بڑا ہولینے دو
یہ گیارہ مارچ 1948ء کا ایک خوشگوار دن تھا، مسلم لیگ کے چارٹر سے پاکستان دنیا کے نقشے پر آچکا تھا، قائد اعظم بیماریوں کے ساتھ ساتھ اس نوزائیدہ مملکت کے دشمنوں سے بھی پنجہ آزمائی کر رہے تھے۔ پاکستان پڑوسیوں کے معاملے میں کچھ زیادہ خوش نصیب واقع نہیں ہوا۔ ایک طرف افغانستان تھا جس نے ماتھے پر آنکھیں رکھی ہوئی تھیں اور دوسری جانب بھارت تھا جسکی قیادت پاکستان کی عمر چھ ماہ سے زائد نہ سمجھتی تھی۔ مسلم لیگ کے قیام پاکستان کے مطالبے پر نہرو کی بے اعتنائی سے کی گئی یہ پیشن گوئی کہ انہیں بنا لینے دو پاکستان، چھ ماہ بعد یہ ہمارے ہی پاس واپس آئیں گے۔۔۔ غلط ہوچکی تھی جسے درست قرار دینے کے لئے بھارت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا۔ دو نوزائیدہ ملکوں کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی تھی۔ اس تناؤ کے ماحول میں سوئٹزرلینڈ کے صحافی اسٹرڈی ایرک اسٹریف قائد اعظم کے سامنے بیٹھے انٹرویو لے رہے ہیں، وہ قائد اعظم سے سوال کرتے ہیں " کیا ایسی کوئی امید ہے کہ ہندوستان اور پاکستان اختلافات اور تنازعات کے پرامن تصفیے کی راہ نکال لیں گے؟ " جواب میں قائد اعظم نے سوئس صحافی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پاکستان کا ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا بیانیہ بیان کیا، پتلے دبلے قائدنے سوئس صحافی سے کہا"جی ہاں، بشرطیکہ ہندوستان احساس برتری ختم کرکے پاکستان کے ساتھ برابری کی سطح پر معاملات اورحقائق کا ادراک کرے "۔
لیکن کیا کیا جائے کہ72ء سال ہونے کو ہیں بھارت احساس برتری کے زعم سے نکلا نہ پاکستان نے اس کی برتری تسلیم کی، یہ خطہ تب سے اسی تناؤ میں ہے۔ اس برتری کے لئے بھارت اور پاکستان میں اسکواش کے برٹش اوپن کی طرح Best of Threeکی تین جنگیں ہو چکی ہیں مگر بھارت اپنے حق میں فیصلہ نہیں لے سکا لیکن اس نے کوشش بھی ترک نہیں کی وہ پاکستان کو مختلف سمتوں سے گھیرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ سفارتی دباؤ کا حربہ، عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں، تجارتی مسابقت، تہذیبی تصادم، پاکستان میں انتشار اور اسے داخلی مسائل میں الجھا ئے رکھنے کی سازشیں۔۔۔ اس وقت بھارت سفارتی میدان میں پاکستان کو پچھاڑنے کیلئے چانکیہ کے سارے گر آزما رہا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ پاکستان کا امیج اتنا برا کر دیا جائے کہ پھر جو بھی کہا جائے وہ سچ لگے، بھارت جھوٹ کے جیٹ پر سوار ہو کر دنیا بھر میں لینڈنگ اور ٹیک آف کرتا پھر رہا ہے۔ ظاہر ہے پاکستان کو بھی اس کا تعاقب کرنا پڑتا ہے لیکن سچ یہی ہے کہ بھارت کی پوزیشن الزام لگانے والی او ر ہماری دفاعی ہوتی ہے وہ مظلوم بن کر دنیا کے سامنے پہنچتا ہے اور ہمیں اسکے مکر کا پردہ چاک کرنا پڑتا ہے جھوٹ ریا اور مکر فریب کی اس سفارت کاری میں اسے سو کروڑ کی آبادی کا سب سے بڑا ایڈوانٹیج ہے، وہ بڑا ملک ہے سو کروڑ انسانوں کی مارکیٹ ہے۔
