حکمران سے قوم کی امیدیں ابھی قائم ہیں
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جو بھی حکمران تخت پر بیٹھا اس نے اپنے دور حکمرانی میں کئی ایسے اعلانات اور وعدے کیے جو راستے میں ہی دم توڑتے رہے۔ جب بھی کسی حکمران کی جانب سے عوامی فلاح و بہبود کا کوئی اعلان ہوتا ہے تو لوگ اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے کیونکہ انھیں اس وعدے کی وفا کا یقین نہیں ہوتا لیکن امید پر دنیا قائم ہے اور یہ دنیا ہر حکمران کے دور مین قائم ہی رہی۔
حکمرانوں کے خوش کن وعدوں پر ایک لطیفہ یاد آیا ہے جو شائد میں پہلے بھی کبھی لکھ چکا ہوں۔ ایک تھا بادشاہ اس کو اپنے ایک خوبصورت گھوڑے سے پیار ہی نہیں عشق بھی تھا وہ اپنے اس گھوڑے سے پہروں باتیں کرتا رہتا لیکن یہ بے زبان جانور جواب نہیں دیتا تھا۔
ایک دن بادشاہ کو خیال آیا کہ اگر کوئی شخص اس گھوڑے کو کسی طرح بلوا دے اسے زبان دے دے اور یہ مجھ سے باتیں کرنے لگے تو میں اس شخص کو نہال کر دوں گا۔ چنانچہ بادشاہی میں اس کا اعلان کر دیا گیا کہ اگر کوئی ایسا شخص ہے جو بادشاہ کے محبوب گھوڑے کو قوت گویائی دے سکے تو دربار میں حاضر ہو اسے انعام و اکرام سے مالا مال کر دیا جائے گا۔ رعایا میں یہ شاہی اعلان دور دور تک پھیل گیا مگر کس میں ہمت تھی کہ وہ کسی ایسے ناممکن کام کی حامی بھر سکتا جب کہ اس اعلان کا آخری حصہ یہ تھا کہ چھ ماہ میں اگر وہ کامیاب نہ ہو سکا تو اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔
یہ اعلان رعایا کے ایک نہایت غریب آدمی نے بھی سنا جو غربت کے ہاتھوں اس قدر تنگ تھا کہ آج کی طرح خود کشی کرنے کا بھی سوچا کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے بہت غورو فکر کے بعد قسمت آزمانے کا فیصلہ کر لیا اور دربار میں حاضر ہو گیا۔ اصطبل کے داروغے نے ایک بار پھر اسے شاہی اعلان سے آگاہ کیا اور مال و منال کے علاوہ گردن زنی کا حکم بھی سنایا لیکن وہ آدمی جو پہلے سے تیار سب مان کر کام کرنے پر آمادہ ہو گیا۔
اس کے بعد اسے پیشگی مال بھی دے دیا گیا اورشاہی اصطبل میں اس کی معقول رہائش کا بھی بندوبست کر دیا گیا۔ چنانچہ اس نے صبح و شام شاہی گھوڑے کی منت سماجت شروع کر دی۔ اس دوران اس کے ایک دوست کو جب اس کی حماقت کا پتہ چلا تو وہ بھاگم بھاگ اس کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھا کہ تم نے اپنی زندگی کیوں داؤ پر لگا دی ہے۔ پہلے تو اس نے اپنی ناآسودگی سے اپنے دوست کو آگاہ کیا پھر اس سے کہا کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ بادشاہ بہت بیمار ہے میں ایک شاہی طبیب کے ہاں ملازمت کرتا رہا ہوں میں اس سے ملنے گیا تو وہ کسی دوست سے کہہ رہا تھا کہ بادشاہ کو کئی ایسے عوارض لاحق ہیں کہ اس کے زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی امید نہیں ہے۔
خود میں نے بھی سوچا کہ جو شخص گھوڑے کو بلوانے اور اس کی قوت گویائی کو ممکن سمجھتا ہے اس کو کم ازکم دماغی عارضہ ضرور لاحق ہے۔ اس لیے امید ہے کہ بادشاہ اس مقررہ مدت میں اللہ کو پیارا ہو جائے گا۔ پھر میں نے یہ بھی سنا ہے کہ پڑوس کے بادشاہوں تک بھی ہمارے بادشاہ کی بیماری کی خبر پہنچ چکی ہے انھوں نے سوچا ہے کہ اس بڑھاپے میں انسان کی قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے، ولی عہد بھی نکما اور عیاش ہے اس لیے یہ وقت حملہ کرنے کے لیے اور ملک پر قبضہ کرنے کے لیے بہت موزوں ہے۔ چنانچہ مجھے امید ہے کہ آیندہ دو تین ماہ میں دشمن حملہ کر دیں گے اور یہ بادشاہت ختم ہو جائے گی اور میرے دوست اگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا تو ہو سکتا ہے کہ گھوڑا ہی بول پڑے۔
