تالی ایک ساتھ
سیاست کا بے رحم چکر چل رہا ہے۔ غیر سیاسی مفاداتی جنگ میں سب کچھ جھونک دینے کی باتیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ سیاسی عمل کو سیاسی طریقے سے آگے بڑھانے کے بجائے ڈنڈے کے زورپر اور زور زبردستی، ذاتی مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے غریب اور سادہ لوح عوام کو ملک میں افراتفری اور بگاڑ پھیلانے کے لیے استعمال کرنے کے واضح اشارے دیے جارہے ہیں۔
ہمارے سیاستدان جب اپنی سیاست میں ناکام ہو جائیں تو بعض اوقات ان کو اپنی سیاست کو زندہ کرنے کے لیے لاشوں کی ضرورت پڑتی ہے، اس طرح کی گفتگو پاکستان میں پہلی دفعہ نہیں سنائی جارہی، ماضی میں بھی ہمارے کئی رہنماء لاشوں کی سیاست کرتے رہے ہیں۔ موجودہ ترقی یافتہ اور سیاسی شعور کے دور میں مولانا فضل الرحمن نے اس طرز سیاست کو زندہ کرنے کی بات کی ہے۔ میں مولانا کی باتیں سن کرکبھی حیران نہیں ہوا کہ ماضی میں کئی ایسے لیڈروں کے اس طرز سیاست کا عینی شاہد ہوں جنہوں نے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے عوام کو اپنی بھٹی کا ایندھن بنایا۔
عوام کو پیپلز پارٹی کا وہ کارکن یاد ہو گا جس نے بھٹو صاحب کے لیے لاہور کے گورنر ہائوس کے سامنے اپنے آپ کو آگ لگا دی تھی، اس کو مقامی لیڈروں نے یہ یقین دلایا تھا کہ تم آگ لگائوہم بجھا دیں گے لیکن وہ کارکن جل کر مر گیا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ جنوبی پنجاب کے ایک شہر میں پیش آیا تھا جہاں پر بھٹو صاحب نے جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ انھوں نے مقامی ڈی سی کو سفارش کرائی کہ وہ ان کے جلوس پر لاٹھی چارج کردیں تا کہ عوام مشتعل ہو جائیں، بعد کی صورتحال وہ خود سنبھال لیں گے۔
ایسا ہی عندیہ مولانا فضل الرحمن نے بھی دیا ہے وہ کہہ رہے ہیں ہم گولیاں کھائیں گے، لاشیں اٹھائیں گے، شہادتیں لیں گے کیونکہ ہم جہاد کرنے کے لیے نکلے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ مولانا صاحب آپ کس کے ساتھ اور خلاف جہاد کرنا چاہ رہے ہیں۔ ایک مسلمان غازیوں سے محبت کرتا ہے۔ جہاد اس کے ایمان کا حصہ ہے اور اگر بطور مسلمان دیکھا جائے تو جہاد کی ضرورت تو اس وقت کشمیر میں ہے جس کی کمیٹی کے مولاناایک مدت تک سربراہ رہے ہیں لیکن عین اس وقت جب کشمیر کا مسئلہ دنیا بھر میں زور پکڑ رہا تھا، انھوں نے آزدی مارچ شروع کر کے مبینہ طور پرکشمیر کے مسئلے کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنا مارچ کشمیر کی آزادی کے لیے کرتے تو یہ قوم مل کر آپ کا ساتھ دیتی۔
احتجاجی سیاست اپوزیشن کا حق اور سیاست کا لازم جزو ہے لیکن اپوزیشن کویہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے مفادات کی خاطر ملک کے عوام کودانستہ قربانی کی بھینٹ چڑھا دے۔ میں ارباب اختیار سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہم جس آزاد ملک میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے، جس ملک نے ہمیں شناخت دی، جس ملک نے ہمیں عزت دی، ہمیں باعزت روزگار دیا، جس ملک کے لیے میرے آبائو اجداد نے قربانیاں دیں، جس ملک میں میرے آبائو اجداد مدفون ہیں اور جس کی مٹی میں ہمیں دفن ہونا ہے کیا یہ ملک حاصل کرنے کے لیے اس لیے یہ قربانیاں دی گئیں تھیں کی چند لوگ اس ملک کی تقدیر کے فیصلے کریں اور قربانیاں دینے والے عوام کو اپنے مفادات کے لیے لاشوں میں تبدیل کر دینے کی باتیں کریں۔
