77 برس
برسوں پہلے ایک گھِسا پٹا لطیفہ سنا تھا جو اُن دنوں بہت نیا اور مشہور ہوا کرتا تھا کہ دو دوست ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو پتہ چلا کہ اُن کی ٹرین چار گھنٹے لیٹ ہے، ایک نے دوسرے سے کہا کہ واپس گھر جانے کا کوئی فائدہ نہیں یہیں پلیٹ فارم پر بیٹھ کرگپیں مارتے ہیں چار گھنٹوں کا کیا ہے دس منٹ میں گزر جائیں گے۔
آج اپنی 77ویں سالگرہ کے حوالے سے کالم لکھنے بیٹھا تو محسوس ہوا یہ کوئی اتنی ہنسنے والی بات بھی نہیں تھی یہ 77 برس بھی پتہ نہیں کب اور کیسے گزر گئے ہیں کہ پچاس برس پہلے کی گزری ہوئی باتیں بھی کل کی باتیں لگتی ہیں۔
ذرا سا چشمِ تصور کو پھیلانے کی کوشش کریں تو وہ لوگ بھی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں جن کی اب شکلیں بھی ٹھیک سے یاد نہیں اور جن کے بغیر ایک پل گزارنا محال تھا اُن کی آواز سنے اب کئی سال ہوچکے ہیں میری پہلی کتاب "برزخ"1974ء میں چھپی تھی اور اب مطبوعہ کتابوں کی تعداد ستر سے بھی اُوپر ہوگئی ہے یہ سب کچھ کب اور کیسے ہوا اس کا حساب لگانا اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے۔
دو برس قبل پچھترویں سالگرہ کے موقع پر سب سے بڑی نواسی زیبندہ عاقب نے ایک تین منٹ کی ڈاکیومنٹری میں تصویروں کے ذریعے میری زندگی کو محفوظ اور مرتب کیا تو ان کے ساتھ وابستہ یادوں کا ایک جہان سا کُھلتا چلا گیا دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو ذاتی سطح پر یہ سفر ایسی بلندیوں اور کامیابیوں سے بھرا پڑا تھا جن میں سے اکثر میرے بچپن کے خوابوں اور تصورات سے بھی بڑی اور زیادہ تھیں اور ہیں لیکن جب میں ان ذاتی "فتوحات"کو اپنے ملک، معاشرے، تہذیب اور عالمی پس منظر کے ساتھ ملا کر دیکھتا ہوں تو دل کو دھچکا سا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے نے اپنی مجموعی اور فطری صلاحیت کے مقابلے میں بہت کم ترقی کی ہے اور یقیناً اس پسماندگی کے عمل کے ہم سب کم یا زیادہ ذمے دار ہیں۔
مزید بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہم نے اُن خوبیوں کو بھی بڑھانے کے بجائے تقریباً کھودیا ہے جن کی وجہ سے قومی زندگی کے پہلے چالیس برس میں ہمیں مختلف میدانوں میں کامیابیاں حاصل ہوئیں، صرف کھیل ہی کے میدان میں دیکھ لیجیے ہماری ہاکی ٹیم نے تین دفعہ اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور اب گزشتہ دو اولمپکس سے ہم اس میں حصہ لینے کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کرسکے۔
فنونِ لطیفہ کے حوالے سے بھی اس وقت ہمارا کوئی لکھاری، مصّور، گلوکار یا اداکار عالمی درجہ بندی کے تقاضوں کو پورا کرتا نظر نہیں آتا جب کہ سائنس و ٹیکنالوجی، عالمی معاشیات، تعلیم، تہذیب اور صحت کے علاقوں میں صورتِ حال اور بھی زیادہ بُری اور افسوسناک ہے، کاش میں اپنی آنکھوں سے ہر شعبے میں وطنِ عزیز کو اوپر اُٹھتا دیکھ سکتا اور اگر ایسا نہیں تو اپنی باقی عمر میں (جتنی بھی وہ ہے) میں ان روّیوں کو ہی بدلتا اور بہتری کی طرف جاتا دیکھ سکوں جن کی وجہ سے آج ہم اس آشوب میں ہیں۔
باقی رہی سالگرہ اور اس کے حوالے سے گزرتے ہوئے وقت کی بات کہ اکثر اوقات جس کے گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلتا تو پہلے ایک چھوٹی سی نظم اسی ہزارچہرہ اور حشر آثار وقت کے نام۔
خود اپنی موج میں بہتا ہے وقت کا دریا
نہ اس کا حال نہ ماضی نہ کوئی مستقبل
بس ایک رو ہے زمانے کی جس کی گردش میں
جہانِ ہست کی ہر ایک شے خس و خاشاک
ازل سے تابہ ابد جو بھی ہے، خس و خاشاک!
