مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے!
3 دنوں میں 2 جے آئی ٹی رپورٹس منظر عام پر، دونوں سندھ حکومت نے اپوزیشن کے دبائو میں آکر جاری کیں، پہلی رپورٹ عزیر بلوچ کی۔ رپورٹ میں اہم بات یہ ہے کہ عزیر بلوچ سیاسی قیادت کی ایما پر قتل و غارت کرتا رہا، مختلف تھانوں کے ایس ایچ او کے تبادلے تک کراتارہا، سیاستدانوں کی بدولت بیرون ملک پیسہ منتقل کرتا رہا۔
یہ تو محض عزیر بلوچ پر رپورٹ تھی، آپ کراچی میں بابالاڈلا اوررحمان ڈکیت، یاسین عرف ماما، غفار ذکری، حاجی لالو، ارشد پپو، شیرل، دادل، کالاناگ، فیصل پٹھان وغیرہ کسی پر بھی جے آئی ٹی بنا لیں اس سے بھی زیادہ خوفناک حقائق منظر عام پر آئیں گے، جن کی وجہ سے کراچی جیسا روشنیوں کا شہر اندھیروں میں ڈوبا۔
سانحہ بلدیہ ٹائون کی رپورٹ بھی ابھی دو دن پہلے منظر عام پر لائی گئی ہے، قیامت تک اس واقعہ میں جاں بحق ہونے والوں کی چیخیں اور فریادیں کراچی کی فضائوں میں گونجتی رہیں گی، اس سانحہ میں 20کروڑ روپے بھتہ نہ دینے پر 300فیکٹری ورکروں کو زندہ جلا دیا گیا۔
مذکورہ واقعہ 2012میں پیش آیا لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ گزشتہ روز ہی منظر عام پر لائی گئی ہے۔ یہ رپورٹ 27 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آگ 20 کروڑ روپے بھتہ نہ دینے پر لگائی گئی تھی۔ فیکٹری سے بھتہ ایم کیو ایم کے حماد صدیقی اور رحمان بھولا نے مانگا۔ قارئین کی یاددہانی کے لیے بتاتا چلوں کہ اس سانحہ کا مقدمہ پہلے سائٹ بی تھانے میں فیکٹری مالکان، سائٹ لمیٹڈ اور سرکاری اداروں کے خلاف درج کیا گیا، مختلف تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنیں اور جوڈیشل کمیشن بھی قائم کیا گیا لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکا، نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں آئی۔
پھر 3سال بعد 2015 میں عدالت میں رینجرز نے ایک رپورٹ جمع کرائی جس میں بتایا گیا کہ کلفٹن سے ناجائز اسلحہ کیس میں گرفتار ملزم رضوان قریشی نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔ اور آگ لگانے کے بعد ملزمان نے فیکٹری کے تمام گیٹ بند کر دیے تھے۔
پھر چند دن پہلے ہی کراچی کے ایک اور کیس کی فائل بند ہوگئی ہے جس میں اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مشہور عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا اور قرار دیا ہے کہ ثابت ہو گیا کہ بانی ایم کیو ایم نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے تین مجرموں کو عمر قید کی سزا اور دس دس لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا ہے۔ یہ جرم ثابت کرنے میں دس سال لگائے گئے۔
آپ کو سانحہ ماڈل ٹائون بھی یاد ہوگا، 6سال گزر گئے، جے آئی ٹی رپورٹس منظر عام پر آئیں لیکن انصاف نہ ہوسکا۔ سانحہ ساہیوال کے مظلوم بچے بھی سب کو یاد ہوں گے، سب کو چھوڑ دیا گیا، پھر آپ کو کانجو، جتوئی وغیرہ جیسے بااثر لوگوں کے کیسز کا تو علم ہوگا، انھیں سزا ہوئی؟
نہیں ناں! ترک ادیب اور ہان پامک کے ناول"میرا نام سرخ ہے" کے پہلے ہی باب میں ایک کنویں سے ایک مردے کی آواز آتی ہے کہ اسے قتل کیا گیا ہے، وہ شاہی مصورآفندی ہے۔ آپ اورکچھ نہ کریں صرف پاکستان کے سب ہی قبرستانوں میں گھوم کر دیکھ لیں، ایک، ایک قبرکے قریب جاکر اس میں سے باہر نکلنے والی سرگوشی کو سن لیں ہر قبر سے ایک ہی آواز آرہی ہوگی کہ مجھے قتل کیاگیا ہے۔ باقی جو ابھی تک زندہ ہیں وہ مردوں سے بھی بدتر ہیں، چلتی پھرتی لاشوں کے سوا اورکچھ نہیں ہیں۔ بقول فیض ؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھاکیوں نہیں دیتے
کورونا کے باعث ادویات میں مافیا نے اربوں روپے کمائے، ادویات اسکینڈل آیا، وزیر صحت عامر کیانی کو عہدے سے ہٹا دیا، تحقیقات کرانے کا اعلان فرمایا۔ ایک رپورٹ بھی بنی، پھر لمبی چپ، کچھ عرصہ بعد محبوب وزیراعظم نے عامر کیانی کو پارٹی سیکریٹری جنرل بنا دیا، پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی، یہاں بھی نتیجہ صفر، وزیراعظم آٹا، گندم والوں کو بھی مافیا کہہ چکے، ملک میں آٹے، گندم سے گودام بھرے ہوئے تھے مگر آٹے، گندم کا بحران پیدا ہوگیا۔ پھر پٹرول مافیا کی کارکردگی سب کے سامنے، ایک شام وزیراعظم نے اچانک 25روپے فی لیٹر پٹرول مہنگا کر دیا۔ یعنی پہلے ہم سوچتے تھے کہ یہ ملک عوام کا ملک ہے، لیکن یہ تو مافیا کا ملک بن کر رہ گیا ہے، ہم تو کولمبیا، کمبوڈیا یا افغانستان کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔
الغرض معاشرہ ڈگمگا رہا ہے، مجھے ونسٹن چرچل یاد آگئے۔ دو سری جنگ عظیم کے دوران ونسٹن چرچل نے اپنا دفتر کیمبرج یونیورسٹی کے ایک کمرے میں منتقل کرلیا تھا۔ ایک صبح چرچل کا ماتحت دوڑتا ہوا آیا اور بتایا کہ جرمن فوجیں برطانیہ کے سر پر پہنچ گئی ہیں۔ چرچل نے اطمینان سے پوچھا کہ برطانیہ میں عدالتیں کام کررہی ہیں۔ ماتحت افسر نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ چرچل نے پھر پوچھا کہ کیا وہ انصاف فراہم کررہی ہیں۔ ماتحت افسر نے جواب دیا کہ جی ہاں برطانیہ میں عدالتیں مکمل انصاف فراہم کر رہی ہیں۔
چرچل مسکرائے اور کہنے لگے کہ جب تک برطانیہ میں عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں تو برطانیہ کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔ لہٰذاعمران خان صاحب عدالتی نظام پر بھرپور توجہ دیں، ملک کے بڑے بڑے واقعات میں جن کا نام آیا ہے انھیں سزائیں دی جانی چاہیے، عبرت کا نشان بنانے سے گریز نہ کیا جائے، حکومت اپنی رٹ قائم کرے، تاکہ انصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکے ورنہ یہاں عزیر بلوچ، حماد صدیقی، رحمان ڈکیت اور ان جیسے کردار پیدا ہوتے رہیں گے!