کورونا کی نئی ہلاکت خیز لہر
2020کورونا وائرس کا سال ہے، اِس ایک سال میں جہاں یہ وائرس دنیا کو لاکھوں اموات دے کر جا رہا ہے وہاں انسان کو یہ سبق بھی سکھا رہا ہے کہ اپنی خواہش کے تابع کسی چیز کا انکار یا اقرار کرنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔
اور حقیقت یہی ہے کہ کورونا اس بار زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے، جب کہ راقم نے گزشتہ ماہ ایک کالم لکھا تھا، جس کا عنوان کچھ یوں تھا کہ "کورونا: ایک مہینے کا لاک ڈاؤن چاہیے" اس کالم کو پڑھ کر میرے ایک چاہنے والے قاری نے مجھے ایک لمبی ای میل کر دی، جس کا لب لباب یہ تھا کہ ڈھلوں صاحب! آپ کے کاروبار کا تو علم نہیں لیکن آپ جیسے لکھاری ہم چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والوں کے کیوں پیچھے پڑ گئے ہیں؟ خدارا لاک ڈاؤن کی بات نہ کریں، ہم پہلے ہی سڑکوں پر آگئے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ قاری کی اس ای میل کو پڑھ کر مجھے تھوڑی ندامت بھی محسوس ہوئی کہ شاید میں نے کچھ غلط لکھ دیا ہے۔
یا شایدPanic Create کر دیا ہے۔ لیکن ہماری بے احتیاطی کے نتائج آج سب کے سامنے آ رہے ہیں، اور گزشتہ مہینے جن کیسز کی تعداد 5 سو تک رہ گئی تھی۔ اب وہ 500 فیصد بڑھ کر 25سو سے 3 ہزار کیسز روزانہ کے حساب سے نکل رہے ہیں۔ اور اموات کا تناسب بھی 3 سو گنا بڑھ گیا ہے۔
طبی ماہرین پاکستان کے حوالے سے بھی یہی کچھ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ یہ لہر پہلے سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو گی۔ کئی ایک ڈاکٹر دوست تو اس مرتبہ زیادہ ڈرے اور سہمے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، لاہور میں کورونا مریضوں کی صورت حال پچھلے چند ماہ میں سب سے زیادہ گھمبیر ہے۔ کسی بھی اسپتال میں چلے جائیں مریضوں کی بھرمار نظر آئے گی جب کہ کورونا بڑھتا چلا جا رہا ہے، آج دنیا میں اس کے مریضوں کی تعداد پانچ کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ 13لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ پاکستان سمیت 192ممالک میں آج بھی یہ جڑیں پکڑ چکا ہے۔
پہلی لہر کے بعد دوسری لہر بھی زور پکڑ رہی ہے۔ یہ لہر اکتوبر 2020سے دنیا بھر میں شروع ہوئی۔ امریکا، برطانیہ، بھارت اور کئی یورپی ممالک میں روزانہ متاثرین کی تعداد ایک بار پھر مجموعی طور پر ہزاروں میں ہو گئی۔ دوسری لہر اس لحاظ سے تشویشناک ہے کہ کورونا کا سب سے زیادہ اثر معیشت پر پڑا ہے۔ دنیا بھر میں ایک بار پھر کاروبار تباہ ہو رہے ہیں، ایک بار پھر لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں اور قوت خرید میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ کورونا کے باعث کئی ماہ تک اسکول بند رہنے سے بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
جب کہ اگر پاکستان کی بات کریں تو پاکستان میں گزشتہ ایک ہفتے میں 4 ماہ بعد سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ جن کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہے۔ جب کہ کورونا کی پہلی لہر میں 13 جولائی کو پاکستان میں ایک روز کے دوران 2769 کیسز سامنے آئے تھے جس کے 4 ماہ بعد اب تقریباً تعداد 2547 پر جا پہنچی ہے۔ خیر یہ صورتحال تو ہر گھنٹے بدل رہی ہے، اور جب تک علاج ممکن نہیں ہوتا یہ بدلتی رہے گی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ قومی رابطہ کمیٹی پانی سر سے گزرنے کے بعد ہی کیوں فیصلے کر رہی ہے، اب شادی کی تقریبات یا بڑے اجتماعات پر پابندی لگانے سے کیا ہو گا؟ اور ویسے بھی گلگت بلتستان کے الیکشن میں عوام کو خوب اکٹھا کر کے ایک دوسرے کے اندر وائرس منتقل کیا گیا، اور حکومت کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ جب اپوزیشن نے جلسوں کا اعلان کیا تو حکومت نے بھی جلسے کرنے شروع کر دیے۔