کہ جیسے ایک بھنور سا ہے جس کے چکر میں
بھٹکتی ڈولتی پھرتی ہیں کشتیاں لاکھوں
کہیں پہ کوئی سہارانظر نہیں آتا
کسی طرف بھی کنار ا نظر نہیں آتا!
اس بار سالگرہ کی مبارک کا سب سے پہلا پیغام سندھ سے بھائی ڈاکٹر ادل سومرو کا ملا ہے جو چند برس پہلے چین کے ثقافتی دورے میں میرے ہم سفر تھے، یہ بحث اب بہت پرانی ہوچکی ہے کہ سالگرہ کے روز آپ کی عمر میں ایک سال بڑھتا ہے یا کم ہوتا ہے لیکن امرِ واقعہ یہی ہے کہ اس کا ہر جواب بیک وقت غلط بھی ہوگا اور صحیح بھی، کئی سال قبل میں نے اسی سوال کا جواب ایک اور طرح سے بھی دینے کی کوشش کی تھی اُس کی چند لائنیں دیکھئے اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ آج شائد میں اس نظم کا آغاز کسی اور طرح سے کرتا۔
برتھ ڈے کیک پہ جلتی ہوئی شمعوں کے بجھا دینے سے
کب بجھیں گے
یہ شب و روز دمہ و سال کے انگار جنھیں، چُھو نہ سکا
وقت کا سیلِ رواں
وقت کا سیلِ رواں جس کے خم و پیچ میں گم
ہم او تم
ہم اور تم سے ہزاروں لاکھوں گم سُم
گزشتہ برس تو کووڈ کی وجہ سے احباب کی خواہش کے باوجود کوئی باقاعدہ تقریب منعقد نہ ہوسکی اس بار بھی ایسا ہی ہے لیکن اس وقت مجھے 4 اگست 2019ء کی پچھترویں سالگرہ کی تقریب بہت یاد آرہی ہے جس میں جمع ہونے والے احباب میں سے بڑی بہنوں جیسی عزیز بھابھی صدیقہ انور مسعود، بہت عزیز دوست لالہ جلال الدین اور محترم بہن غزالہ امتیاز پرویز بہت یاد آرہے ہیں کہ اب یہ تینوں پیارے لوگ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔
گزشتہ چند دنوں میں بھی کئی دوست اور ادب کے حوالے سے شناسا خواتین وحضرات اس دارِ فانی سے پردہ کرگئے ہیں، ان میں سب سے زیادہ اہم نام نقاش کاظمی کا ہے جن سے رفاقت اور تعلقِ خاطر کا دورانیہ چار دہائیوں پرمحیط ہے، وہ زندگی کی مثبت اور انقلابی قدروں پر ایمان رکھنے و الوں میں سے تھے اور ساری عمر اپنی اس کمٹ منٹ پر قائم اور کاربند رہے۔
ربِ کریم ان چاروں پیاروں کی رُوحوں پر اپنا کرم فرمائے ا ور انھیں اپنے دامانِ رحمت میں رکھے، جہاں تک میری اپنی ذات اور اس سالگرہ کا تعلق ہے تو یہی عرض کروں گا کہ میرے رب نے ہمیشہ مجھے میری اوقات سے زیادہ دیا ہے، احباب سے یہی درخواست ہے کہ مجھے اپنی دعاؤں میں یادر کھیں کہ جب تک میری زندگی ہے اور اس کے بعد بھی میرا رب مجھ سے راضی رہے۔