میں اور میرا پاکستان
آج جب میں یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو 12مئی کی تاریخ ہے جو اتفاق سے میری سالگرہ کا دن بھی ہے اور اس کا علم مجھے اپنے پوتے، پوتیوں اور نواسوں کی طرف سے مبارکباد کے پیغامات سے ہوتا ہے جو صبح سویرے مجھے اپنی محبت بھری آوازوں سے مبارکباد دیتے ہیں اور شام کواپنے بوڑھے بابا کی سالگرہ کا دن منانے کے لیے تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔
مجھے اس بات کا یقینی علم تو نہیں کہ میں کس دن اور کس سال پیدا ہواکہ اس وقت عیسوی تاریخیں یاد نہیں رکھی جاتی تھیں بلکہ بچوں کی پیدائش کو کسی اہم واقعہ سے جوڑ کر یاد رکھا جاتا تھا، اس لیے میں اس تاریخ کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میرے شناختی کارڈ پر جو تاریخ درج ہے وہ 12 مئی ہے اور سال کا میں آپ کونہیں بتائوں گا، یہ بتا دینا ہی کافی ہو گا کہ آج کل کی صحافت کامیں ’سینئر، اخبار نویس ہوں جو قلم کی مزدوری کر رہا ہوں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی آزادی میری پیدائش کے بعد کی ہے اور میں نے اپنے بچپن میں گائوں میں ہندوئوں کی ہٹیوں سے ’شاپنگ، کی ہوئی ہے اور قیام پاکستان کے وقت گائوں کی واحد ہائی اسکول کی سرکاری عمارت پر پاکستان کاسبز ہلالی پرچم لہرانے کی تقریب کا میں عینی شاہد بھی ہوں۔ کئی دہائیاں گزر گئیں اور میں جب مڑ کر دیکھتا ہوں تو اپنی شاندارزندگی پر حیرت زدہ رہ جاتا ہوں اور یہ پوری زندگی جو نو دہائیوں کو چھو رہی ہے پاکستان پر قربان کر دیتا ہوں۔ سنگلاخ پہاڑوں میں گھرے ایک دور افتادہ گائوں میں پیدا ہونے والا یہ بچہ اگر پاکستان نہ بنتا تو انھی پہاڑوں کی وادیوں میں کہیں گم ہو چکا ہوتا۔
یہ سب پاکستان کا صدقہ ہے کہ میں عبدالقادرحسن کے نام سے ایک دنیا میں جانا جاتا ہوں اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ ایک مراعاتی اور آسودہ زندگی بسر کر رہا ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں ان دہائیوں کے ان گنت لمحوں کی آسودگی کا بدلہ کیسے اتاروں اور کون سا ایسا عمل کروں کہ پاکستان مجھے سے خوش ہو جائے اور مجھے اپنے وفاداروں اور خدمت گزاروں کی فہرست میں شامل کر لے۔ اگر میں اس فہرست میں اپنا نام نہ لکھوا سکا تو مجھ سے زیادہ بے شرم اور غدار کوئی اور نہیں ہو گا۔
میں تو خوف کے مارے یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو کیا ہوتا، میں تو اپنا جائزہ لیتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ مجھ میں ایسی کون سی صلاحیت تھی کہ جس کا مجھے اس قدر شاندار انعام ملا ہے اور سوچ سوچ کر اس فیصلے پر پہنچتا ہوں کہ مجھ میں اگر کوئی تھوڑی بہت صلاحیت تھی بھی تو اتنی ہر گز نہیں تھی کہ پاکستان کی اس قدر فرواں عنایات کا سزاوار ٹھہرتا لیکن یہ آزادی تھی اور اس مسلمان آزاد ملک کے لیے قدرت کی بے پایاں فیاضیاں تھیں کہ رحمت اور برکت کے اس بہتے ہوئے دریا کے قریب سے گزرنے والوں کی پیاس بھی بجھتی رہی۔ ایک خوشبو تھی جو چہار سو پھیلتی رہی، ایک روشنی تھی جس نے کوئی کونا بھی تاریک نہ رہنے دیا۔ پاکستان ایک من وسلویٰ تھا جو زمین پر آباد انسانوں پر دوسری بار اتارا گیا۔
پاکستان نے اپنا سفر نہایت ہی ناداری کی حالت میں شروع کیا لیکن بہت جلد اس کے راستے گل وگلزار بن گئے۔ راستوں پر ثمر سے لدے ہوئے پیڑ جھکنے لگے، انعامات الٰہی کی ایک دھواں دھار برسات تھی جس نے سب کو نہال کر دیا۔ دنیا حیرت زدہ رہ گئی کہ ایک ملک جو ماہرین کے خیال میں معاشی اعتبار سے ناقابل عمل تھا اس قدرخوشحال کیسے بن گیا، کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
