المناک حادثہ
عید سے دو روز قبل پاکستان میں ایک بار پھر فضائی حادثہ سو سے زائد قیمتی جانیں لے گیا۔ اس بار یہ حادثہ دو طرح سے خطرناک ثابت ہوا، پہلا جہاز کے اندر مسافروں کاجانی نقصان، دوسرا طیارے کا آبادی پر گرنے سے جانی و مالی نقصان۔ اس حادثے کو بھی چند روز میں بھلا دیا جائے گا مگر آیندہ کے لیے نہ تو کوئی سدباب کیا جائے گا اور نہ ہی کسی ذمے دار کا تعین ہو سکے گا۔
حیرت اس بات پر ہے کہ جس سفر کو دنیا بھر میں سب سے محفوظ ترین سفر تصور کیا جاتا ہے، وہ پاکستان میں بھیانک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، جیسے دنیا بھر میں ٹریفک حادثات کا تناسب سب سے زیادہ، ٹرین حادثات کا اُس سے کم اور ہوائی سفر سب سے محفوظ ہے۔ جس کے سالانہ مسافروں کی تعداد4.5ارب اور دنیا بھر میں فضائی حادثات سے ہلاک ہونے والے افراد کی سالانہ تعداد اوسطاً 2ہزار سے بھی کم ہے۔
یہ سفر اس لیے بھی دنیا بھر میں محفوظ سمجھا جاتا ہے کہ اس میں جہاز بنانے والی کمپنیوں سے لے کرائیرپورٹ کے انتظامات( سول ایوی ایشن اتھارٹیز) تک ہر جگہ انتہائی قابل ماہرین ایک ایک نکتے کی نوک پلک سنوارنے کا کام کرتے ہیں، اورچھوٹی سے چھوٹی غلطی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ لیکن پاکستان میں ائیرلائنز، ائیر پورٹس اور اتھارٹیز سب دنیا بھر میں پیچھے رہ گئے ہیں۔
یاد رہے پی آئی اے وہی ائیر لائن تھی جو 70کی دہائی میں دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں شمار ہوتی تھیں۔ ایئر مارشل اصغر خان اس کے سربراہ تھے تو پروازوں کے آغاز کے وقت ان میں کی جانے والی انائونسمنٹ میں ایسے الفاظ استعمال نہیں ہوتے تھے جن سے خوف پر قابو پانے کی کسی کوشش کا عنصر نمایاں ہوتا ہو۔ ایئرمارشل نے ایک انٹرویو میں اس کی وجہ یہ بیان کی کہ آپ اگر نہانے کے لیے باتھ روم جارہے ہوں تو کبھی اپنے اہلِ خانہ پرزور دے کر یہ یقین دلانے کی کوشش نہیں کرتے کہ ابھی غسل خانے سے آ کر ناشتہ کرتا ہوں۔ کچھ الفاظ آپ اُس وقت کہتے ہیں، جب طویل سفر پر روانہ ہو رہے ہوں یا کسی پُر خطر مہم پر گھر سے نکل رہے ہوں۔
ایئر مارشل کے بقول وہ پی آئی اے کا سفر اتنا ہی محفوظ بنا دینا چاہتے تھے، جتنا غسل خانے سے نہا کر آنا۔ بعض الفاظ کہنے سے خطرے کا احساس پیدا ہوتا ہے، اس لیے ان الفاظ کی باآواز بلند ادائیگی غیر ضروری تھی (انھیں آہستگی سے ادا کیا جا سکتا تھا) ایئرمارشل کی اس توجیہہ سے اتفاق نہ کرنے والے بھی، اس بات کی داد تو دیں گے کہ ان کے ذہن میں ایئر لائن کو محفوظ سے محفوظ تر بنانے اور سمجھنے کی اہمیت کیا تھی، اور اس کا معیار کیا تھا۔ اس کے علاوہ اُس وقت لانگ رینج طیارہ حاصل کرنے والی پی آئی اے پہلی فضائی کمپنی تھی جس کے پاس دنیا کی طویل ترین پرواز کا ریکارڈ ہے۔ 1962ء میں ایشیا کے صرف دو ممالک کی ایئر لائنز کے پاس جیٹ طیارے تھے ان میں سے ایک پاکستان تھا، دوسرا جاپان۔ جناب فیض احمد فیض نے پی آئی اے کے لیے "باکمال لوگ لاجواب سروس "کا ماٹو تجویز کیا۔
اس وقت بھی پی آئی اے کے پاس 40کے قریب طیارے موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر کی عمریں 20سال سے زائد ہیں اور اسٹاف فی طیارہ 388ملازم ہیں جو کم و بیش 15ہزار سے زائد بنتے ہیں، جب کہ دنیا بھر میں یہ تناسب 130سے 150ملازمین ہوتا ہے۔
