طالب علموں میں اعتماد کی بحالی، قومی خدمت
آج کل میٹرک کے امتحانات شروع ہیں، میرے گھر میں ان کی وجہ سے گہما گہمی ہے۔ میری پوتی میٹرک کے سال اول کا امتحان دے رہی ہے جسکی وجہ سے گھر کے سب افراد مصروف ہیں خصوصاً بچی کے والدین اور انھوں نے اپنے آپکو اس کی ڈیوٹی پر مامور کر رکھا ہے۔ اس کی والدہ اس کے کھانے پینے کا خیال رکھ رہی ہے جب کہ اس کا والد امتحان کے سینٹر کے باہر بیٹھ کر اس کا انتظار کرتا ہے اور پرچہ مکمل ہونے کے بعد بیٹی کوگھر پہنچانے کے بعد اپنے دفتر روانہ ہوتا ہے۔
اس مصروفیت سے مجھے اپنا زمانہ یاد آ گیا، جب سے امتحان کا سلسلہ شروع ہوا نقل بھی تب سے چل رہی ہے۔ تیسری جماعت کے امتحان میں میں نے خود نقل ماری تھی، اس کا جواب بھی غلط تھا لہذا میرا بھی غلط ہو گیا اور اس کی وجہ سے میں اپنی جماعت میں دوسرے نمبر پر رہا۔ اگر میں نقل نہ مارتا تو مجھے حساب کے اس سوال کا صحیح جواب آتا تھا، اس کے بعد میں نے کبھی نقل نہ ماری۔ اگرچہ کامیابی بمشکل ہوتی رہی لیکن کامیابی اور ناکامی سب کی اپنی ہوا کرتی تھی۔
ہمارے زمانے میں نقل ضرور چلتی تھی مگر بہت محدود اور اس میں استادوں اور ممتحن حضرات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا تھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کمرہ امتحان میں کوئی استاد یا ممتحن کسی امیدوار کی مدد کر سکتا ہے جو طالب علم نقل کرتے تھے، وہ صرف اس حد تک ہوا کرتی تھی کہ فیل ہونے سے بچ جائیں۔ نمبر بڑھانے اور ڈویژن بڑھانے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ نقل والے تھرڈ ڈویژن میں پاس ہو جاتے تھے۔
ہمارے دیہات میں سفارش کا بہت رواج ہے اور سفارش تلاش کرنے کا جتنا ہنر دیہات والوں کو آتا ہے، اتنا شہری لوگوں کو نہیں آتا۔ پٹواری سے لے کر تحصیل دار تک اور حوالدار سے لے کر تھانیدار تک سفارش چلتی ہے اور اس سے آگے ڈپٹی کمشنر اور جج بھی سفارش کی مار کھا جاتا ہے۔ چنانچہ کسی امتحان میں پاس ہونے کے لیے چونکہ نقل ممکن نہیں ہوتی تھی اور امتحان کی حد تک کسی مرحلے پر کوئی چکر نہیں چل سکتا تھا، اس لیے امتحان کے بعد ممتحن کی تلاش شروع ہوتی تھی اور ممتن بالعموم کسی امیدوار کو فیل ہونے سے بچا لیتے تھے ا س سے زیادہ کچھ نہیں۔ پروفیسر دلاور حسین مرحوم جیسے خوشگوار اور نہایت ہمدرد استاد کے پاس ایک بزرگ حاضر ہوئے جن کے ہمراہ طالب علم بھی تھا۔
پر وفیسر صاحب نے باپ بیٹے کو دیکھتے ہی بیٹے سے کہا کہ برخوردار سامنے والی الماری کے اوپر جو پرچہ پڑا ہے اٹھا لائو۔ جب لڑکا پرچہ لایا تو پروفیسر صاحب نے پوچھا کہ یہ تمہارا ہی ہے نا کیونکہ تم آخری سفارشی ہو اور یہ پرچہ بھی آخری ہے۔ اسی لیے میں نے تم سے پوچھا ہی نہیں کہ کیوں آئے ہو۔ دوسرے تمام پرچوں کے سفارشی کام کرا گئے ہیں۔
