مکلی میں مرگ
کسی زندہ ادیب اور بالخصوص کسی عزیزدوست کی کتاب پر تنقیدی انداز میں کچھ لکھنا بیک وقت مشکل بھی ہے اور آسان بھی لیکن اگر لکھنے والا غافر شہزاد جیسا معروف قلمکار اور کتاب اُس کے زیرنظر ناول "مکلی میں مرگ" جیسی غیر روایتی ہو تو صورتِ حال کچھ کچھ غالب کے اس مصرعے کی سی ہوجاتی ہے کہ سخت دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا۔
207صفحات پر مشتمل یہ تحریر جسے مصنف نے ناول کا نام دیا ہے، میں نے حرف حرف پڑھی ہے اس عمل کے دوران اس خوبصورت تحریر پر کئی اصنافِ نثر کے گمان گزرے مگر ناول کی جو تعریف اور تصور عمومی طور پر رائج اور تسلیم شدہ ہے اُس کی طرف ایک بار بھی دھیان نہیں گیا مگر پھر خیال آتا ہے کہ لفظ Novel کا تو مطلب ہی نئی اور انوکھی تحریر ہے کہ یہ اپنے آغاز سے قبل کی داستان گوئی اور قصہ نگاری سے ایک یکسر مختلف انداز کی حامل تحریر تھی جس میں پرانی کہانیوں کی طرح کردار اور واقعات تو ہوتے تھے مگر اُن کو بیان کرنے میں مصنف پلاٹ، مکالموں، ذہنی کیفیات اور اِردگرد کے ماحول سے بھی کام لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم رُوسی اور اس کے بعد لاطینی امریکا کے ناولوں کو یورپ میں لکھے جانے والے ناولوں سے بہت مختلف دیکھتے ہیں۔
غافر شہزاد کے اس ناول میں روسی ناولوں کے کرداروں کی سی افراط اور اس کے عنوان میں لاطینی امریکا کے ناول نگاروں بالخصوص گبریل گارسیا مارکیزکے"لو ان کالرا" کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
اس کا آغاز امریکا میں پیدا ہونے والے پاکستانی نزاد نوجوان آرکیٹیکٹ ارسلان منصور کی صوبہ سندھ کے مشہور قبرستان مکلی میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس کے دعوت نامے سے ہوتا ہے اور اختتام بھی اگرچہ لاہور کے ایک معروف بی بی پاک کے مزار کے اُس نئے ڈیزائن پر ہوتا ہے جس کے پیچھے تاریخ، فرقہ واریت، مذہبی اعتقادات اور صائمہ علی کا جنون آمیز مشن ساتھ ساتھ چل رہے ہیں جب کہ درمیانی صفحات میں بہت سے کردار مختلف حوالوں سے ارسلان کی زندگی اور اس کے پاکستان کے قیام کے عرصے میں آتے جاتے رہتے ہیں۔
ناول میں جگہ جگہ نئے اور پرانے مزاروں کے حوالے جدید اور قدیم فنِ تعمیر اور مجاز اور حقیقت کے مباحث اور باہمی تعلق پر بات کی گئی اور بیشتر مقامات پر قاری غافر کے پیش کردہ بیانیے میں گم اور محصور رہتا ہے کہ وہ خود نہ صرف ایک بہت باکمال آرکیٹیکٹ ہے بلکہ اُس کا اختصاص بھی پرانی اور تاریخی عمارات کی حفاظت اور تعمیر و تزئین نو ہے اور اس موضوع پر فی الوقت اُ س کا شمار ماہرین میں ہوتاہے مگر میرے نزدیک اس بات کا دوسرا حصہ یعنی ان مزارات کی تاریخ، نوعیت ان سے متعلق متولیوں کی مفاد پرستی اور عوام الناس کی ان قبروں میں آسودہ بزرگوں کی نسل در نسل زندہ لوگوں سے زیادہ تعظیم کرنا ہے۔
اگرچہ ناول میں زیادہ تر مسائل کا ذکر اس کے مرکزی موضوع یعنی بی بی پاک کے مزار، اس کی تاریخ، ملحقہ قبرستان اور مختلف ادوار میں اس کی آڑ میں کی گئی مفاد پرستی ہے مگر روحانیت اور دنیا داری اور مجاز اور حقیقت کے حوالے سے کی گئی باتیں بہت اہم اور قابلِ غور و فکر ہیں۔ کتاب کے شروع میں غافر نے ایک پانچ صفحے کا بلا عنوان دیباچہ لکھا ہے جس میں اسی روحانیت، تصوف، ذہنی و قلبی کیفیت اور بعض بزرگوں کی روحانی کرامات کو عقل و دانش اور سائنس اور منطق کے معیارات پر پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے جس کو ناول کے اندر بھی مختلف مقامات پر بار بار دہرایا گیا ہے۔ پہلے اس دیباچے کا ایک مختصر اقتباس دیکھیے۔
