آذربائیجان، آرمینیا جنگ: پاکستان اہم کیوں؟
جس طرح پاکستان اور بھارت کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے حریف ہیں، اسی طرح آذربائیجان اور آرمینیا دونوں روایتی حریف ہیں۔ 27 ستمبر سے دونوں ملکوں میں جنگ جاری ہے۔ ان ممالک کے درمیان پہلے بھی کئی بار لڑائی ہوچکی ہے لیکن اب کی بار عالمی سطح پر پاکستان کا نام بار بار کیوں لیا جا رہا ہے؟ آپ برٹش و امریکن میڈیا کو دیکھ لیں وہ بلیٹن میں پاکستان کو آذربائیجان اور ترکی کے ساتھ جوڑ کر لازمی بیان کر رہے ہیں۔ لگ یہی رہا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی بڑی گیم ہے۔
اِدھر متنازع علاقے "نگورنو کارا باخ" میں جنگ کے شعلے بھڑکے نہیں کہ اُدھر اُس کی تپش پاکستان میں بھی محسوس کی جانے لگی حتیٰ کہ بھارتی ذرایع ابلاغ میں بھی آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ پر ہونے والوں تبصروں میں پاکستان کا ذکر بڑھ چڑھ کر پیش کیا جانے لگا۔ جب کہ نہ تو پاکستان آذربائیجان کے پڑوس میں ہے اور نہ ہی آرمینیا پاکستان کا ہمسایہ ہے۔ مگر اُس کے باوجود بین الاقوامی ذرایع ابلاغ میں پورے شد و مد کے ساتھ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ پاکستان نے ترکی کو خوش کرنے کے لیے یا طیب اردوان کے اصرار پر آذربائیجان کی یکطرفہ حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔
علاوہ ازیں برطانوی خبر رساں ایجنسی نے اپنے ایک تجزیہ میں یہ تک بھی لکھنے سے گریز نہیں کیا ہے کہ طیب اردوان نے مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی جو حمایت کی ہے اُس کا احسان چکانے کے لیے پاکستان نے آذر بائیجان کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں ترکی جو آرمینیا کا ہمسایہ ملک ہے نے آذربائیجان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ جب کہ پاکستان نے دونوں ممالک کو صبر و تحمل سے کام لینے کی "درخواست" کی ہے۔ آذر بائیجان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جب کہ آرمینیا میں مسیحی مذہب کے ماننے والے اکثریت میں رہتے ہیں۔
حالیہ وقتوں میں ترکی نے سب سے زیادہ جس ملک میں سرمایہ کاری کی ہے، وہ آذربائیجان ہی ہے۔ آذر بائیجان اور آرمینیا کے مابین شروع ہونی والی اس جنگ کی خاص بات یہ ہے کہ فی الحال یہ معرکہ صرف ایک محدود سرحدی علاقہ میں جاری ہے۔ یہ علاقہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق آذربائی جان کا " نگور نوکارا باخ" کا علاقہ عالمی اداروں کے مطابق آذر بائیجان کا تسلیم شدہ علاقہ ہے لیکن اس پر آرمینیا کے قبضے کو بھی خاموشی سے تسلیم کر لیا گیا۔ صورتحال پچھلے برس سے بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہونا شروع ہوئی، جب ترکی نے آذر بائیجان سے دفاعی معاہدے کیے اور اسے فوجی امداد دینا شروع کی نیز آذربائیجان کی فوج کو اس قابل بنایا کہ وہ میدان جنگ میں ڈٹ کر لڑ سکے۔
لہٰذا اس بار جنگ میں آذربائیجان کو آرمینیا کے خلاف واضح برتری حاصل ہے اور اگر آرمینیا کو روس، ایران یا پھر ترکی مخالف عرب ممالک کی امداد حاصل نہ ہوتو آذربائیجان باآسانی اس علاقہ میں آرمینیا کی افواج کو شکست سے دوچار کر سکتاہے۔ لیکن جن عجیب و غریب حالات میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان اچانک سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس جنگ کو شروع کروانے والی عالمی طاقتوں کے دماغ میں کوئی بہت بڑا منصوبہ ہے، جس کی مد دسے وہ یقینا اُبھرتے ہوئے ترکی کو کمزور کرنا چاہتے ہوں گے۔ چونکہ پاکستان اور ترکی کے بڑے گہرے سفارتی مراسم ہیں، ا س لیے وہ پاکستان سے اس جنگ میں آذربائیجان کا ساتھ نہ دینے کا اعلان کروا کر ترکی اور پاکستان کے آپسی تعلقات کو بھی خراب کروانا چاہ رہے ہیں۔
لیکن میرے خیال میں شاید پاکستان آذر بائیجان کی درخواست پر اُس کا ساتھ دے کیوں کہ ماضی میں پاکستان اور آذربائیجان کے آپسی تعلقات بھی ہمیشہ خوش آیند رہے ہیں، جیسے 1991میں جب آذربائیجان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تو ترکی کے بعد پاکستان وہ دوسرا ملک تھا جس نے اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ جو ممالک سب سے زیادہ پاکستان میں تیار کیے گئے اسلحے کی خریداری کرتے ہیں، اُن میں آذر بائیجان سرفہرست ہے۔ جب کہ پاکستان بھی اپنی تیل اور توانائی کی دیگر ضروریات کے لیے اکثر و بیشتر آذربائیجان سے رجوع کرتا رہتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے نجی تجارتی ادارے جتنا زیادہ آذربائیجان کے شہر "باکو" کے پرفضا مقام پر کاروباری بیٹھکیں کرتے ہیں، شاید ہی کہیں اور کرتے ہوں۔ اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان بھڑکنے والے جنگ کے شعلوں کے مضر اثرات کس حد دنیا، یا ہمارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں تو اس کے لیے آنے والا ایک ہفتہ انتہائی اہم ہوگا۔ اگر آذربائیجان چند روز میں ہی آرمینیا کو متنازع بحران سے نکل جانے پر مجبور کردیتاہے تو یہ ترکی اور ہمارے خطے کے استحکام کے لیے انتہائی نیک شگون ہوگا۔ اس وقت ہے کہ آذربائیجان کی افواج کو اپنے حریف آرمینیا کی افواج پر واضح برتری حاصل ہے اور آرمینیا کی فوج کو میدانِ جنگ میں شدید ترین جانی و مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑرہاہے۔
لیکن اگر میدان ِجنگ کی یہ کیفیت برقرار نہیں رہ پاتی اور آرمینیا کو براستہ روس عسکری امداد میسر آجاتی ہے۔ پھر دونوں ممالک کی مکمل سرحد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گااور اس طرح یہ جنگ غیر معمولی حد تک طول بھی کھینچ سکتی ہے۔ اس لیے پاکستان کا یہاں سے امتحان شروع ہوتا ہے کہ وہ ترکی، آذربائیجان، روس اور اس مسئلہ سے جڑے تمام ممالک کے ساتھ کہاں تک اور کس حد تک ساتھ دیتا ہے۔ اور پاکستان کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اُس نے کس ممالک کے ساتھ مستقبل میں کس حد تک چلنا ہے اور کس حد تک رکے رہنا ہے۔ ورنہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ، یعنی نہ لینا نہ دینا تو خواہ مخواہ میں چمچہ گیری دکھانا کبھی کبھار مہنگا بھی پڑ سکتا ہے!