خوشحالی کی دستک (1)
فیس بک پر چند سال پہلے ایک صاحب کی پوسٹ اتفاقیہ دیکھنے کو ملی۔ ابن فاضل نامی اس لکھاری نے ہمارے ایک مقامی پھل کے حوالے سے عام فہم الفاظ میں سمجھایا کہ اگر اسے خشک کر کے مارکیٹنگ کی جائے تو اچھی خاصی رقم کمائی جا سکتی ہے۔ میں نے صاحب ِپوسٹ کو فالو کرناشروع کر دیا۔ سچی بات ہے کہ بے شمار ایسی ایسی مفید اور معلوماتی تحریریں پڑھنے میں ملیں کہ بندہ دنگ رہ جائے۔ ہر بار یہی سوچتا کہ یہ آئیڈیا ہمارے ان اداروں تک کیوں نہیں پہنچتے، جن کا یہ کام ہے۔
بعد میں ان سے ملاقات بھی ہوئی۔ ان کا اصل نام سلیم ہے، ابن فاضل کے قلمی نام سے لکھتے ہیں، تعلیم کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور ٹیکنیکل نوعیت کی چیزیں بنانے کا کام ہی کرتے ہیں۔ ان کی اصل خوبی یہ ہے کہ جذبہ حب الوطنی اور درد ِدل ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ کاروباری معاملات کی وجہ سے انہیں چین، سنگاپور، ملائشیا، فلپائن وغیرہ جیسے ممالک گھومنے کا موقعہ ملا۔ انہوں نے دیکھا کہ کس طرح وہاں پر پھلوں، سبزیوں اور دیگر عام سی چیزوں کو مختلف طریقوں سے محفوظ کر کے نئی انڈسٹری کی بنیا د ڈال دی گئی اور یہ ملک ان مصنوعات کو ایکسپورٹ کر کے کروڑوں ڈالر کما رہے ہیں۔
ابن فاضل صاحب سے میں نے کئی بار درخواست کی کہ ان تحریروں کو کتابی شکل میں لے آئیں تاکہ یہ آئیڈیاز محفوظ ہوجائیں اور دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ان تک رسائی بھی آسان ہوجائے۔ اب یہ کتاب" خوشحالی کی دستک" کے نام سے شائع ہوگئی ہے۔ دو سو صفحات کی یہ کتاب نہایت دلکش آرٹ پیپر پر شائع ہوئی، ہر آرٹیکل کے ساتھ خوبصورت تصاویر موجود ہیں تاکہ اس آئیڈیے کو سمجھا جا سکے۔ براہ کرم ان سطور سے یہ اندازہ نہ لگائیے کہ میں یہ کالم اس کتاب پر لکھ رہا ہوں۔ بالکل نہیں، کتاب توخیر شائع ہوئی ہے، اسے پزیرائی مل رہی ہے، جلدپہلا ایڈیشن نکل ہی جائے گا۔ اسے رائٹنگ سالوشن نے شائع کیا ہے اور اردو سرائے سے یہ لی جا سکتی ہے۔ اصل وجہ مصنف کی جانب سے دئیے گئے وہ شاندار نئے، تخلیقی نوعیت کے کاروباری آئیڈیاز ہیں، جن پر ہمارے سرکاری اور نجی اداروں کو توجہ دینی چاہیے۔ ان میں ایسا بہت کچھ ہے جو بطور قوم اور بطور ریاست ہمارے دلدر دور کر سکتا ہے۔ ان آئیڈیاز پر بحث ہونی چاہیے، ماہرین ان کا جائزہ لیں اور پھر ایسا کرنے والوں کو معاونت اور عملی تربیت فراہم کریں۔
ابن فاضل نے اپنے طور پر آغاز کر دیا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ صرف گفتار کے غازی نہیں۔ اپنے چند دوستوں کے ہمراہ انہوں نے خوشحال پاکستان کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے، جہاں مختلف ٹیکنیکل کاموں کے حوالے سے تربیت دی جاتی ہے، کتاب کی آمدنی بھی اسی ادارے کے لئے وقف کی گئی ہے۔ اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا موقعہ ملا اور دل شاد ہوگیا۔ اخوت کے سربراہ ممتاز سماجی شخصیت ڈاکٹر امجد ثاقب تقریب کے مہمان خصوصی تھے، ڈاکٹر امجد اس کتاب اور مصنف کی کاوش سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے فوری اعلان کر دیا کہ اس ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے تربیت لینے والے کچھ لوگوں کو اخوت کی جانب سے کام کے لئے قرضہ دیا جائے گا۔ ڈاکٹر امجد نے اخوت اور کئی دیگر سماجی تنظیموں کے روح رواں ڈاکٹر سلیم رانجھا صاحب کو بھی بلا لیا۔ رانجھا صاحب ممبر ایف بی آر کی سینئر پوزیشن سے ریٹائر ہوئے ہیں، خواب دیکھتے اور خواب پانے کی جدوجہد کرنے والوں میں شامل ہیں۔ رانجھا صاحب نے بھی اس منصوبے کو آگے بڑھانے اور اسے پھیلانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اللہ کرے ہمارے اہم ادارے بھی اس جانب متوجہ ہوں۔
ابن فاضل نے اپنی کتاب میں چالیس کے قریب ایسے کاروبار کی نشاندہی کی ہے جن کی طرف ہم بالکل توجہ نہیں دے رہے اور معمولی سی کاوش اور کچھ سرمایہ کاری سے یہ سٹارٹ اپس فنکشنل ہوسکتے ہیں۔ بعض آئیڈیا تو حیران کن اور دل خوش کن ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے بتایا کہ ایک دوست نے خشک تربوز اور خربوزہ کا تحفہ بھیجا، اس اطلاع کے ساتھ کہ یہ افغانستان سے آئے ہیں۔ یہ سوچتے رہے کہ تربوز اور خربوزہ پنجاب میں اس قدر عام ہوتا ہے کہ چھوٹے سائز کے تربوز بکریوں، بھینسوں کو ڈال دئیے جاتے ہیں، بہت سا مال ضائع ہوجاتا ہے۔ افغان کاروباری انہیں خشک کر کے ایک ہزار روپے فی کلو فروخت کر رہے ہیں۔ ابن فاضل نے آگے تصاویر کی مدد سے سمجھایا کہ کس طرح محض دھوپ میں لکڑی اور موم جامہ کی مدد سے چھوٹا سا کمرہ بنا کر اس میں چھوٹا سا پنکھا لگا کر تربوز، خربوزہ یا کوئی بھی دوسرا پھل خشک کیا جا سکتا ہے۔ تربوز میں پچانوے فیصد پانی ہوتا ہے جبکہ خشک تربوز میں دس فیصد پانی، یعنی چھ کلو تربوز خشک ہو کر ایک کلو گرام رہ جائے گا۔ سو ڈیڈھ سو کی کاسٹ والا یہ خشک تربوز ایک ہزار روپے فی کلو گرام فروخت ہوسکتا ہے۔ اگر اسے مزید خشک کر لیں کہ اس میں ایک سے تین فی صد نمی بچے تو اس کا پائوڈر بنایا جا سکتا ہے۔ جسے جب چاہیں پانی میں گھول کر مزیدار، فرحت بخش مشروب ایک منٹ میں تیار کیا جا سکتا ہے۔ تربوز کا پائوڈر بھارت میں آن لائن پاکستانی روپوں کے حساب سے ہزار ڈیڑھ ہزار جبکہ یورپ میں دس ہزار فی کلو بک رہا ہے۔ اسی طرح خربوزے کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے۔
آم کو خشک کرنے کے حوالے سے تو خوشحال پاکستان والوں نے خاصی پیش رفت کی ہے اور کئی لوگوں کو نہ صرف ایسا کرنے کی تربیت دی ہے بلکہ اس کے لئے متعلقہ مشینری بنانے میں بھی معاونت کر رہے ہیں۔ دو صفحے کے ایک مضمون میں تصاویر کے ساتھ سمجھایا گیا کہ کس طرح پکے آموں کو خشک کر کے قتلے بنائے جا سکتے ہیں، ایک کلو آم کی قاشوں سے نصف کلو خشک آم حاصل ہوگا۔ اس کی کل کاسٹ بمشکل دو ڈھائی سو روپے پڑے گی، مگر عالمی منڈی میں اس کی قیمت دس ڈالر فی کلو ہے یعنی سولہ سترہ سو روپے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملائشیا سے ایسا ہی عام بائیس سو روپے فی کلو خریدا۔ دلچسپ یا ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ فلپائن اس وقت دنیا بھر میں خشک آم برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے، حالانکہ ان کے آم ہمارے مقابلے میں نہایت بے ذائقہ اور پھسپھسے ہیں۔ فلپائنی وزارت نے ایک باقاعدہ کورس ڈیزائن کرر کھا ہے جس کی وڈیو یوٹیوب پر دستیاب ہے۔