ہر سیاسی جماعت نے سیاسی بھرتیاں کر کے اس ائیر لائن کو مشکل میں ڈالا، ذاتی فوائد حاصل کیے۔ المختصر جس نے دنیا کی کئی ایئر لائنز کو اؤورٹیک کرایا اور دنیا بھر میں اپنا سکہ جمانے والی امیریٹس (عرب امارات )کی بنیاد بھی رکھی، 3عشروں تک مسلسل کامیابیاں چھونے والی پی آئی اے اب ویسی نہیں رہی ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں جن ائیر لائنز کو بنانے میں پاکستان نے معاونت کی وہ ائیر لائنز دنیا کی ٹاپ ٹین رینکنگ میں ہیں، اُن کے طیارے قابل رشک اور اُن کا سسٹم قابل ستائش ہے اس وقت دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں پہلے نمبر پر قطر ائیر ویز، دوسرے نمبر پر سنگاپور، تیسرے نمبر پر اتحاد ائیر ویز، چوتھے نمبر پر جاپان (All Nippon) ائیر لائن، پانچویں نمبر پر Cathay Pacific (ہانگ کانگ) اور چھٹے نمبر پر امارات ائیر لائنز۔ اور رہی موجودہ حادثے کی بات تورواں برس کے دوران یہ تیسرا فضائی حادثہ ہے۔ پاکستان کی 72سالہ تاریخ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اب تک پاکستان کی فضائی حدود میں 83حادثے ہو چکے ہیں۔ جہاں تک پی آئی اے کی بات ہے تو حالیہ حادثے کو شامل کر کے 21حادثات پیش آئے ہیں۔ خطے کے دیگر ممالک بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں مسافر بردار جہازوں کے حادثات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
رپورٹس ہیں کہ بلیک باکس کو ڈی کوڈ کرنے میں 2ماہ لگ جائیں گے، آج تک جتنے حادثات ہوئے ہیں، اُن کی بلیک باکس انکوائری کا آج تک کسی کو علم نہیں ہوا، کسی انکوائری رپورٹ کو آج تک پبلک نہیں کیا گیا ہے۔ اور ویسے بھی بلیک باکس ہمیشہ طیارہ بنانے والی کمپنی کے پاس جاتا ہے، وہ کمپنی کبھی اپنے خلاف رپورٹ نہیں بنائے گی، اور نہ ہی اُس حکومت کے خلاف رپورٹ تیار کرے گی جس نے اُس سے جہاز خریدے ہوں۔ نہ ہی ان کے خلاف کارروائی ہوگی جو ائیر پورٹس کے قریب غیرقانونی سوسائٹیاں بنانے کی اجازت دیتے ہیں، ایسی سوسائٹیاں اپنے مارکیٹنگ ہتھکنڈوں میں اس بات کو نمایاں کرتی ہیں کہ وہ ایئر پورٹ سے اتنے منٹ کی دوری پر ہیں۔ اس مسلسل عمل نے عام لوگوں میں کشش پیدا کی کہ وہ ایئر پورٹ کے قریب گھر بنائیں۔ دیگر ممالک کے ایئر پورٹس گنجان آبادی سے خاصے فاصلے پر بنائے جاتے ہیں۔ ان ایئر پورٹس کے قریب آبادی کی اجازت نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں چونکہ انفرادی اور ادارہ جاتی سطح پر قانون شکنی کو برائی نہیں سمجھا جاتا اس لیے کوئی ادارہ یا حکومت ہوائی اڈوں کے پاس آبادی کو روکنے کے لیے کبھی سرگرم نہیں ہوئی۔
جیسے پیرس کا ہوائی اڈہ شہر کے مرکز سے 101 کلومیٹر دور ہے، میونخ کا ہوائی اڈہ 115کلومیٹر، نیویارک کا 27کلومیٹر، بینکاک 50کلومیٹر، کوالالمپور40کلومیٹر، جدہ 32 کلومیٹراور سنگاپور کا ائیرپورٹ سے فاصلہ 28 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ جب کہ پاکستان کے تمام ہوائی اڈے آبادیوں کے بیچ میں ہیں۔ اسلام آباد میں واقع بے نظیر انٹرنیشنل ائیر پورٹ قدرے آبادی سے ہٹ کر ہے مگر وہ بھی جلد ہی آبادی کے جھرمٹ میں ہوگا۔ کراچی ائیر پورٹ کو دیکھ لیں، ماڈل کالونی جہاں حادثہ ہوا ہے وہ محض 2کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ آپ علامہ اقبال انٹرنیشنل جو لاہور کی بڑھتی ہوئی آبادی کے بعد لاہور کے مرکز میں آچکا ہے۔ یہ ائیر پورٹ 1962میں بنا تھا، حیرت ہیں کہ جس جگہ کا انتخاب کیا گیا وہ بالکل بارڈر کے قریب ہے۔ ائیر پورٹ مشرق کے بجائے مغرب کی طرف بننا چاہیے تھا، اگر شیخوپورہ سائیڈ پر ائیر پورٹ بن جاتا تو نہ ہی فیصل آباد میں ائیر پورٹ بنانے کی ضرورت تھی اور نہ سیالکوٹ میں اور نہ ہی سرگودھا میں۔
لہٰذا حکومت کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ مزید گہرے کنویں میں جاگریں گے، میرے خیال میں ایک اہم تجویز ہے کہ بھرتیوں کا بھی سی ایس ایس کی طرز پر امتحان ہونا چاہیے تاکہ قابل اور بغیر سفارش کے لوگ اس ائیر لائن کو سنبھال سکیں۔