چلیں دیر آئید درست آئید کے مصداق حکومت نے تو اجتماعات پر پابندی لگا دی لیکن PDM تو جلسے کرنے کی ضد پر اڑی ہوئی ہے اور آیندہ دنوں میں جلسے کرنے اور گلگت بلتستان الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دھرنے دینے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔ الغرض آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ کورونا کی دوسری لہر کے دوران سب سے زیادہ غیرذمے داری کا مظاہرہ حکومت اور سیاسی لیڈروں کی جانب سے دیکھا گیا ہے۔ پہلے پی ڈی ایم کے جلسوں اور پھر گلگت بلتستان کی انتخابی مہم کے دوران احتیاطی تدابیر کی جی بھر کر خلاف ورزی کی گئی۔ اب کہیں جاکر حکومت کو خیال آیا ہے کہ بڑے اجتماعات پر پابندی اور ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے سختی بجا ہو گی۔ میرے خیال میں اگر انھیں ذاتی مفادات عزیز نہ ہوتے تو یہ کبھی ایسے فیصلے نہ کرتے اور نہ ہی عوام کو موت کے منہ میں دھکیلتے۔
کیوں کہ یہ وہی لوگ ہیں جو کورونا وائرس کے خلاف سازشی تھیوریاں پھیلانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ ہم نے بھی اِس پورے سال میں کئی سازشی تھیوریاں سنیں، کسی نے کہا کہ بل گیٹس اپنی ویکسین بیچنے کی خاطر یہ وائرس پھیلا رہا ہے اور کسی نے فائیو جی کے کھمبوں کو وائرس پھیلانے کا ذریعہ قرار دیا۔ کسی نے وائرس کے متعلق عجیب و غریب پیشگوئیاں کیں تو کسی نے کووڈ کا علاج جڑی بوٹیوں سے بتایا۔ کوئی پیشگوئی درست ثابت ہوئی اور نہ ہی کوئی ٹوٹکا کام آیا، کسی سازشی تھیوری کا سراغ ملا اور نہ ہی فائیو جی کے کھمبے اکھاڑ کر کچھ نکلا۔ آج ہم سب کو اُس ویکسین کا انتظار ہے جو تیاری کے آخری مراحل میں ہے، سنا گیا ہے کہ یہ ویکسین پچانوے فیصد تک موثر ہے۔
ماہرین کے مطابق اس ویکسین کے استعمال سے اگلے موسم سرما تک دنیا اپنے معمول پر واپس آ جائے گی۔ ہمارا کام بس اتنا ہے کہ جب تک یہ ویکسین نہیں آتی، اُس وقت تک احتیاط کریں اور اگر خدانخواستہ آپ میں کورونا کی علامات ظاہر ہوں تو کچھ ایسی باتوں پر عمل کریں جن سے یہ بیماری بگڑنے نہ پائے۔ کیوں کہ اگر یہ مرض بگڑ گیا تو خاکم بدہن واپسی ممکن نہیں ہوتی، اور نہ ہی ہم کورونا کے مزید بگڑنے کا انتظار کر رہے ہوتے۔
اس لیے پہلی بات یہ ہے کہ کورونا وباء کا انکار نہ کریں۔ یہ درست ہے کہ ہرکھانسی یا بخار کورونا نہیں ہوتا، آج کل موسم تبدیل ہو رہا ہے جس سے لوگوں کو عام فلو بھی ہو رہا ہے مگر کورونا کی علامات مخصوص ہیں۔ جونہی یہ علامات ظاہر ہوں فوراً اِس کا ٹیسٹ کرائیں مگر ساتھ ہی اپنی چھاتی کا ایکسرے اور کچھ خون کے ٹیسٹ بھی کرالیں، مثلاً سی بی سی، ای ایس آر، ڈی ڈائمر وغیرہ، پوری تفصیل آپ کو کسی مستند ڈاکٹر سے مل سکتی ہے، ورنہ بیماری کو درگزر کرنے سے نقصان ہو سکتا ہے۔ ہمارے دوست صحافی ارشد وحید چوہدری کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
انھیں کچھ دنوں سے بخار، کھانسی وغیرہ تھی مگر وہ یہی سمجھے کہ عام موسمی بخارہے، اس میں کئی دن گزر گئے۔ جب کورونا کا ٹیسٹ کرایا، اُس وقت تک بیماری بگڑ چکی تھی۔ ارشد کو وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا اور پھر وہاں سے یہ ہیرے جیسا صحافی واپس نہیں آیا۔ حالیہ لہر میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کورونا کے باعث وفات پا گئے، وہ بھی پہلے معمولی بیمار تھے، لیکن جب تک انھوں نے کورونا ٹیسٹ کرایا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ پھر پشاور کے معروف ڈاکٹر عبدالقیوم بھی کورونا کے باعث جاں بحق ہوئے ہیں، اور سابق گورنر و رکن بلوچستان اسمبلی سید فضل آغا کورونا کے باعث جاں بحق ہونے والوں میں شامل ہیں۔
لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ مزید احتیاط برتے اور ایک مہینے کے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کرے، اس لاک ڈاؤن کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم کسی بڑی مشکل سے بچ جائیں گے، کیوں کہ جن ممالک نے احتیاط نہیں کی اُن کی حالت بھی سب کے سامنے ہے۔ اور جن ملکوں نے احتیاط کی وہ بھی سب کے سامنے ہیں جیسے تھائی لینڈ حکومت نے پورا ملک بند کر ا دیا، اس لیے آج وہاں ایک بھی کیس نہیں ہے۔ لہٰذا اگر ہم نے احتیاط نہ کی تو ہم کورونا کے حوالے سے دنیا کے بڑے متاثرہ ملکوں میں شامل ہو جائیں گے۔
شادی ہالز کو فوری بند کر نا چاہیے، مذہبی و سیاسی اجتماعات پر پابندی لگنی چاہیے، اس حوالے سے حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، اس کے لیے کہیں آئین میں تبدیلی بھی کرنا پڑے تواُس سے نہیں گھبرانا چاہیے، جب کہ عوام کو خطرات سے آگاہ کرنا بھی حکومت کی ہی ذمے داری ہے، ایسے عوامی فلاحی اقدامات اُٹھانے چاہئیں کہ عوام بروقت اس مرض کی تشخیص کر سکیں۔