یہ میرا ملک ہے اس ملک کی قدر ان سے پوچھیں جو غریب الوطنی میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں، میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ مجھے میرے اجداد نے ایک آزاد ملک کا تحفہ دیا تھا جنہوں نے اس آزادی کے لیے کئی لاشیں اٹھائیں۔ اب ہمیں کون سی آزادی چاہیے جس کے لیے مولانا کومزید لاشوں کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ ان کو اس ملک و قوم نے بہت کچھ دیا ہے ان سے کچھ لیا نہیں ہے پھر وہ کس بات کا اس ملک سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی ذاتی انا کے لیے اپنے معصوم مقتدیوں کو لاشوں میں تبدیل کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیا وہ اس قوم کو بتا سکتے ہیں کہ وہ ملک میں افراتفری، انتشاراور خون کی سیاست کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ملک کو کیوں فارغ کرنا چاہتے ہیں اور اس ملک کو پنپنا دیکھنا نہیں چاہتے، کیا وہ اس بات کو سچ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ وہ جمعیت علمائے ہند کی ذیلی شاخ کے طور پر ان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
پاکستان ان بد نصیب اور بد قسمت ملکوں میں سے ہے جو آمریت کا مزابار بار چکھنے پر مجبور کیے گئے اور یہ عجیب صورتحال ہے کہ پاکستانیوں کو اپنے جمہوری حکمرانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ایسے دن دیکھنے پڑتے ہیں اور جمہوری حکمرانوں کی نااہلیوں اور خرابیوں کی وجہ سے وہ بار بار جمہوریت سے محروم کیے گئے۔ اگر جمہوری حکمران ذمے دار اور دیانت دار لوگ ہوں تو کسی آمرکو موقع ہی نہیں ملتا۔ ہماری یہ تاریخ ہمارے سامنے کھلی ہوئی ہے۔
پہلے بھی عرض کیا ہے کہ بڑی مشکل سے پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل قائم ہوا ہے اسے قائم ہی رہنے دیں تا کہ جمہوریت کی چھاننی سے چھن کر اچھی قیادت سامنے آ سکے اور اس کا آغاز ہو چکا ہے۔ شاید یہی وہ وجہ ہے کہ ہمارے جماندرو سیاستدان اس کوشش میں ہیں کہ ان کو اس چھاننی سے گزرنانہ پڑے لیکن اب وہ وقت آگیا ہے عوام اپنے سیاسی رہنمائوں کو پرکھ رہے ہیں، ان کی حرکتوں کا بغور معائنہ کر رہے ہیں اور اپنا آیندہ کا لائحہ عمل طے کر رہے ہیں۔
اپوزیشن کی رہبر کمیٹی اور حکومتی نمائندوں میں مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے لیکن یہ موقف سامنے آیا ہے کہ یہ سب وقت گزاری کے لیے کیا جارہا ہے جو کہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ قوم اپنے رہنمائوں کی طرف دیکھ رہی ہے اور پر امید ہے کہ حکومت اپوزیشن مذاکرات کامیاب ہوں گے اور ملک میں افہام و تفہیم کی فضا ء کو فروغ ملے گا۔ کسی ایک فریق کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ملک کا بہت نقصان ہو گا۔ آئیے تالی دونوں ہاتھوں سے بجائیں اورملک کو آگے لے جائیں، پہلے ہی بہت وقت ضایع ہو چکا ہے۔ اس بات کا ثبوت دیں کہ ہم ایک جمہوری اور محب وطن قوم ہیں۔