آج کا نظیر اکبر آبادی
احمد ندیم قاسمی مرحوم نے جب انور مسعود کو اپنے دور کا نظیر اکبر آبادی قرار دیا تو پوری ادبی دنیا نے یک زبان ہوکر اس تشبیہ کی داد دی کہ دونوں نے اپنی اپنی شاعری میں عوام، عوامی زبان اور عوامی محسوسات اور مشاہرات کو جس مہارت، خوش اسلوبی اور برجستگی سے سمویا ہے اس میں کوئی تیسرا اُن کے برابر تو کیا اُن کے نزدیک بھی نہیں پھٹک سکا۔
اگرچہ انور مسعود کی اُردو غزلیں اور مشہورِ زمانہ پنجابی نظمیں بھی اپنی مثال آپ ہیں لیکن اُس کے طنزیہ اور مزاحیہ قطعات بھی کسی سے کم نہیں اُردو اخبارات میں فکاہیہ کالموں اور قطعہ نگاری کی تاریخ خاصی پرانی ہے لیکن جتنی مقدار اور جس قدر اعلیٰ معیار کے ساتھ انور مسعود نے قطعات لکھے ہیں شائد صرف رئیس امروہی مرحوم ہی کا نام اُن سے پہلے اور اوپر لیا جاسکتا ہے۔
انھوں نے اپنے اس حال ہی میں شائع ہوئے قطعات کے کلیات میں بھی اس بات کو دوہرایا ہے کہ اُن کی قطعہ نگاری کا آغازغزل ایوب خان کی حکومت کے زمانے میں رویت ہلال کے حوالے سے چھڑنے والی ایک بحث سے ہوا اور تب سے اب تک وہ اس صنفِ سخن میں طبع آزمائی کرتے چلے آرہے ہیں۔ گزشتہ دس بارہ برس سے وہ ادارہ ایکسپریس سے بطور قطعہ نگار منسلک ہیں اور قارئین زندگی کے مختلف شعبوں اور مسائل سے متعلق اُن کے طنزیہ اور مزاحیہ شعری تبصروں کا بہت شوق اور دلچسپی سے مطالعہ کرتے ہیں۔
بُک کارنر جہلم والوں نے 568 صفحات میں ہر صفحے پر تین قطعے شائع کرکے نہ صرف ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مسکراہٹوں اور قہقہوں کو ایک جگہ جمع کردیا ہے بلکہ اس کی معرفت ہماری معاشرت، سیاست، تہذیب، مسائل اور افراد کے حوالے سے بھی ایک پوری تاریخ مرتب کردی ہے جن میں سے تین ایسے قطعات کا میں خصوصی طور پر ذکر کرنا چاہوں گا جن میں سے دو کا تعلق اُنہی کی طرح مسکراہٹیں بکھیرنے والے عظیم اور محبوب فن کاروں معین اختر اور فاروق قیصر سے ہے اور تیسرے کا تعلق اُس شخصیت سے ہے جس کے قائم کردہ ادارے سے نہ صرف یہ کتاب شائع ہوئی ہے بلکہ جو اپنی ذات میں ایک انجمن ہونے کے ساتھ ساتھ انور مسعود کی طرح میرے دل سے بھی بہت قریب تھی تو سب سے پہلے آیئے ترتیب وار معین اختر مرحوم، فاروق قیصر مرحوم اور شاہد حمید مرحوم کو پیش کیے جانے والے قطعاتی خراجِ عقیدت و محبت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
قدرت نے تجھ کو ایسا بنایا تھا باکمال
اسٹیج کے ہُنر کا شناسا کہیں جسے
تیرا نہ تھا جو ادب مہذب مزاح میں
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
…………
اُس کی کلیاں کی جو خوشبو ہے رہے گی دیر تک
اس کے انکل کی تو یاد آتی رہے گی بات بات
اک بڑا فنکار اس فانی جہاں سے اُٹھ گیا
سخت درد انگیز ہے فاروق قیصر کی وفات
…………
وہیں پر ہے طباعت کا وہ مرکز
جو شاہد کی مشقّت کاثمر ہے
بہت مشہور ہے اب شہرِ جہلم
وہی جہلم جہاں بُک کارنر ہے
اب جہاں تک قطعات کے انتخاب کی بات ہے تو یہ اپنی جگہ پر ایک تقریباً ناممکن عمل ہے کہ ان کی تعداد درجنوں میں نہیں بلکہ سیکڑوں میں ہے اس بہت مختصر انتخاب کی ایک خوبی البتہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ ان میں موضوعات کے تنوع اور اندازِ بیان کی مشّاقی پرخصوصی توجہ دی گئی ہے۔
رُوح لبریزِ تعفن ہی رہے تو بھائی
جسم پر عطر لگانے سے بھی کیا ہوتا ہے
خوف جب یومِ قیامت کا نہیں ہے دل میں
عالمی یوم منانے سے بھی کیا ہوتا ہے
…………
رائیگاں ہے بہہ گیا ہے، بہہ رہا ہے جو لہو
پُھول آزادی کا اس وادی میں گرکِھلتا نہیں
فیصلے سارے غلط کشمیریوں کے باب میں
ان کو حقِ خودارادیت اگر ملتا نہیں
…………
یہی تو دوستو لے دے کے میرا بزنس ہے
تمہی کہو کہ میں کیوں اس سے توڑ لوں ناتا
کروں گا کیا جو کرپشن بھی چھوڑ دی میں نے
"مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا"
…………
شدتِ درد میں ہونٹوں پہ دعا کا ہونا
ثابت اس سے بھی تو ہوتا ہے خدا کا ہونا
حسنِ نیّت نہ میسّر ہو تو انورؔ صاحب
ہے خطرناک بہت ذہنِ رسا کا ہونا
امن و سلامتی کی روشنی ہے مرا شعار
دنیا کو یہ پیام دیے جارہا ہوں میں
بھارت نے پائلٹ ابھی نندن کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا تھا وہ لوٹا رہا ہوں میں
…………
قائداعظم کا اندازِ سیاست سیکھئے
بس یہی اک راستہ ہے نیک نامی کے لیے
ہم نے حاصل کی تھی جو برطانوی حُکاّم سے
کیا یہ آزادی تھی امریکی غلامی کے لیے
…………
سمجھ میں یہ تضاد آتا نہیں ہے
سمجھ لینے کی کوشش کر رہے ہیں
بہت اچھی ہوتی ہیں اب کے فصلیں
بہت سے لوگ بھوکے مررہے ہیں
…………
ہوں نہ ٹی وی کے کسی چینل پہ کج مج بحثیاں
کام کی ہو بات کوئی صرف منصوبے نہ ہوں
اس قدر باتیں نہ ہوں تفریق کی تقسیم کی
رہیئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں صُوبے نہ ہوں
…………
ہمیں اس سے کوئی نہیں ہے ندامت
جو کہتا ہے کہتا رہے یہ زمانہ
یہ چینی کے بحران کا فائدہ ہے
ہمیں آگیا ہے قطاریں بنانا
…………
کیا کہوں قانون کی درماندگی
تنگ ہوکر رہ گیا ہے قافیہ
کس قدر گھمبیر ہے یہ مسئلہ
مافیہ در مافیہ در مافیہ