اس لطیفے میں شاید کچھ مبالغہ بھی ہو گا کیونکہ پروفیسر مرحوم و مغفور کے بارے میں لوگ کچھ مبالغہ کر دیتے تھے لیکن اس طرح کی بے ضرر سفارش بہت چلتی تھی مگر ان جیسے وضع دار لوگوں کے رخصت ہونے کے بعد تو دنیا ہی بدل گئی ہے اور امتحان مذاق ہی نہیں المیہ بھی بن گئے ہیں کہ ایک طالب علم جس نے پڑھائی میں مغز مارا وہ پیچھے رہ گیا اور نقال اس سے زیادہ نمبر لے گیا۔ گزشتہ کئی برسوں سے طالب علموں کے امتحانوں میں اتنے زیادہ نمبر آتے رہے ہیں جس کی ایک وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ طلبہ کا پڑھائی کی جانب رجحان بڑھ گیا ہے۔
تعلیمی میدان میں حکومت کی کوششوں سے نقل کے تدارک کے لیے بہت کام کیا گیا ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہو ئے ہیں ورنہ پہلے تو امتحانات میں نقل کا عمل دخل اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ طلبہ نے تعلیم میں دلچسپی لینی چھوڑ دی تھی اور امتحان پاس کرنے کا دارومدار نقل پر منتقل کر دیا تھا۔ پیشہ ورانہ کالجوں میں لائق طلبہ کم اور نالائق زیادہ داخل ہو جاتے تھے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طلبہ نے پڑھنا چھوڑ دیا اور امتحان کے لیے پیسے جمع کرنے شروع کر دیے۔
ہمارے ہاں تعلیم کی اوسط پہلے بھی نہ ہونے کے برابر تھی اور ان جعلی امتحانوں نے تو تعلیمی اداروں میں قابلیت ہی ختم کر دی۔ نوجوان نسل کا اعتماد اٹھ گیا اور انصاف سے مایوسی زندگی کا حصہ بن گئی۔ صرف امیدوار ہی نہیں قوم بھی حکومتوں سے مطالبہ کرتی رہی کہ وہ اس دھاندلی کو روکے جو کالجوں سے یونیورسٹیوں تک پھیل گئی تھی اور قوم کی نئی نسل کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہی تھی۔
انھی عوامی مطالبوں پر ماضی میں شہباز شریف کی حکومت نے تعلیمی بدعنوانی کے خلاف کارروائی شروع کی اور اس کام میں اس حدتک دلچسپی لی کہ طالب علم ایک بار پھر پڑھائی کی جانب متوجہ ہو گئے اور میری ناقص اطلاعات کے مطابق ہیرا پھیری اب بھی ہوتی ہے لیکن اس ہیرا پھیری سے صرف تھرڈ ڈویژن والے ہی نکلتے ہیں، لائق اور ذہین طالب علم اپنی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر ان تھرڈ ڈویژن والوں کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔
ان تعلیمی بدعنوانیوں کے خلاف تسلسل سے حکومتی کارروائیوں کی وجہ سے طالب علموں کے نتائج مختلف آرہے ہیں، بچوں اور ان کے والدین کی طرف سے ان حکومت کارندوں کے لیے بے شمار دعائیں ہیں جن کی امتحانوں میں ہمہ گیر سطح پر دھاندلی کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے ان کو محنت کا پھل ملنا شروع ہو گیا ہے اور ان کا تعلیمی نظام پر اعتماد بحال ہو گیا ہے، اب کوئی نالائق مگر صاحب حیثیت اور بد معاش ان کی حق تلفی نہیں کر سکتا۔
نوجوانوں میں اعتماد کی یہ بحالی ایک بہت بڑی قومی خدمت ہے، یہ قوم کے مستقبل کو محفوظ کرنے والی بات ہے۔ میٹرک جیسے بنیادی امتحان کو شفاف بنانے کی کامیاب کوششیں اس بات کی جانب مثبت قدم ہے کہ تعلیمی اداروں میں میرٹ ایک بار پھر زندہ ہو گیا ہے۔ اب پڑھنے والے پڑھ سکتے ہیں اور نہ پڑھنے والے تعلیمی اداروں کا ماحول خراب نہیں کر سکتے۔ میں ان تمام حکمرانوں کا شکر گزار ہوں جنھوں نے طالب علموں کے مستقبل کو محفوظ بنایا ہے اور والدین کی جانب سے ان کے لیے دعا گو ہوں۔