آج کل کینو، مالٹے کا موسم آنے والا ہے۔ ابن فاضل نے اس حوالے سے بھی ایک معلوماتی آئیڈیا شیئر کر رکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان میں مالٹا، کینو کی سالانہ پیداوار پچیس سے تیس لاکھ ٹن ہے، جس سے تین لاکھ ٹن برآمد ہوجاتا ہے، باقی ملک میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے چھلکے میں قدرت نے دو فیصد کے قریب ایک تیل رکھا ہے جسے سٹرس آئل کہتے ہیں۔ یہ صحت کے لئے بہت ہی کارآمد چیز ہے۔ خوشبو سے علاج(اروماتھراپی)کے علاوہ مختلف ادویات میں بطور دوا اور اس کا ایک جز کھانے کی اشیا جیسے ٹافی، آئس کریم، بسکٹ وغیرہ میں کنو کا ذائقہ پیدا کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اعلیٰ معیار کے سٹرس آئل کی قیمت پانچ ہزار روپے فی کلو گرام ہے، اس حساب سے ہم تقریباً پچیس ارب روپے سالانہ کا سٹرس آئل ضائع کر دیتے ہیں۔ کنو کے چھلکے سے سٹرس آئل نکالنے کا طریقہ انتہائی آسان ہے۔ جن علاقوں میں کنو کی پیداوار زیادہ ہے، وہاں اگر اس کے چھوٹے چھوٹے پلانٹ لگا دئیے جائیں تو بہت لوگوں کو روزگار ملے گا اور وہ اچھی کمائی بھی کر سکیں گے۔ ایک چھوٹا پلانٹ تین چار لاکھ میں بن سکتا ہے۔
ایک دلچسپ آئیڈیا پھرول یا فروٹ لیدر بنانے کا ہے۔ اس کی دنیا میں بہت مانگ ہے اور سالانہ کروڑوں ڈالر کا کاروبار ہے۔ اسی مضمون میں ابن فاضل نے پہلے اپنا ایک دلچسپ مشاہدہ شیئر کیا کہ چین میں میلوں میل ناشپاتی کے باغات میں ہر ناشپاتی پر باریک مومی لفافہ چڑھایا گیا تھا تاکہ پھل پرندوں اور موسمی شدت سے محفوظ رہے اور بہترین فصل رہے۔ صرف ناشپاتی نہیں بلکہ سیب، آڑو، حتیٰ کہ آم اور ایسے سب پھلوں پر جو اکیلے اکیلے درخت پر لگتے ہیں، ان پر پلاسٹک کے باریک لفافے چڑھائے جاتے ہیں۔ اس عمل کو بیگنگ (Bagging) کہتے ہیں، اس سے زہریلی دوائوں کے بغیر بہت اچھی فصل ہوتی ہے۔ (کاش پاکستانی کاشتکاروں کو بھی وہ زرعی ماہرین ایسی معلومات فراہم کریں جوا سی کام کی تنخواہ لیتے ہیں۔)
ابن فاضل نے پھرول کے بارے میں شیئر کیا کہ ایسا پھل جو خود سے زمین پر گرے، نشان زدہ یا تھوڑا سا خراب ہوں، ان سے یہ پھل رول یا فروٹ لیدر بنائے جا سکتے ہیں جنہیں اردو میں پھرول کہا جا سکتا ہے۔ ابن فاضل کے مطابق ایران میں یہ جگہ جگہ بنتا ہے اور کریانے کی دکان پر بھی دستیاب ہوتا ہے، وہ اسے لواشک کہتے یں اور یہ ٹافی، چاکلیٹ جیسی پیکنگ کے ساتھ کھلا بھی دستیاب ہے۔ اس کا طریقہ کار بھی نہایت آسان ہے اور کتنا اچھا ہے کہ بچے نقصان دہ بسکٹ، پاپڑ، سلانٹیاں، بنٹیاں کھانے کے بجائے خالص پھلوں سے بنا ذائقہ دار پھرول کھائیں۔ کتاب میں ایسی ایرانی مصنوعات کی تصاویر بھی ہیں جن سے سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ (جاری ہے)