دہکتا جون
موسموں کی شدت انسانی زندگی کا حصہ ہے اور اسے برداشت کرنا چاہیے۔ ہم جس علاقے میں رہتے ہیں، یہاں شدیدسردی سے تو کبھی کبھار ہی واسطہ پڑتا ہے، مگر شدید گرمی ہر ایک کو بھگتنا پڑتی ہے۔ ویسے صوفی لوگ تو بدلتے موسم سے بے نیاز رہتے ہیں، وہ شکوہ کرتے ہیں نہ شکایت کو پسند کرتے ہیں۔ قبلہ سرفراز شاہ صاحب بتایا کرتے ہیں کہ ایک بار وہ اپنے مرشد جناب یعقوب شاہ صاحب کے پاس بیٹھے تھے، ایسے ہی بات برائے بات انہوں نے گرم موسم کا ذکر کیا۔ یعقوب شاہ صاحب یہ سن کر برہم ہوگئے، انہوں نے اپنے خاص شاگرد کو باقاعدہ ڈانٹ پلا دی۔ کہنے لگے تم کون ہوتے ہوموسم کی شکایت کرنے والے؟ موسم اور ان میں شدت رب تعالیٰ کی طرف سے ہے اور وہ ہمارا خالق ہے، ہم غلام۔ غلام کو کیا حق ہے کہ خالق کے کسی فیصلے پراعتراض کرے۔
سرفراز شاہ صاحب کا اپنا طریقہ یہی دیکھا کہ کبھی کسی معاملے میں حرف شکایت ان کے لبوں پر نہیں آیا۔ جیسا بھی موسم ہو، ان کی صحت کے معاملات جتنے بھی گمبھیر ہوں، وہ ہمیشہ راضی بہ رضا ملتے ہیں۔ رسمی طور پر نہیں بلکہ نہایت بشاشت کے ساتھ، اتنی خوش دلی سے طمانیت کا اظہار کرتے ہیں کہ ناواقف شخص دھوکہ کھا جائے۔ اسے شائبہ بھی نہ گزرے کہ شاہ صاحب صحت کے کئی مسائل کا شکار ہیں، حال ہی میں بڑی سیریس بیماری سے گزرے ہیں اور ان کے دل کا صرف ستائیس فیصد حصہ کام کرتا ہے۔ خیر یہ تو اللہ والوں کا معاملہ ہے، ہم دنیا داری میں ڈوبے لوگ ہر تبدیلی کو شدت سے محسوس کرتے ہیں اور پھر جب تک اس پر سیر حاصل گفتگو نہ فرما لیں، سکون نہیں آتا۔ اللہ مغفرت کرے، میرے والد مرحوم ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تم لوگ یہ جو گرمی گرمی کی گردان کرتے ہو، اس سے گرمی مزیدشدت سے محسوس ہوگی، اسے نظرانداز کرو۔ اس زمانے میں بھی یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی، آج تک پتہ نہیں چلا کہ جب آسمان سے آگ برس رہی ہو، زمین انگارہ بن جائے، صبح نو بجے سے سانس لینا دوبھر ہوجائے، تو اسے نظرانداز کیسے کریں؟ ہم تو سرائیکی، پنجابی محاورے کے مطابق جب تک پوری طرح کھپ نہ ڈال لیں، تب تک تسلی نہیں ہوتی۔ تو صاحبو پچھلے چند دنوں سے آگ برساتے سورج اور جلدجھلسا دینے والی لو نے برا حال کر دیا ہے، لاہوری ایسے موقع پر کہتے ہیں گرمی نے باں باں کرا دی۔
اس گرمی میں حکومت نے سکول کھول رکھے ہیں، ہر جگہ سے معصوم بچوں کے بے ہوش ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔ کاش ممکن ہوپاتا کہ وزرائے تعلیم کو زبردستی کسی سرکاری سکول میں صرف ایک دن کے لئے بھیج دیا جاتا کہ یہاں وقت گزار کر دکھائو۔ عوام نے شورمچایا تو اب سکول کے اوقات تبدیل کر کے صبح سات سے ساڑھے گیارہ بجے کر دئیے ہیں۔ پہلے یہ کیوں نہیں سوچا؟ اب بھی ٹائمنگ زیادہ ہے، سات سے دس بجے تک ہونا چاہیے اور اس میں بھی پرائمری کلاسز کو استثنا دیا جائے۔ پنجاب میں پہلی کلاس سے آٹھویں تک کے اسیسمنٹ ٹیسٹ سولہ جون سے تیس جون تک ہوں گے۔ دانستہ اہتمام کیا گیا کہ جون کا خوفناک مہینہ پورا بچوں کو سکولوں میں ذلیل کیا جائے۔ سفاکی، بے رحمی، شقاوت قلبی اور بے دردی کی کوئی حد بھی ہونی چاہیے۔ اسیسمنٹ ٹیسٹ لینے ہیں تو ابھی شروع کرائیں اور پانچ سات دنوں میں یہ ختم ہوجائیں تاکہ پھر چھٹیاں دینا ممکن ہوپائے۔ اب یہ ہوگا کہ شدید گرمی کی وجہ سے خدانخواستہ کہیں کسی جگہ پر کوئی سانحہ ہوگیا، معصوم جان چلی گئی تب مزید شور مچے گا اور پھرحکام کو چھٹیوں کا اعلان کرنا پڑے گا۔ اسے کہتے ہیں نااہلی اور زمینی حقائق سے بے خبری۔ دراصل جب ایسے لوگ وزیر بنیں جنہیں علم ہی نہ ہو کہ گرمی کیا ہوتی ہے اور جب بجلی چلی جائے تو بغیر پنکھے کے کمرے میں بیٹھنا کتنا بڑا عذاب بن جاتا ہے۔ عمران خان کی حکومت کا یہی مسئلہ ہے کہ انہیں بات دیر سے سمجھ جاتی ہے۔ ایک بھارتی فلم میں وہاں کے معروف اداکارسلمان خان نے قدرے سست ذہن والے شخص کا کردار اداکیا، جسے بات قدرے دیر سے سمجھ آتی تھی۔ اسے لوگ ٹیوب لائٹ کہہ کر پکارتے کہ وہ بھی چندلمحوں کے بعد جلتی ہے۔ بدقسمتی سے یہی معاملہ تحریک انصاف کی حکومت کا ہے، اس کے بیشتر جغادری ٹیوب لائٹ ہی ہیں۔
اس گرمی میں بسا اوقات ہم خود تکلیف بڑھا دیتے ہیں۔ گزشتہ روز میرے بیٹے نے بتایا کہ ان کے پرنسپل نے سکول اسمبلی میں ایک تقریر فرمائی، جس میں ہدایت کی گئی کہ سکول کا مکمل ڈریس پہن کر آیا جائے۔ میں نے حیرت سے پوچھا مکمل ڈریس سے کیا مراد ہے؟ پتہ چلا کہ پرنسپل صاحب کا اصرار ہے کہ سکول یونیفارم کے ساتھ ٹائی ضرور پہن کر آیا جائے۔ ایک لمحے کے لئے تو میرادماغ گھوم گیا۔ پنتالیس چھالیس ڈگری ٹمپریچر میں طلبہ کو ٹائی پہن کر آنے کا مشورہ کتنا ظالمانہ اور عقل وحکمت سے بے بہر ہے۔ مجھے تو کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ گرمیوں میں ہمارے نجی سکولوں کے آفیشل ڈریس میں بوٹ کیوں شامل ہیں؟ آپ خود سوچیں کہ اتنی شدید گرمی میں جب بچے پسینے میں ڈوبے ہوتے ہیں، ایسے میں جرابوں کے ساتھ بند بوٹ پہننے کی کیا منطق ہے؟
ایک دو بار پہلے بھی کسی انگریز مصنف کی اس کوٹیشن کا حوالہ دیا تھا کہ انگریزوں نے ہندوستان میں دو چیزیں متعارف کرائیں، سر پر پہننے والا ہیٹ اور پائوں میں پہننے والے تسموں کے بوٹ۔ ہندوستان کے موسم کے اعتبار سے ہیٹ ان کے لئے مناسب تھا کہ دھوپ سے سر، گدی کی حفاظت ہو، بوٹ نہایت نامناسب کہ اس کے لئے جرابیں ضروری ہیں اور گرمیوں میں پیر کو ہوا بھی نہیں لگتی۔ ہندوستانیوں نے الٹ کام کیا، ہیٹ کو نہیں اپنایا جبکہ بوٹ اپنے دفاتر، تعلیمی اداروں کے لباس کا لازمی حصہ بنا لیا۔ گورے مصنف کی بات سو فی صد درست ہے۔ ہمارے کلچر میں سلیپر نما چپل، پشاوری چپل، چمڑے کا کھسہ، گرگابی وغیرہ کا رواج تھا۔ اسے اتارنا بھی نہایت آسان اور چپل، سینڈل، پشاوری چپل میں پیر کو ہوا بھی لگتی رہتی، پسینہ نہ آتا۔ بوٹ سردیوں کے لباس کے لئے مناسب ہیں، گرمیوں میں ہمیں اپنی روایت کی طرف لوٹنا چاہیے تھا۔ سکول ڈریس میں بھی بوٹ جرابوں کی جگہ سینڈل یا پشاوری چپل کی اجازت ہونی چاہیے۔ آج کل بڑے دیدہ زیب اور وزن میں ہلکے سینڈل مل جاتے ہیں، ہوادار، نرم۔ کسی سکول سسٹم کو تو اس حوالے سے پہل کرنی چاہیے۔