مرحوم میاں ممتاز دولتانہ ایک دن کہنے لگے کہ لندن میں ان کی سفارت کاری کے زمانے میں بھارت کے سفیر سے ان کا ملنا جلنا ہو گیا جو بعد میں پاکستان میں بھارت کے سفیر بھی بن گئے، ایک دن میاں صاحب سے کہنے لگے کہ ایک بات سمجھ میں نہیں آتی، ہم بھارت میں جو منصوبہ بھی بناتے ہیں وہ بہت حد تک درست ہوتا ہے اور اس پر بڑی محنت کے ساتھ عمل کیاجاتا ہے لیکن آپ کے ہاں پاکستان میں نہ تو کوئی ترقیاتی منصوبہ ڈھنگ سے بنتا ہے اور نہ ہی اس پر پوری طرح عمل کیا جاتا ہے لیکن اس کے باجود آپ دن بدن خوشحال ہوتے جارہے ہیں اور ہم غریب، یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ آپ ہی کچھ سمجھائیں۔
دولتانہ صاحب کیا سمجھاتے، کوئی قاعدے قانون کی بات ہوتی تو وہ سمجھاتے بھی، بس جو کچھ ہو رہا تھا وہ کسی نہ کسی طرح ہوتا چلا جارہا تھا۔ دولتانہ صاحب کو جب کوئی ٹھوس جواب نہ سوجھ سکا تو انھوں نے ہنس کر کہا، نٹور ہم آپ سے یہی تو کہتے تھے کہ یہ مملکت خداداد ہے، اس کی مخالفت نہ کرو، اب خود ہی دیکھ لو کہ کس طرح یہ مملکت ترقی کی منزلیں مارتی چلی جارہی ہے۔
قارئین بھی سوچیں گے کہ میں کیا باتیں لکھ رہا ہوں اور کس زمانے کی بات کررہا ہوں، یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی ہیروئن ایجاد نہیں ہوئی تھی اور اسمگلنگ کا بھی کوئی خاص رواج نہیں تھا جس کو آج پاکستان کی متوازی معیشت کہا جاتا ہے۔ کرپشن کانام ضرور سنتے تھے اور تھوڑی بہت ہوتی بھی ہوگی لیکن جس ڈھٹائی اور بے حیائی سے اب ہو رہی ہے اس زمانے میں اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ سیدھا سادہ زمانہ تھا لیکن برکت سے بھرا ہوا زمانہ۔
ایک مشہور صنعت کار سعید سہگل مرحوم کہا کرتے تھے کہ ہاتھ سے مٹی اٹھاتے ہیں اور جب کھولتے ہیں تو وہ سونا بن چکی ہوتی ہے۔ میں آپ سے کیا عرض کروں کہ میرا گائوں جہاں سے کبھی کبھار کوئی لاری گزرتی تھی، آج گائوں میں لوگوں کے استعمال میں ذاتی گاڑیاں ہیں اور گائوں کی بڑی شاہراہ سے گزرنے والی عوامی ٹرانسپورٹ کا کوئی شمار نہیں ہے، زندگی کی ہر جدید سہولت دستیاب ہے اور ان سہولتوں میں میرے بچپن کا گائوں گم ہو چکا ہے۔ روائتیں ماند پڑ چکی ہیں اور شہروں کی طرح افراتفری دیہات میں بھی پہنچ گئی ہے۔ دیہات سے شہروں میں آئیں تو گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ نہیں ملتی، دکانوں میں خریداروں کے ہجوم کی وجہ سے لائنوں میں لگنا پڑتا ہے، درودیوار سے خوشحالی اور فراوانی پھوٹ رہی ہے لیکن حکومتوں کی بدنظمی کی وجہ سے کوئی بہت زیادہ امیر ہے اور کوئی خودکشی کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود خدا چھپڑ پھاڑ کر دے رہا ہے اور ہم کھا رہے ہیں۔
اب بدہضمی بھی ہونے لگی ہے اور قتل و غارت اور بد عنوانی اسی بدہضمی کی علامات ہیں۔ پاکستان میں جو خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں وہ پاکستان کی نہیں ہم پاکستانیوں کی پیدا کی ہوئی ہیں، ہمارے سیاستدانوں نے قوم کو مسلسل پریشان کر رکھا ہے، قوم متحد ہونا چاہتی ہے مگر ہمارے بڑے اسے متحد نہیں ہونے دیتے۔ اس سب کے باجود پاکستان عظیم ہے، ہماری آپ کی اوقات سے بڑھ کر۔ ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر اگر دیکھیں کہ پاکستان نے ہمیں ہماری اوقات سے کتنا زیادہ دے رکھا ہے۔