقیہ زندگی اور معیشت کو کھیل ہی سے وابستہ کر لیتے اور یوں کھیل Passion کے ساتھ ساتھ اُن کا Profession بھی بن جاتا۔
اُس نے بیک وقت دنیا کے تیز ترین بالرز کے ساتھ شین وارن جیسے بہت مشکل بالزرڈینس للی اور جیف تھامسن کو بھی بھگتایا، نہ صرف وہ ایک غیر معمولی وکٹ کیپر تھا بلکہ لوئر آرڈرمیں بیٹنگ کرتے ہوئے اس نے اپنی ٹیم کو کئی دفعہ مشکلات سے نکالا اور لمبے اسکور بھی کیے۔ ان دونوں عظیم کھلاڑیوں کی اس دنیا سے رخصتی بلاشبہ آسٹریلیا کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کے لیے بھی ایک بہت بڑا نقصان ہے کہ ایسے لوگ اقبالؔ کے اس شعر کی تفسیر جیسے ہوتے ہیں کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا