اراضی اسکینڈلز کی ’’روایت‘‘ نئی نہیں، پرانی ہے!
پاکستان کے مقدر میں شاید یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ یہاں آسمان سے اتر کر بھی حکومت آئے گی تو وہ بھی اسکینڈلز کی زد میں رہے گی، تو لیجیے جناب یہ حکومت کیسے اسکینڈلز سے پاک صاف رہ سکتی تھی۔ اس لیے موجودہ حکومت کا آٹا، چینی، پٹرول، آئی پی پیز، ادویات اسکینڈل کے بعد چھٹا بڑا اسکینڈل "راولپنڈی رنگ روڈ" اسکینڈل بھی حاضر خدمت ہے۔
لیکن اس حکومت اور سابق حکومت کے درمیان میں ایک فرق ضرور ہے کہ سابقہ ادوار میں جو اسکینڈل بھی منظر عام پر آتے، یا تو انھیں چھپا لیا جاتا یا اُس کے لیے کمیٹی بنا دی جاتی اور سب کچھ پس پشت ڈال دیا جاتا۔ لیکن موجودہ حکومت اس حوالے سے ذرا ہٹ کر کام کر رہی ہے کہ وہ ہر آنے والے اسکینڈل کی رپورٹ خود ہی منظر عام پر کر کے اپنی صفوں میں موجود مافیاز کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن مافیا ہے کہ فی الوقت تو ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اب اگر موجودہ اسکینڈل راولپنڈی رنگ روڈ کی بات کریں تو اس منصوبے کی رپورٹ بھی منظر عام پر آچکی ہے جس میں انھی " روایتی اور پرانے طریقوں " سے پیسہ کمانے کے انکشاف کیے گئے ہیں جو 73سالوں سے پاکستان کا حصہ رہے ہیں۔
اس منصوبے کی سابق دور میں راولپنڈی اور اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے منظوری دی گئی تھی۔ جس کے تحت راولپنڈی کے علاقے روات سے ایک سڑک تعمیر کی جانی تھی جسے راولپنڈی شہر کے باہر سے ہوتے ہوئے ترنول کو جی ٹی روڈ اور پھر موٹر وے کو ملانا تھا۔ اس رنگ روڈ کی تعمیر سے جی ٹی روڈ سے پنجاب سے صوبہ خیبر پختونخوا جانے والی ٹریفک اور بالخصوص ہیوی ٹریفک نے رنگ روڈ استعمال کرنا تھا جس کی وجہ سے اسلام آباد ہائی وے پر ہیوی ٹریفک کا دباؤ کم ہوناتھا۔
اس منصوبے کے لیے پیسوں کا بندوبست بھی ہو چکا تھا لیکن گزشتہ دور میں اس منصوبے پر عملی طور پر آغاز نہیں ہو سکا تھا اور 2018 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا، پھر اس منصوبے میں 26کلومیٹر کا اضافہ بھی ہو گیا، بہرحال ہوسکتا ہے کہ عثمان بزدار کے ساتھ ہاتھ کیا گیا ہو اور وزیرِ اعظم کو بھی اندھیرے میں رکھا گیا ہو۔
خیر اب تحقیقات ہوں گی تو پتہ چلے گا کہ اصل میں ہوا کیا ہے۔ مگر صاحب!مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں پہلی بار ایسا نہیں ہوا۔ وائٹ کالر کرائمز کی تاریخ پاکستان بننے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے، یہاں جب بھی یاجس دور میں بھی بڑے بڑے پراجیکٹس نہریں، ڈیم، بیراج اور سڑکیں بننا شروع ہوئیں حتیٰ کہ اگر کسی جگہ اسکول، کچہری یا منڈی بننی ہے تو اُس جگہ کی فزیبلٹی رپورٹ کے ساتھ وہاں کا نقشہ کھینچا جاتا اور اُسی نقشے کی جب خفیہ طریقے سے نقل اپنے عزیزوں، دوستوں کو سرکولیٹ کر دی جاتی تو پھر وہ وہاں جا کر پہلے ہی سستے داموں زمینیں خرید لیتے۔ اور جب مذکورہ پراجیکٹ بننا تو بہت دور جب اُس کا آغاز ہی ہوتا ہے تو متعلقہ سستی زمینوں کے ریٹ آسمان سے باتیں کرنے لگتے۔ اور انھی دہاڑیوں کی وجہ سے ہمارے "غریب "بیوروکریٹس، "غریب" سیاستدان دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے چلے گئے۔
مثلاََ جب 1993 میں لاہور اسلام آباد موٹروے شروع ہوئی تو وہاں اُس وقت بھی چند بااثر شخصیات کی زمینوں کو فائدہ دینے کے لیے موٹروے کا روٹ 100کلومیٹر لمبا کر دیا گیا، اُس سے مخصوص سیاسی خاندانوں نے نہ صرف مالی فائدہ اُٹھایا بلکہ ابھی تک اس کے ثمرات مل رہے ہیں۔ چنیوٹ میں ایک پل کی تعمیر قومی خزانے ہوئی۔
جب پل کا منصوبہ منظور ہوگیا تو اندر کی خبر رکھنے والوں نے چپکے سے سیکڑوں مربعے زمین خرید لی، خریداری مشن مکمل ہوا تو پھر پل بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔ یوں چند مہینو ںمیں جو زمین لاکھوں روپے کے حساب سے خریدی گئی تھی، وہ کروڑوں روپے میں جا پہنچی۔ رائے ونڈ روڈ سرکاری خزانے سے ڈبل ر کی گئی تو وہاں پر پراپرٹی کے ریٹ کئی گنا بڑھ گئے۔ اس کا فائدہ کن گھرانوں نے اٹھایا، وہ سب کے سامنے ہیں پھر گوادر پراجیکٹ شروع ہوا تو اُس سے ملحقہ زمینیں بھی لینڈ مافیا نے خرید لیں، پھر نیلم جہلم پراجیکٹس، منگلا، تربیلا پراجیکٹس الغرض ہر پراجیکٹ کا یہی حال رہا ہے۔
لہٰذاہمارا پورے کا پورا نظام ہی اسی ڈگر پر چل رہا ہے حتیٰ کہ جب بھی کہیں ایس ایچ او تعینات ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے محرر کو بلاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا "سین " ہے؟ محرر کہتا ہے کہ جناب! اس تھانے کی حدود میں اتنے جوا خانے ہیں، اتنے قحبہ خانے ہیں، اتنے ہوٹل اور گیسٹ ہاوسز ہیں، اتنے منشیات فروشی کے اڈے ہیں، اگر تھانیدار زور آور ہو تو وہ فوراََ ایک آدھ اڈے پر ریڈ کر کے علاقے میں اپنا رعب و دبدبہ بڑھا لیتا ہے، یوں باقی اڈے والے " صاحب" کے "ریٹس" بڑھا دیتے ہیں تاکہ وہ ریڈ سے محفوظ رہیں۔ بالکل اسی طرح جب کسی علاقے میں نیا ایس ڈی او آتا ہے تو اُسے بھی اسٹاف بتا دیتا ہے کہ فلاں فلاں جگہ پر چوری ہورہی ہے، اتنا مہینہ آتا ہے۔
جب مجسٹریٹ کہیں تعینات ہوتا ہے تو اُس کا ریڈر اُس کے پاس پہنچ جاتا ہے کہ سر فلاں وکیل اتنی منتھلی دے رہا ہے، فلاں وکیل اتنی۔ الغرض کوئی بھی اس سسٹم کو روکنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اُس میں مزید اضافے کی کوشش ہی کرتا ہے۔ بہرکیف اس بوسیدہ نظام میں وزیراعظم عمران خان معصوم آدمی ہیں۔
اُن کے پاس کسی بھی انکوائری کی رپورٹ آتی ہے تو نہ وہ پچھلی حکومتوں کی طرح ریکارڈ جلانے کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور نہ ہی فائلیں چوری ہونے کا ناٹک کرتے ہیں بلکہ وہ اُس رپورٹ کو فوری طور پر پبلک کردیتے ہیں۔ بادی النظرمیں انھیں چند عیارلوگوں نے گھیر رکھا ہے، یہ وہی لوگ ہیں جو پرویز مشرف کی حکومت میں ہوتے تھے، پھر پیپلزپارٹی میں آگئے، پھر ن لیگ میں چلے گئے اور اب تحریک انصاف میں آگئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس مسئلے میں سے کیسے نکلتی ہے؟