حد کہاں ہے ؟
سیاسی اور بالخصوص سیاستدانوں کے ذاتی جھگڑوں، اختلافات اور تعصبات کے بارے میں لکھنا اگرچہ میری ترجیحات میں سرے سے شامل نہیں لیکن کبھی کبھی جب ان کی حدیں براہ راست اخلاقیات، نظامِ اقدار اور ملکی وقار اور سلامتی سے ٹکرانے لگتی ہیں تو نہ چاہنے کے باوجود اس موضوع پر بات کرنا پڑجاتی ہے۔
سو آج بھی کچھ ایسی ہی صورتحال درپیش ہے کہ گزشتہ تقریباً 72گھنٹوں سے باقاعدہ میڈیااور سوشل میڈیا دونوں کو ایک ایسی خبر نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے جس کے لیے افسوسناک کا لفظ بھی ٹھیک طرح سے ترجمانی نہیں کررہا۔
اس میں شک نہیں کہ دنیا بھر کی اسمبلیوں اور میڈیا پروگراموں میں کبھی کبھار کچھ ذمے دار لوگ مختلف سطح کی غیر ذمے داری کے مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں، اُن کی aggression کی مختلف تاویلات کی جاسکتی ہیں مگر یہ طے ہے کہ اس نوعیت کا ہر منظر آنکھوں، کانوں اور دل و دماغ کے لیے ایک تکلیف دہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہمارے یہاں بھی یہ روائت یوں تو پچاس کی دہائی کی ا سمبیلوں سے آرہی ہے مگر زیادہ تر واقعات شور شرابے، کاغذات کے پھاڑنے اور باہمی دھمکیوں تک محدود رہے البتہ میڈیا اور بالخصوص ٹاک شوز میں یہ صورتِ حال مسلسل بھی ہے اور شرمناک بھی کہ آئے دن کسی Live Show میں باقاعدہ جوتم پے زاری کرتے نظر آتے ہیں۔
واضح رہے کہ پہلے سے Record کیے جانے والے پروگرام اس کے علاوہ ہیں۔ شروع شروع میں صرف مرد حضرات ہی اس طرح کا طرز عمل اختیار کرتے تھے اور عام طور پر یہ ذاتی حملوں یا الزامات تک محدود رہتے تھے، پھر ہاتھا پائی ہونے کا فیشن چل نکلا اور اچھے بھلے معززنظر آنے والے اور پکی عمر کے لوگ تھپڑ، مکے اور ٹھڈے اپنی اپنی بساط کے مطابق استعمال کرنا شروع ہوگئے، اُن کی دیکھا دیکھی خواتین بھی پہلے آپس میں اور پھر مردوں سے تُوتکار پر اُترنا شروع ہوگئیں لیکن جاوید چوہدری بھائی کے پروگرام میں جو کچھ ہوا، اُس نے توحد ہی کردی ہے۔
سوشل میڈیا پر چلنے و الی رپورٹس اور ویڈیوز سے ایسالگتا تھا جیسے یہ سب کچھ Live Transmission کے دوران ہوا، مگر ایک ٹی وی شو میں جاوید چوہدری کی زبانی یہ سن کر بہت حیرت ہوئی کہ یہ تماشا ریکارڈنگ پروگرام میں بریک کے دوران ہوا۔ اصل میں کیا واقعہ ہوا اور بات بگڑی کیسے اس کے بارے میں دونوں طرف سے مدافعتی قسم کے بیانات جاری کیے جارہے ہیں جن پر تبصرہ نہ تو ممکن ہے اور نہ ضروری کہ یہ ایک لاحاصل بحث ہوگی۔
اصل اور قابلِ غور و فکر اور باعثِ تشویش بات یہ ہے کہ آخر اس قسم کے طرز عمل کی آخری حد کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ نالائقی، بے وقوفی، جہالت کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی لیکن ا گر اس کا مظاہرہ تعلیم یافتہ، عوام کے منتخب نمایندے اور سردوگرم زمانہ چشیدہ لوگ کریں تو افسوس ہوتا ہے۔ سیاسی اختلافات اور جماعتی وفاداریوں کے حوالے سے بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ گفتگو کی تلخی باہمی الزام تراشیوں سے بڑھتی چلی گئی مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تقریباً ناقابلِ تصور تھا۔
ٹاک شوز کے دوران عام طورپر وقفے کا دورانیہ دو سے پانچ منٹ کا ہوتا ہے، اس قدر قلیل وقفے میں کسی بات کا اس قدر بگڑ جانا کہ نوبت ہاتھا پائی تک آجائے، بہت حد تک ناقابلِ یقین لگتا ہے مگر ہم سب نے دیکھا کہ ایسا ہوا، میں قادر مندوخیل صاحب کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا، کیا انھوں نے سچ مچ کچھ ایسا کہا کہ محترمہ کو انتہائی قدم اُٹھانا پڑا، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے، اس سوال کا صحیح جواب کسی کے سامنے نہیں ہے البتہ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اس لڑائی کے دو منٹ بعد یہ دونوں کس طرح سے دوبارہ پروگرام میں شامل ہوکر "عوامی مسائل" پر عالمانہ گفتگو فرماتے رہے۔
یہی وہ تکلیف دہ احساس ہے جس سے پورے معاشرے کو گزرنا پڑا جس نے ایک بار پھر اس سوال کو زندہ کردیا ہے کہ ہم زوال کی کن منزلوں میں ہیں اور ابھی اور کتنی حدیں باقی ہیں، برسوں پرانی لکھی ہوئی دو مختصر نظمیں یاد آرہی ہیں، شائد وہی میری اور آپ کی اس تکلیف کی ترجمانی کرسکیں۔
اے ربِّ غفار
ایک سوال کے اندر ہم نے کاٹی نصف صدی
باندھے لاکھ حساب
غلط ہی نکلا ہر اک حل کا لیکن انت جواب
ضرب، جمع، تقسیم کے سارے کلیے برت لیے
ازرو ئے تحقیق
ہر کوشش میں ہوجاتا ہے کچھ نہ کچھ تفریق
دیکھ تو کتنا اُونچا ہے یہ ردّی کا انبار
تُو ہی اب کچھ رحمت کردے اے ربِ غفار
ہے کوئی نظر والا
وہ چاند کہ روشن تھا سینوں میں نگاہوں میں
لگتا ہے اُداسی کا اک بڑھتا ہوا ہالہ
پوشاکِ تمنا کو
آزادی کے خلعت کو، افسوس کہ یاروں نے
اُلجھے ہوئے دھاگوں کا اک ڈھیر بنا ڈالا
وہ شور ہے لمحوں کا وہ گھور اندھیرا ہے
تصویر نہیں بنتی، آواز نہیں آتی
کچھ زور نہیں چلتا کچھ پیش نہیں جاتی
اظہار کو ڈستی ہے ہر روز نئی اُلجھن
احساس پہ لگتا ہے ہر شام نیا تالہ
ہے کوئی دلِ بِینا؟ ہے کوئی نظر والا؟