سوال تو یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ وکیل حضرات اتنی شدید گرمی میں کالا کوٹ کیوں پہنتے ہیں؟ اس کی کیا منطق ہے؟ میرا اپنا تعلق وکیلوں کے خاندان سے ہے، خود بھی قانون کی تعلیم حاصل کی اور کچھ عرصہ عدالتوں میں گزارا ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ بیشتر وکیل اس کوٹ سے تنگ تھے، مگر مجبور تھے کہ عدالتوں میں اس کے بغیر جانا ممکن نہیں۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں سیاہ اچکن کی اجازت مل گئی تھی، شلوار قمیص کے ساتھ اسے پہنا جا سکتا ہے، مگر کسی سیاہ بخت کوایسی گرمی میں گلے تک بند بٹن والی اچکن پہننے کا موقعہ ملا ہو تو یقینااس اذئیت کو نہیں بھولے گا۔ دو چار باردیکھا کہ کسی نوجوان زیر تربیت وکیل نے کوٹ کے بجائے سیاہ واسکٹ پہنی تو جج صاحب نے ٹوک دیا کہ یہ کیا پھتوئی سی پہن رکھی ہے۔ نوجوان وکیل بے چارہ شرم سے ڈوب گیا۔ سول جج کی بات کر رہا ہوں، سیشن کورٹ یا ہائی کورٹ میں تو خیر کوئی اس کی جرات ہی نہیں کرتا۔ وکلا صاحبان کو نہ صرف جون بلکہ جولائی اور پھرستمبر کے نہایت حبس آلود مہینے میں بھی کالا کوٹ پہننا پڑتا ہے۔ صرف لباس ہی نہیں بلکہ ہمارا پورا طرز زندگی اپنے موسمی حالات کے برعکس ہوچکا ہے۔ طرز تعمیر ہی دیکھ لیجئے۔
جس طرح کی عمارتیں آج کل بن رہی ہیں، وہ اتنے گرم موسم والے علاقے میں ہونی چاہئیں؟ جہاں سال کے کئی ماہ چالیس سے چھیالیس، سنتالیس ڈگری تک ٹمپریچر جاتا ہو، بجلی اتنی مہنگی ہو، ایسے ملک میں شیشیوں والی عمارت پر پابندی نہیں لگنی چاہیے؟ ایسی عمارتیں جہاں دیواریں نیچے سے اوپر تک شیشے کی بنی ہیں اوراندر کا درجہ حرارت بہتر بنانے کے لئے درجنوں ائیر کنڈیشنر درکار ہوں۔ بجلی چلی جائے تو لوگوں کا سانس لینا تک دشوار ہوجائے۔ کم وبیش یہی صورتحال گھروں کی ہے۔ ہمارے آبائی گھروں میں اس کا ہمیشہ خیال رکھا جاتا تھا۔ دیواریں موٹی، چھتیں اونچی، کھلے صحن، برآمدے، دالان وغیرہ۔ آج کل مکان تعمیر ہی اس طرح ہوتے ہیں کہ ہر کمرے میں اے سی کی ضرورت پڑے۔ دس مرلے زمین پر مکان بنے تو بمشکل دس فٹ لان کے نام پر چھوڑ کر باقی سب جگہ استعمال کر لی جاتی ہے، گھر ایک کنال کا ہو، تب بھی کوشش یہی ہوتی ہے کہ سبزہ، پھول، کیاریوں کے لئے جگہ نہ بچے۔
حسرت ہی رہی کہ کبھی ٹی وی ٹاک شوز میں ان بنیادی ایشوز پر بھی بات ہو۔ لوگوں کا شعور بہتر کرنے، انہیں نئے آئیڈیاز دینے کا سوچا جائے۔ شرکا اس پر بحث کریں کہ لوگوں کی زندگی میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے، کس طرح وہ اپنے آپ کو زیادہ آرام دہ بنا سکتے ہیں۔ اینکروں نے مہمانوں کوآپس میں لڑانا ہی ہے، ایشو تو عوام سے جڑا ہو۔ مصنوعی، بے کار کے معاملات پر اِٹ کھڑکا کب تک؟