"تدفین کے لیے قبرستان بنائے جاتے ہیں مگر ذہنوں میں نقش ایسی شخصیات کے قبرستان کبھی نہیں بنتے، آخر کیوں؟ زندہ اور مرجانے والے ہر دو طرح کے انسانوں کی شناخت کی دوسرے ذہنوں میں منتقلی کا فریضہ زندہ انسان سرانجام دیتے ہیں۔ ایسی ہی مستقل زندگی منتخب لوگوں کے لکھے ہوئے الفاظ کو بھی عطا ہوجاتی ہے جو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں "۔ ناول کے کردار علامتی بھی ہیں، فرضی اور حقیقی بھی۔
بعض جگہ ناموں کے ذریعے اور کہیں کہیں تشبیہی حوالوں کی معرفت آپ بہت سے کرداروں کو جلد یا بدیر پہچان لیتے ہیں یعنی جہاں آپ کو اقبال باہو اور پپو ڈھول والا وغیرہ کا براہ راست حوالہ ملتا ہے وہاں آپ نیر علی دادا کو آرکیٹیکٹ، آفتاب علی اور ان کی نیرنگ آرٹ گیلری کی شکل میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
طارق اسماعیل، بابا مستان، صائمہ علی، حنیف رامے، جنڈیالہ شیر خاں کا حافظ عبدالرحمن، عبدالحمید، ذاکر خادم حسین، سیکشن آفیسر محمد عرفان، عرفانہ خان، سلمیٰ بیگ، آغا کمال، کیتھی، بوش، سید اسرار علی شاہ وہ نمایاں کردار ہیں جو اس کہانی میں مختلف حوالوں سے ظہور کرتے نظر آتے ہیں لیکن کہانی کے کسی روایتی پلاٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ نہ خود آگے بڑھتے ہیں اور نہ کہانی کو آگے بڑھانے میں کوئی ایسا رول ادا کرتے ہیں جس سے کوئی واقعہ ظہور پذیر ہو یا کسی conflictکوراستہ ملے البتہ فن تعمیر، قدیم عمارات کی ساخت، ان میں استعمال ہونے والی جیومیٹری کا علم یا ان کی تعمیر میں استعمال ہونے والے قدیم مسالے اور جدید تعمیری سازو سامان کا ذکر بڑی وضاحت، صراحت، فراوانی اور علمیت کے ساتھ اس قدر تکرار سے کیا گیا ہے کہ بعض اوقات کہانی، کردار اور واقعات سب کے سب ا س تکرار میں گم ہوجاتے ہیں۔
اگرچہ زندگی اور موت کے فلسفے، حقیقت اور مجاز اور "گورپیا کوئی اور" کا حوالہ بار بار آتا ہے مگر یہاں غافر شہزاد کا قلم ایسی گہرائی میں جاکر اور اس نفاست سے تصویرکشی کرتا ہے کہ کئی جملے ذہن سے جیسے چپک کر رہ جاتے ہیں، جیسے وہ لکھتا ہے کہ "مغربی دنیا میں سالگرہ منائی جاتی ہے۔ انسان کا یومِ پیدائش مسرت کا سبب ہوتا ہے مگر مشرق میں ان روحانی شخصیات کا یومِ وصال منایا جاتا ہے، مشرق اور مغرب میں یہی بنیادی فرق ہے۔"
"ارسلان نے زمان و مکان کی تھیوری کلاس میں پڑھی تھی مگر کیا ایسا بھی ہوتاہے کہ وقت کہیں رک جاتا ہے جیسا کہ مکلی کے قبرستان میں ہوا تھا۔ ہندوستان کے مسلمان اب بھی اپنے ذہنوں میں بُت بناتے ہیں، شخصیت پرستی کرتے ہیں، تعمیرات میں مزارات مقابر اور ان کی عمارتوں کی الگ شناخت بنتی ہے۔""انھیں لوگ اپنے حافظوں میں مرنے کیوں نہیں دیتے۔" یہ زندگی کون سی ہے جو یہ اب جی رہے ہیں؟ یا وہ زندگی جو انھوں نے مرنے سے پہلے جی وہ کون سی تھی؟ یہ اصل ہے جو لوگوں کے دلوں میں دائم رہے گی یا وہ اصل تھی جو گزارنے کے بعد یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زیرزمین دفن ہوگئے"۔
اس طرح کے اور بہت سے جملے ہیں جن میں دانش کے جہان آباد ہیں مگر سب سے زیادہ مجھے جس منظر نے اپنی گرفت میں لیا وہ مکلی میں ہونے والی کانفرنس کا وہ لمحہ ہے جب بظاہر سیشن ختم ہوچکا ہے لیکن ارسلان اپنی چشمِ تصورمیں 1961ء کے نوبل انعام یافتہ ناول نگار ڈیوڈ انڈرچ کے مشہور ناولThe bridge on the Drina کے ایک کردارریڈی صاف کو وہ تقریر کرتے ہوئے دیکھتا اور سنتا ہے جس میں اُس نے اپنے علاقے اور لوگوں کی حفاظت کے لیے آواز بلند کی اور جس کے نتیجے میں اس کے زندہ جسم کو بانس میں پرو کر بے حد اذّیت ناک انداز میں مارا گیا۔
"مکلی میں مرگ، روایتی معنی میں ناول ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو محققین اور نقاد حضرات کریں گے میں تو اتنا جانتا ہوں کہ یہ کتاب علامت اور حقیقت کا ایک ایسا دلچسپ مجموعہ ہے جسے اپنے آپ کو پڑھوانا آتا ہے اور یہی اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