ٹوٹے بنتے ازدواجی رشتے
شہروز سبز واری معروف ٹی وی ایکٹر ہیں۔ ان کا تعلق ایک معروف شوبز گھرانے سے ہے۔ شہروز کے والد بہروز سبز واری نامور اداکار ہیں، بہت سے کامیاب، سپر ہٹ ڈرامے جن کے کریڈٹ پر رہے۔ شہروز سبزواری نے اداکاری کے کیرئر کو اپنایا اورجلد اپنی شناخت بنا لی۔ شہروز سبزواری کی ازدواجی زندگی ڈسٹرب رہی، ان کی پہلی بیوی سائرہ بھی اداکارہ تھیں، بدقسمتی سے دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ اس کے بعد انہوں نے پچھلے سال اداکارہ، ماڈل صدف کنول کے ساتھ شادی کی۔ یہ شادی بہت اچھی، کامیاب جا رہی ہے۔
پچھلے چند دنوں سے شہروز سبزواری کے اہلیہ صدف کنول کاایک ٹی وی انٹرویو کا کلپ وائرل ہوا ہے۔ دراصل یہ نجی ٹی وی پرعید کے حوالے سے نشر ہونے والا خصوصی پروگرام تھا۔ صدف کنول نے دراصل فیمنزم کے حوالے سے وہ جواب دیا جو ہمارے فیمنسٹوں اور لبرل حلقوں کے لئے سخت تکلیف دہ بلکہ اذئیت ناک ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق وہ گرما گرم آلو جسے نگلنا ممکن نہیں اور زبان جلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ صدف کنول سے اینکر نے پوچھا کہ عورت مارچ کے حق میں کچھ لوگ بات کرتے ہیں، کچھ تنقید کرتے ہیں، اسی طرح فیمنزم، مساوات کی بحث ہے، عورت کی مظلومیت کی بات ہوتی ہے، آپ اسے کیسے دیکھتی ہیں۔ صدف کنول نے سادگی سے جواب دیا، " میرے نزدیک عورت مظلوم یا بیچاری نہیں، وہ مضبوط ہے۔ میں بہت مضبوط ہوں، امید ہے آپ بھی ہوں گی۔ ہمارا کلچر یہ ہے کہ میرا میاں ہے، میں نے اس سے شادی کی ہے، مجھے اس کے جوتے بھی اٹھانے ہیں، میں اس کے کپڑے بھی استری کروں گی، جو کہ اگرچہ میں نہیں کرتی، کم کرتی ہوں، مگر مجھے پتہ ہوتا ہے کہ شہری (شہروز سبزواری)کے کپڑے کہاں پڑے ہیں، مجھے پتہ ہونا چاہیے کہ اس نے کیا کھانا، کب کھانا ہے۔ یہ مجھے پتہ ہونا چاہیے کیونکہ میں اس کی بیوی ہوں۔ میں ایک عورت ہوں۔ شہری کو میرا پتہ ہونا چاہیے مگر مجھے اس کا زیادہ پتہ ہونا چاہیے کیونکہ میں ایک عورت ہوں۔ اس لئے بھی کہ میں یہ سب دیکھتی ہوئی بڑی ہوئی ہوں۔ فیمنزم کی بات کرنے والے لبرل ہیں، آج کل ایسے بہت سے لبرل آ گئے ہیں۔ میرے نزدیک فیمنزم یہ ہے کہ اپنے میاں کا خیال رکھوں، اسے عزت دوں، جو مجھ سے ہوسکے وہ کروں، یہ مجھے سکھایا گیا ہے۔"
صدف کنول کے انٹرویو کا یہ کلپ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ جہاں بہت سی خواتین اور مرد اس کی حمایت کر رہے ہیں، کچھ اس پر تنقید کرتے ہوئے، طنزیہ میم بنا رہے ہیں۔ اکثر شادی شدہ خواتین نے اس کی حمایت کی اور کہا کہ بطور ماں اور بیوی ہم ان خیالات سے اتفاق کرتے ہیں۔ بعض کے خیال میں اس کلپ میں ازدواجی زندگی کو بہترین طریقے سے بیان کیا گیا۔ دوسری طرف کئی ایسے لوگ بھی ہیں جن کے خیال میں اداکارہ کو فیمنزم کا کچھ بھی نہیں پتہ اور انہوں نے دقیانوسی باتیں کی ہیں۔
اس پروگرام کی ابتدا میں اینکر نے ایک سوال پوچھا کہ آپ کیسی بیوی ہیں، اس پر صدف کنول نے بڑی سادگی سے جواب دیا کہ میرے اصول سادہ ہیں کہ اپنے میاں کو میاں سمجھنا چاہیے، اس کا درجہ اوپر ہونا چاہیے، کیونکہ وہ گھر کو سنبھالتا ہے، جو کام میاں کرتا ہے، وہ شائد میں نہیں کر سکتی، عورت نہیں کر سکتی۔" اس پر شہروز سبزواری نے بروقت مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ جو کام عورت کر تی ہے، جو چیزیں وہ سنبھالتی ہے، اسے خاوند نہیں کر سکتا، صرف عورت ہی کرسکتی ہے۔ اس نکتے پر بیوی نے تائیدی سر ہلایا۔ شہروز نے دوبارہ لقمہ دیا، " مرد اور عورت کا اپنا اپنا مقام، اپنی اپنی جگہ ہے، اللہ پاک نے دونوں کو اپنی جگہ دی ہے، دونوں اگراپنی اپنی جگہ سمجھ جائیں، ایک دوسرے کی سپیس کا خیال رکھیں اور عزت دیں تو مسئلہ ختم ہوجائے گا۔"
اس سوشل میڈیا ٹرینڈ کے حوالے سے نیوز سٹوریز پڑھ کر میں نے یوٹیوب پر وہ پورا پروگرام دیکھا اور اندازہ ہوگیا کہ ہمارے لبرل حلقوں کو کیوں اتنی چبھن ہوئی۔ اسی پروگرام میں ایک جگہ پر اینکر نے صدف کنول سے پوچھا کہ آپ نے ایک فلم میں آئیٹم نمبر کیا تھا، اب دوبارہ کریں گی؟ اداکارہ نے ایک لمحہ کے سوچا اور پھر صاف الفاظ میں کہا، " ہم بچپن یا لڑکپن میں بعض غلطیاں کرتے ہیں، کبھی نامناسب لباس بھی پہن لیتے ہیں، جب عقل آ جاتی ہے، خیالات بدل جاتے ہیں تب ایسا نہیں ہوتا۔ میں نے تب وہ آئٹم نمبر کر لیا، ہوگیا، مگرپھر مجھے سمجھ آ گئی تھی، شادی سے پہلے ہی آ گئی۔ اب میری شخصیت بدل گئی ہے، خیالات بدل گئے ہیں، اب شائد میں ویسا نہیں کر سکوں۔"
یہ پروگرام اور ٹرینڈ مجھے اس اعتبار سے اچھا لگا کہ آج کل سوشل میڈیا پر مردوں، خاوندوں کے حوالے سے اتنا کچھ زہریلا، منفی اور اشتعال انگیز آ رہا ہے کہ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کچھ بہت ہی فرسٹریٹڈ، ناکام، منتشر خیال، زندگی سے غیر مطمئن خواتین اپنی تمام تلخی، فرسٹریشن اور مختلف ناکامیوں کا بدلہ جا بجا زہر اگل کر لے رہی ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ ناپختہ، نوجوان ذہنوں پر یہ منفی مواد کیا برے اثرات مرتب کرے گا؟ پاکستان جیسے ملک میں جہاں میرج کونسلنگ موجود ہی نہیں، لوگ ایک دوسرے کو سمجھنے، جاننے میں دشواری پر کسی سے پروفیشنل مدد نہیں لے سکتے، وہاں اس طرح کا غیر پیشہ ورانہ، منفی موادکتنا تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے؟
چند دن پہلے کسی ویب سائٹ پر ایک خاتون بلاگر کی تحریر پڑھی، بلاگ کیا دراصل وہ مردوں کے خلاف ایک چارج شیٹ تھی، جس میں جی بھر کی جلی کٹی سنائی تھیں۔ لب ولہجہ اتنا تلخ، غیر منطقی اور جذباتی کہ آدمی کو حیرت ہوتی کہ کیا سوچ کر اسے سائٹ پر لگایا گیا۔ اسلام آباد میں قتل ہونے والی مظلوم نورمقدم کے حوالے سے یہ غصہ نکالا گیا۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس بدبخت قاتل کے قصور کی ذمہ داری پاکستان کے دس گیارہ کروڑ مردوں پر نہیں عائد کی جا سکتی۔ حیرت اس پر ہوتی ہے کہ تنقید کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی کسی مرد کی اولاد ہیں، ان کے چہیتے بھائی بھی مرد ہیں اوراگر بیٹے ہیں تو وہ بھی مرد بنیں گے۔ یہ تمام فرسٹریٹیڈ فیمنسٹ، لبرلز خواتین مرد کے روپ میں صرف خاوند کو دیکھتی ہیں۔ ان کے خیال میں مرد کے چہرے پر صرف خاوند کا ماسک ہے، اس کے علاوہ اس کا کوئی اور روپ ہے ہی نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ہر رشتے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، منفی کے ساتھ مثبت کا ہونا فطرت کا اصول ہے۔ حتیٰ کہ بہت سے کیسز میں ایک بظاہر ظالم خاوند بھی دوسرے رشتے میں نہایت فرماں بردار بیٹا ہوتا ہے، جہاں وہ کسی عورت کی اطاعت اور اس کا خیال ہی رکھ رہا ہے۔ خاوندوں سے شاکی عورتیں یہ کیسے بھول جاتی ہیں کہ کئی بار ان کا اعتراض ہی یہ ہے کہ خاوند اپنی بہنوں کا زیادہ خیال رکھتا ہے۔ اس کی نندیں بھی عورت ہی ہیں، مریخ سے وارد ہوئی خلائی مخلوق تو نہیں۔
صدف کنول نے اپنے خاوند کو عزت دینے، اسکے کپڑے استری کرنے، کھانے پینے کا خیال رکھنے کی بات اعلانیہ کی تو کچھ لوگوں کو عجیب لگ رہا ہے۔ کیا یہ ہم سب اپنے گھروں میں دیکھتے نہیں آئے؟ ہماری مائیں ایسا ہی کرتی رہی ہیں۔ ویسے ہم فخریہ کہتے ہیں کہ ہماری والدہ اور والد کی زندگی بڑی خوشگوار رہی، والد اپنی ازدواجی زندگی سے بہت خوش، مطمئن اور آسودہ رہے۔ اس کے پیچھے جو جادوپوشیدہ تھا، اسے دیکھنے سے انکار کردیتے ہیں۔ بطور مرد مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ بیوی میرے جوتے اٹھائے، اس میں میرے لئے کیا احساس برتری ہوسکتا ہے؟ میرے نزدیک یہ اہم ہے کہ وہ میری عزت کرے کیونکہ میں بھی اس کی عزت کرتا ہوں۔ میں ذاتی طور پر شہروز سبزواری کا ہم خیال ہوں کہ مرد اور عورت کا الگ الگ کردار ہے، کسی کا دوسرے سے غیر اہم نہیں، ایک دوسرے کی عزت کریں، ایک دوسرے کے کنٹری بیوشن کو تسلیم کریں، سراہیں اور اپنی زندگی کو جنت بنائیں۔ ٹوٹتے رشتوں کو جوڑنے کا یہ آسان گر ہے۔
ہمارے فیمنسٹ جس طرح کا زہر گھول رہے ہیں، وہ ازدواجی زندگیوں کو برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں کرے گا۔ ظلم یہ ہے کہ ایک خاص میڈیا ہائپ کے ذریعے اس پر اعتراض کرنا بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ کسی ورکنگ ویمن کو اگر یہ کہا جائے کہ تمہار ا دو ماہ کا بچہ ہے، اسکا دھیان رکھو اور اگر اپنی ملازمت چھوڑنی پڑے تو چھوڑ دو، یہ مشورہ دینا کسی بڑے ظلم اور گناہ کے برابر بنا دیا گیا ہے۔ ایسی بہت سی خواتین دیکھی ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کی تربیت، دیکھ بھال کی خاطر اپنے کیرئر کی پروا نہ کی، بہت خوشگوار ازدواجی زندگیاں وہ گزار رہی ہیں۔ ایسی بھی دیکھی ہیں، روز دیکھتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کو بوڑھی ماں، ساس کے حوالے کر کے خاتون دس بارہ گھنٹوں کے لئے کام کرنے چلی گئی اور ایسا کرتے ہوئے انہیں معمولی سا پچھتاوا بھی نہیں ہوتا۔ یہ نہیں سوچتیں کہ ننھے بچے کا جتنا ماں خیال رکھ سکتی ہے، وہ کوئی اور کیسے کر سکے گا؟ افسوس تو یہ کہ ایسی بات کہنا بھی دشوار بنا دیا گیا ہے۔ جو یہ جرات کرے گا، اس کا اتنا تمسخر اڑایا جائے گا کہ آئندہ کبھی جرات نہ کر سکے۔