دعوتِ شیراز اور پسِ پردہ
ادب کی نثری اصناف میں طنزو مزاح سے متعلق تحریریں عمومی طور پر قارئین کے ہر طبقے میں مقبول ٹھہرتی ہیں کہ ان سے حسِ مزاح کی تسکین کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص قسم کی اَنا پرستی بھی وابستہ ہوجاتی ہے کہ بے وقوف یا نالائق کوئی اور ہے ہمارا کام صرف اُس پر ہنسنا اور اس کی حماقت سے محظوظ ہونا ہے اپنے اوپر ہنس سکنا یا کسی دوسرے کو اس کی اجازت دینا وہ معیار ہے جس پر بہت کم لوگ پورے اُترتے ہیں۔
طنزو مزاح لکھنے والوں کے لیے یہ امتحان اور بھی کڑا ہوجاتا ہے کہ اچھا جملہ کہنا بے شک مشکل ہے مگر اسے اپنے اوپر سہنا مشکل تر ہے، اس عمومی تمہید کے بعد یہ بات اس حد تک تو ضرور واضح ہوگئی ہوگی کہ اس کالم کے عنوان میں جن دوکتابوں کا ذکر ہے اُن کا تعلق طنزو مزاح ہی سے ہے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی کہ میرے ساتھ ان دونوں کتابوں سے تعلق کے کئی اور پہلو اور رشتے بھی ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ "دعوتِ شیراز"کے مصنف حسین احمد شیرازی اور"پس پردہ" کے تخلیق کار ذوالفقار احمد چیمہ دونوں سے میری دوستی پرانی اور یارانہ سدا بہار قسم کا ہے، دونوں ہی ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں اور دونوں کا تعلق (ایکسائز اور پولیس) ایسے محکموں سے رہا ہے جو بوجوہ کبھی بھی بہت زیادہ مقبول یا پسندیدہ نہیں رہے، دونوں نے قلم کاری کے میدان میں بہت دیر سے قدم رکھا اور دونوں بہت نیک نام افسر ہونے کے ساتھ ساتھ یاروں کے یار ہیں اور خوش مزاج بھی۔
حسین احمد شیرازی کی بہت شاندار کتاب "بابو نگر"کے بعد یہ دوسری کتاب ہے جب کہ ذوالفقار احمد چیمہ کی یہ مجموعی طور پر چوتھی لیکن طنزو مزاح کے حوالے سے پہلی کتاب ہے۔ دونوں کی کتابوں کے بارے میں بہت سے قابلِ قدر لوگوں نے بہت اچھی اور تعریفی باتیں کی ہیں دونوں کی تحریروں میں اُن کی پیشہ ورانہ زندگی کے مشاہدات اور تجربات سے بہت کام لیا گیا ہے مگر ان سے اچھا ادب اور وہ بھی طنزیہ اور مزاحیہ کوئی آسان کام نہ تھا۔
حسین احمد شیرازی کی پہلی کتاب"بابو نگر"یوسفی صاحب کی "زرگزشت" کی طرح ایک بہت منفرد کتاب ہے کہ یوسفی صاحب کے بینکنگ اور حسین احمد شیرازی نے بیوروکریسی کے تجربات کو جس مسکراتی ہوئی آنکھ سے اور معاشرتی تضادات کی بوالعجبیوں کودیکھا اور دکھایا ہے وہ ہماشما کے بس کی بات نہ تھی اور نہ ہے اب جو اُن کا یہ مضامین کا مجموعہ "دعوتِ شیراز" سامنے آیا ہے تو اس کا بھی کم و بیش ہر مضمون قاری کو خود پر سے نظریں ہٹانے کی مہلت اور اجازت نہیں دیتا، نہ تو ان کا مزاح کبھی پھکڑپن کی شکل اختیار کرتا ہے اور نہ ہی طنز کہیں ہتک اور تضحیک کا رنگ اختیار کرتا ہے۔
25 میں سے اگر تین چار مضامین آپ کو قدرے کمزور لگیں تو اس کے ذمے دار بھی حسین شیرازی خود ہیں کہ ان کی کرداراور واقعہ نگاری یا مکالمے اور منظر نگاری کا عمومی معیار ہی اُن کے کئی معروف ہم عصروں سے خاصا بلند ہے، اپنی بات کی وضاحت کے لیے میں اُن کے "عرضِ مصنف" والے مضمون سے دو مختصر اقتباس پیش کرتا ہوں جن کے بعد غالباً کسی مزید مثال کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
"دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے بجٹ میں ایک خاصی بڑی رقم آرٹ اور کلچر کی ترویج کے لیے مختص کی گئی تھی اس پر اعتراض کیا گیا کہ برطانیہ جنگ کے شعلوں میں جل رہا ہے اور یہ آرٹ اور کلچر جیسے غیر اہم کاموں پر اتنی کثیر رقم کیوں ضایع کی جارہی ہے اس پر وزیراعظم چرچل نے جواب دیا کہ اگر آرٹ اور کلچر غیر اہم ہیں تو پھر ہم یہ جنگ کس مقصد کے لیے لڑرہے ہیں "
