پاکستان میں کرکٹ کے آباد میدان
مجھے کرکٹ کے متعلق اتنی ہی شد بد ہے جتنی کرکٹ کے ایک عام شائق کو ہوتی ہے کہ گھر میں آرام دہ صوفے پر بیٹھ کر کرکٹ کا میچ دیکھ لیا اور وہ بھی اس صورت میں کہ گھر کا کوئی بچہ ٹیلی ویژن پر میچ لگا دے۔ اپنا تو پیشہ اور شوق صرف خبریں ہی دیکھنا ہے جن سے روزی روٹی کی کوئی صورت نکل آتی ہے ورنہ آج کل تو اخبار نویسوں کی کڑکی کے دن ہیں جن کو اخبار نویس بڑی ہمت کے ساتھ بھگت رہے ہیں۔
کرکٹ کی یاد مجھے یوں آئی کہ گزشتہ روز شام کو ایک تقریب میں شرکت کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑا۔ میں عموماً گھر سے کم ہی نکلتا ہوں اور اپنا وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر یا پھر صبح کے اخبارات سے فارغ ہو کر کسی کتاب کے مطالعے میں گزار دیتا ہوں اس لیے مجھے علم نہیں کہ لاہور کا حدود اربہ کہاں تک پھیل چکا ہے اور سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہو چکا ہے لیکن میں جب گھر سے باہر نکلا تو جہاں مجھے پہنچنا تھا اس کے لیے مجھے گلبرگ سے گزر کر جانا تھا۔
گلبرگ جو کبھی لاہور کا جدید رہائشی علاقہ کہلاتا تھا، آج کل کاروباری مرکز ہے، ہر گلی میں دفاتر یا اسکول کالج ہیں جن کی وجہ سے دن کو اس علاقے میں سڑکوں پر گاڑیوں کی روانی میں خلل آجاتا ہے لیکن میں سرشام ٹریفک کے ہجوم میں پھنس گیا۔ گاڑی رینگتی رہی اور جب چوراہے پر پہنچی تو ٹریفک پولیس کے اہلکار سے پوچھا، اس نے بتایا کہ لاہور میں کرکٹ کا میچ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی ہے۔
مجھے یاد آ گیا کہ پاکستانی حکومت نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مدت کے بعد پاکستان میں کرکٹ کے میدان آباد کرنے کا فیصلہ کیا، اس کے لیے انھوں نے دنیا کے مختلف ممالک کے کرکٹرز کو پاکستان میں میچ کھیلنے پر قائل کیا۔ حکومت کی یہ کوشش کامیاب رہی ہے اور پاکستان میں کرکٹ کے میدان آباد ہو چکے ہیں۔
پہلے بنگلہ دیش اور سری لنکا کی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں اور اب پاکستان کے مقامی ٹورنامنٹ میں بین الاقوامی کھلاڑی بھی حصہ لے رہے ہیں۔ میں ٹریفک اہلکار کی بات سن کر خاموش ہو گیا اور اپنی اس کوفت کو بھول گیا جو ٹریفک کے اژدہام کی وجہ سے مجھ پر طاری ہو گئی تھی۔ میرے ملک کی سیکیورٹی کے حالات سیکیورٹی اداروں کی قربانیوں کی وجہ سے معمول پر آ چکے ہیں جس پر میں ان اداروں کا شکر گزار ہوں۔
میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ میں کرکٹ کا شیدائی نہیں ہوں لیکن کرکٹ اور اس کے بانی کھلاڑیوں کو جانتا ضرور ہوں۔ مرحوم حفیظ کاردار ہوں یا نیلی آنکھوں والے اوول کے ہیرو فضل محمود میری ان سے یاد اللہ رہی ہے۔ ہمارے موجود ہ وزیر اعظم عمران خان سے بھی تعلق بہت پرانا ہے اور وہ ان کے والد محترم مرحوم اکرام اللہ خان نیازی کے حوالے سے ہے جو ہمارے مشترکہ دوست مرحوم مظہر منیر کے ذریعے قائم ہوا تھا۔ پھر اس خوشگوار تعلق کو عمران خان کی ولولہ انگیز کامرانیوں نے دوام بخش دیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک شام کو جب میں بھائی ملک ریاض سے مل کر واپسی پر عمران کے گھر کے سامنے سے گزرا تو میرے ذہن میں آیا کہ یہ بھی اک نیازی کا گھر ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب جنرل نیازی کا لگایا ہوا زخم تازہ تھا اور عمران خان کی کرکٹ کے میدان میں کامیابیاں افسردہ پاکستانیوں کو جوش دلا رہی تھیں۔ اس سے پہلے میں عمران خان کی عدم موجودگی میں ان کے والدین اور بہنوں کے علاوہ ان کے چچا امان اللہ نیازی سے عمران کے بارے میں انٹرویو کر چکا تھا جو بہت مقبول ہو گیا تھا۔ مجھے معلوم نہیں عمران خان کے ہاتھ کی وہ کون سی لکیر ہے جو اس کی تقدیر کا پتہ بتاتی ہے لیکن اس کی جو زندگی ہمارے سامنے ہے اس میں کامیابیوں اور غیر معمولی شہرت ہمیں اس کا پتہ بتلاتی ہے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اپنے اسپتال کے لیے چندہ لینے جب وہ لاہور میں نکلا تو راہ چلتے لوگوں نے اس کے سامنے جیبیں خالی کر دیں۔ میں نے عورتوں کو زیور اتارتے اور اپنی عزیز ترین چیز کو عمران خان پر نچھاور کرتے دیکھا۔ دنیا بھر میں اور خصوصاً پاکستانیوں نے اس کرکٹر نوجوان کی پرستش کی، اگر یہ مسلمان نہ ہوتے تو اسے دیوتا سمجھتے۔ عمران خان کرکٹ سے کینسر اسپتال اور یہاں سے سیاست کے کینسر میں داخل ہو گیا اور آج وہ اپنے شاندار ماضی کو ساتھ لے کر سیاست کے میدان میں قسمت آزمائی کر رہا ہے۔ وہ ایک سادہ مزاج، پر جوش، پر اعتماد اور پر خلوص سیاستدان ہے جو اپنے آپ کو آئیڈیلسٹ کہتا ہے۔
ایک نظریاتی شخص جب پرویز مشرف کے قر یب تھا اور اس قرب پر وہ بعد میں پشیمان بھی ہوا تو ایک بار اس نے جنرل سے کہا کہ وہ الیکشن کمیشن عدلیہ وغیرہ کی آزادی کو یقینی بنائیں۔ اس پر جنرل نے کہا کہ اس میں تو خطرہ ہے اور پھر مشورہ دیا کہ آپ حقیقت پسند اور عملیت پسند بنیں لیکن عمران خان کا جواب مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں تو چند آئیڈیاز اور نظریات لے کر آیا ہوں، حقیقت پسندوں کے ساتھ کیسے مل سکتا ہوں۔ عمران خان کے بقول اس کی تجویز سے خطرہ ملک کو نہیں بلکہ صاحب اقتدار کو تھا۔
اس پر مجھے یونان کے فلسفی افلاطون کا ایک واقعہ یاد آیا کہ اس کی شہرت سن کر قریب کے ایک بادشاہ نے اسے بلایا کہ تم جو اچھی حکومت کے نقشے بنانے میں ماہر ہو، میرے ملک کے لیے بھی کوئی اچھا سا نظام حکومت تجویز کر دو۔ افلاطون کام میں لگ گیا، چند ماہ بعد بادشاہ کو یاد آیا کہ ایک فلسفی کو کسی کام پر لگایا تھا، اس کا کیا ہوا۔ اس نے افلاطون کو طلب کر کے جب پوچھاتو فلسفی نے جواب دیا کہ میں نے آپ کے لیے ایک خوبصورت سا نظام حکومت تو تیار کر لیا ہے مگر مشکل یہ آن پڑی ہے کہ جہاں پناہ اس میں کہیں فٹ نہیں ہوتے۔
عمران خان کرکٹ اور پاکستان کے بہت بڑے خیراتی اسپتال کے علاوہ دنیا کی بہترین یونیورسٹی کے قیام کی حیرت انگیز کامیابی کے بعد اور اپنی قبولیت عامہ کے عروج پر پہنچنے کے باوجود سیاست میں کامیابیاں سمیٹنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ وہ سوال ہے جو عوام کے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے۔
وزیر اعظم ملکی حالات، مہنگائی وغیرہ سے سخت پریشان نظر آتے ہیں، وہ اپنے سیاسی ساتھیوں کی وجہ سے بھی سخت مضطرب ہیں جس کا اظہار وہ اکثر کرتے رہتے ہیں۔ اس کے اپنے بقول وہ ایک نڈر شخص ہے، کسی سے خوفزدہ نہیں۔ جوانی میں یہ اپنا غصہ کبھی بلے بازی اور کبھی باؤلنگ سے نکال لیا کرتا تھا، آج وہ جس میدان میں ہے اس میں بڑے بڑے بولر اور بلے باز دندناتے پھر رہے ہیں، اس کھیل کے اصول اور ضابطے مختلف ہیں اور ضرورت کے تحت بدلتے رہتے ہیں، اسپورٹس مین اسپرٹ کا اس میدان سے گزر نہیں ہوا۔
عمران کو کیا معلوم تھا کہ وہ کبھی کھیل کے ایسے میدان میں بھی اترے گا جہاں کے قاعدے نرالے ہوں گے۔ بہر حال ان کو انھی قاعدوں اور ضابطوں کے ساتھ اپنی وکٹ بچانی ہے۔ فی الحال انھیں مبارک ہو کہ وہ پاکستان میں کرکٹ کے میدان آباد کر کے اس گھٹن زدہ معاشرے میں زندگی کے دن کاٹنے والے پاکستانیوں کو تفریح کا سامان فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