پاک بھارت سفارت کاری پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس سنجیدہ اور پروقار سفارت کار ٹھنڈے سپاٹ اور مہذب لہجے میں عالمی فورمز پر کس طرح ایک دوسرے سے الجھتے ہیں۔ پہلے بھارت مظلومیت کا رونا روتا تھالیکن بھارتی دہشت گرد اور حاضر سروس فوجی افسر کل بھوشن کی گرفتاری کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی ہے۔ اب پاکستانی سفارت کارمہذب مگر جارحانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پربھارتی ڈراموں سے پہلے ہی عالمی فورمز پر بات رکھنے کی اسٹرٹیجی ناکام نہیں کہی جاسکتی۔ حال ہی میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھارتی دہشت گردی سے متعلق ٹھوس شواہد پر مبنی ڈوزئیر پیش کیا اور یہ پہلی بار نہیں پیش کیا گیااس سے پہلے ان کی پیش روملیحہ لودھی نے بھی اسی نوعیت کے تین ڈوزئیر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بانکی مون کے حوالے کر کے بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں بھارتی مداخلت کے شواہدسامنے رکھے تھے۔ اس کے بعد 2017ء میں پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہونے والی بھارتی آبدوز کے وڈیو ثبوت، کل بھوشن یادو کے اعترافی بیانات اور دیگر دستاویزات پر مبنی ڈوزئیر بھی پیش کیا گیاتھا ان سے اتنا ہوا کہ بھارت کواپنی جارحانہ پالیسی ترک کرنا پڑی۔ اقوام متحدہ میں بھارتی مشن کا ترجمان جھنجلا گیااوربولا کہ پاکستان چاہے تو چھتوں پر چڑھ کر چیخے چلائے لیکن وہ یہ سچ نہیں بدل سکتا کہ وہ دہشت گردی کا مرکز ہے"۔
بھارتی مشن کے ترجمان کا یہ لب و لہجہ ان کی جھنجلاہٹ سفارت کاری کے محاذ پر انکے بے اثرحملوں کے تسلسل کی چغلی کھارہی ہے۔ ایساہی خیال گذشتہ دنوں گھر کے لان میں دھوپ لیتے ہوئے فارن سروس سے ریٹائرڈ ہونے والے ایک اعلیٰ افسر کابھی تھا۔ وہ میڈیا سے دور رہنا چاہتے ہیں لیکن کبھی کبھار مجھے ان کے ساتھ چائے پینے کا موقع مل جاتا ہے میں نے انہیں بھارتی مشن کے ترجمان کے لب ولہجے پر متوجہ کیا تو کہنے لگے سفارت کار کو غصہ نہیں آتا ڈپلومیٹس کی کتاب میں غصہ، جھنجلاہٹ شکست کا اعتراف ہے، بھارتی مشن کے ترجمان کی جھنجلاہٹ سے ہمیں محظوظ ہونا چاہئے لیکن صرف ڈوزئیر دے دینا ہی کافی نہیں اسے لے کر دنیا کے پاس جانا ان تک اپنی بات پہنچانا اور اس کے لئے مختلف اور موزوں فورمز کا استعمال بھی کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے سفارتکار متحرک تو ہوئے ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ ہماری اپنی صفوں سے نابالغ سیاستدان بھی متحرک ہیں یہ لوگ بتیس دانتوں میں چار انچ کی زبان نہیں سنبھال سکتے یہ جو ایاز صادق ہے اسے ہی دیکھ لیں انہوں نے جو بیان دیا ہے اس پر تو مسلم لیگ ن کو خود ایکشن لینا چاہئے تھا۔ انہوں نے الٹا شاباشی دی کوئی سوچے کہ پارلیمان کا کسٹوڈین رہنے والا شخص ایسا غیر ذمہ دارآنہ بیان کیسے دے سکتا ہے اور پھران نابالغوں کی فہرست میں شامل کچھ اصحاب نے تو بہت کچھ قبول کرلیا جسے بھارت اپنے ڈوزئیر میں شامل نہ کرے تو مجھے حیرت ہو گی خدا کے لئے ان بالغوں کا پارلیمنٹ میں داخلہ بند کروائیں، ذرا بڑاہو لینے دو۔