ہمارے آج کے حکمران عمران خان بھی قوم سے وعدے کرنے میں اپنے پیشرو حکمرانوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں، انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی چند نکات کا ذکر کیا تھا اب ان سمیت کسی کو یاد ہی نہیں ہیں اور میرا تو یہ حال ہے کہ مجھے ان نکات کی صحیح تعداد بھی یاد نہیں ہے۔ انھوں نے ایک زبردست وعدہ بے روزگار نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں دینے کا بھی کیا تھا اس کے علاوہ بے گھر افراد کے لیے لاکھوں گھر تعمیر کرنے کا خوش کن وعدہ بھی کیا تھا یعنی انھوں نے بھٹو صاحب کے نعرے روٹی کپڑا اور مکان کی نقل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن حکمرانی میں آتے ہی حالات ایسے بدلے کہ لگتا یوں ہے وہ اپنے وعدوں کو خود بھی بھول گئے ہیں۔
اس کے علاوہ ملک میں مہنگائی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کے علاوہ ملکی دولت لوٹنے والے چور لٹیروں کو بھی پکڑنے کا وعدہ کرنے کے علاوہ دیگر تمام عوامی مصائب اور مسائل کو حل کرنے کے اعلانات بھی کیے لیکن تادم تحریر ان کا کوئی اعلان بھی ابھی تک سرے نہیں چڑھ سکا مگر قوم خاموشی اور تحمل کے ساتھ ان کے وعدے اور اعلانات پر اعتبار کرتی چلی جا رہی ہے کہ شاید یہ پورے ہو ہی جائیں، اگر کسی گھوڑے سے بولنے کی امید لگائی جا سکتی ہے تو کسی حکمران سے اس کے وعدے پورے کرنے کی امید کیوں نہیں باندھی جا سکتی۔
تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ وزیر اعظم نے خود اعلان کیا ہے کہ ملک میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ نہیں کیا جائے گا خدا کرے وہ اپنے اس اعلان پر قائم رہیں کیونکہ گرمیاں سر پر کھڑی ہیں اور روایت یہ رہی ہے کہ سردیوں میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور گرمیوں میں بجلی کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔
اوپر سے آئی ایم ایف بھی ڈنڈا اٹھائے سر پر کھڑی ہے کہ عوامی استعمال کی ان دونوں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جائے تا کہ قرضوں کی مد میں دی گئی ان کی رقم کھری ہو سکے۔ پٹرول کی قیمتوں میں وزیر اعظم کی خواہش کے باوجود وہ کمی نہیں کی گئی جس کا انھوں نے حکم دیا تھا اس کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ ہمارے خزانہ کے محکمے میں آئی ایم ایف کے خیر خوا موجود ہیں جو عوام کو کوئی آسانی فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
وزیر اعظم کی نیت پر شک کی کوئی گنجائش نہیں لیکن یہ عین ممکن ہے کہ عالمی ساہوکاروں نے حکومت کے ہاتھ باندھ رکھے ہوں۔ ہمیں اپنا حال اچھی طرح معلوم ہے اور اپنے اصطبل میں موجود گھوڑوں کو ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں ان سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں اور امید پر دنیا قائم ہے۔