"ہماری تاریخ کا ایک بڑا سانحہ ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی تھی مورخ بتاتے ہیں کہ جب اُس نے حملہ کیاتھا تو بغداد شہر کی بیشتر آبادی جن تین مناظروں میں مصروف تھی اُن کے موضوع تھے سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟ مسواک بالشت برابر یا کم بھی ہوسکتی ہے؟
کوا حلال ہے یا حرام؟ اسی طرح صلاح الدین ایوبی نے جب فلسطین فتح کیا تو شہر کا بیشتر حصہ خالی تھا کیونکہ اس کے مکین ایک مناظرے میں شریک تھے جہاں بحث ہورہی تھی کہ یسوع مسیح نے مصلوب ہونے سے پہلے خمیری روٹی کھائی تھی یا پتیری!! ان واقعات کی روشنی میں ہمیں آج کے حالات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے، تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے کہ جہالت اور تنگ نظری کے مست ہاتھی پر سوار ہونے والے وہیں جاتے ہیں جہاں اُس ہاتھی کا جی چاہتا ہے"
ذوالفقار احمد چیمہ کردار کے ساتھ ساتھ گفتار کے دھنی تو اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے تھے لیکن چند برس قبل جب انھوں نے اخباری کالم لکھنے شروع کیے تو اندازہ ہوا کہ اُن کا قلم بھی اسی میدان کا تیسرا شہسوار ہے اُن کے تینوں کالماتی مجموعوں "دو ٹوک باتیں "، "دو ٹوک" اور "Straight Talk"میں ان کا لہجہ ایک خاص طرح کی دبی دبی سی تلخی اور بے خوفی لیے ہوئے ہے مگر ان کا مجموعی مزاج ہمیشہ سنجیدگی مائل رہا ہے ایسے میں 21طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کا حامل یہ مجموعہ "پسِ پردہ، اس بہادر، جدت پسند اور اپنے معاشرے کے عمومی روّیوں سے بیزار کم اور ناراض زیادہ ذوالفقار احمد چیمہ کا ایک بالکل نیا رُوپ ہمارے سامنے لاتا ہے۔
جملہ بازی خوش مزاجی اور محفل یاراں میں بریشم کی سی نرمی سے تو اُن کے احباب واقف تھے مگر اتنے متنوع موضوعات پر وہ شگفتگی کو برقرار رکھتے ہوئے اتنی مہارت اور خوش اسلوبی سے نہ صرف لکھ سکیں گے بلکہ بہت سی دیکھی ہوئی چیزوں کے بعض بالکل نئے پہلو بھی سامنے لاسکیں گے اس کا اندازہ شائد اُن کو خود بھی نہیں تھا۔ میں اُن کے بھی کسی مضمون سے مثال دینے کے بجائے کتاب میں شامل "حرفِ آغاز" ہی سے اپنی بات کو واضح کروں گا جس میں انھوں نے مشتاق احمد یوسفی صاحب سے اپنی عقیدت اور ملاقاتوں کا بہت پُرلطف تذکرہ کیا ہے جس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ اکیس مضامین کسی طرح بھی اکیس توپوں کی سلامی سے کم نہیں ہیں اسلام آباد کی "گریڈ زدگی" کے بارے میں یہ تبصرہ دیکھئے۔
"اسی گریڈ زدہ شہر میں پچھلے سال ایک گریڈ بیس کے افسر کی بیٹی نے ویلنٹائن ڈے اس طرح منایا کہ وہ اُسی روز اپنے سب سے گہرے دوست کے ساتھ نکل گئی رات گئے تک جب وہ گھر نہ لوٹی تو پولیس کو اطلاع دی گئی دو روز بعد دونوں پکڑے گئے افسرموصوف نے صاحبزادی کے دوست کے کوائف اثاثے اور منی ٹریل جاننے کے بعد اپنی بیگم سے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "تمہاری بیٹی نے پورے شہر میں میری ناک کٹوا دی ہے لوگ کیا کہیں گے کہ بیس گریڈ کے افسر کی بیٹی اٹھارہ گریڈ والے کے لڑکے کے ساتھ چلی گئی اور وہ بھی آٹھ سو سی سی والی آلٹو پر" بیگم اس سے بلند آواز میں بولی "میری بیٹی تو موٹر میں گئی ہے کم بخت تم تومجھے موٹر سائیکل پہ لے اُڑے تھے اور وہ بھی ستر سی سی والے پر"
یوسفی صاحب کے بارے میں ایک تقریب کی خبر انھوں نے اولڈ راوینز کو دی جس سے متعلق ایک تبصرہ تو ایسا ہے کہ جس پر صرف بلّے بلّے کہنا ہی بنتا ہے سو آخر میں اُس کا کچھ حصہ
"مشتاق احمد صاحب کی آمد پر انھیں خوش آمدید کہتا ہوں اُنہوں نے ساری زندگی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کی ہے دہشت گردی کے علاوہ انھوں نے اپنی ایک مکمل کتاب بھی کالا باغ ڈیم کے نام کردی ہے آپ میں سے پڑھے لکھے لوگ جانتے ہوں گے کہ اُن کی کتاب "آبِ گم" میں جس آب کا ذکر ہے یہ وہی پانی ہے جو کالا باغ ڈیم نہ بن سکنے کی وجہ سے اوپر نہیں آسکا اور زیرِ زمین کہیں گم ہوگیا ہے"