حکمران قوم کو مایوس نہ کریں
ہمارے حکمران کو بالآخر قوم کی غربت پر ترس آ ہی گیا ہے اور اس نے فوری طور پر ملک میں ہزاروں نئی دکھانیں کھولنے اور پہلے سے موجود یوٹیلٹی اسٹورز پر روزمرہ استعمال کی اشیاء سستے داموں فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے واضح اور صاف شفاف الفاظ میں قوم کے لیے رعایتی نرخوں پر اشیاء کی فراہمی ممکن بنانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
عمران خان کو قوم نے اس وعدے پر ووٹ دیے تھے کہ وہ ملک کا چوری کیا گیا پیسہ واپس لائیں گے چوروں کو کٹہرے میں کھڑا کریں گے لیکن بد قسمتی سے وہ چوروں کوکٹہرے میں کھڑا کرنے میں تو کامیاب ہو گئے ہیں لیکن ان چوروں کے خلاف ابھی تک ان کی حکومت کچھ بھی ثابت نہیں کر سکی جس کی وجہ سے ان چوروں کو عدالتوں سے ریلیف ملنا شروع ہو گیا ہے۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ اس ریلیف کے پیچھے بھی کچھ ایسے ہاتھ کار فرما ہیں جو ان چوروں کی حفاظت کر رہے ہیں، اس لیے باری باری چور آزاد ہوتے جا رہے ہیں۔
عمران خان پر عزم تھے کہ وہ ملک کی لوٹی گئی دولت کو قومی خزانے میں واپس لائیں گے لیکن وہ بھی شاید اقتدار کی مصلحتوں کا شکار ہو گئے ہیں، انھوں نے جن لوگوں کو اپنا دست بازو بنایا ہے، وہ عوام کی نظروں میں اچھی شہرت کے حامل نہیں ہیں، اس کے علاوہ ابھی تک حکومت میں شامل یہ لوگ عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے بلکہ انھوں نے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے جن کی وجہ سے عمران خان اپنے وعدوں پر عملدرآمد میں ابھی تک ناکام رہے ہیں۔
میں عمران خان کے بارے میں ردعمل میں محتاط اس لیے ہوں کہ قوم نے بڑی امیدوں کے ساتھ ان کو اقتدار دیا ہے، قوم نے گزشتہ ستر برسوں میں بہت دکھ سہے ہیں، عمران خان کی صورت میں ان کو اپنا نجات دہندہ نظر آیا حالانکہ اسے قبل بھی قوم نے ایسی کئی تقریریں سنی ہیں اور ان میں کہی گئی باتوں کی تکفین و تدفین میں شرکت بھی کی ہے، خدا نہ کرے کہ اب ایسا ہو کیونکہ ہمارے پاس اب وقت بالکل نہیں ہے اور غلطی کی ذرا بھر گنجائش باقی نہیں رہی۔ ہم قرآن کے الفاظ میں تباہی کے گڑھے کے بالکل کنارے پر کھڑے ہیں، ذرا سی غلطی ہمیں اس کے اندر گرا سکتی ہے اور شکر ہے کہ اس کا ہمارے حکمرانوں کو احساس ہے جو ان کی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے۔
عمران خان اور ان کے حواریوں نے جو کچھ کرنا ہے وہ تو انھیں کرنا ہی ہے میں ان کی خدمت میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اس قوم میں ابھی تھوڑی سی جان باقی ہے لیکن اس قدر زخم خوردہ ہے کہ اس کا اعتماد بحال کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ بڑا کام کسی قول سے نہیں عمل سے ہو گا۔ انصاف عدل اور قانون کی بالادستی وہ بنیاد ہے جس پر اعتماد اور یقین کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔
عمران خان ایک نیک نام سیاستدان ہیں اور وہ جس شعبے سے منسلک رہے ہیں، اس میں وہ بہادری اور جرات سے لڑتے رہے ہیں، انھوں نے کبھی ہار نہیں مانی، وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اور ہمیں ضرورت بھی ایسے ہی وصف کی ہے جو بدی کی قوتوں کو تہس نہس کر دے اور اپنے عمل سے عوام کو آسانیاں فراہم کرے۔ ہمارا سب سے بڑا اور طاقتوردشمن کرپشن اور بد عنوانی ہے جو قوم کے زخم خوردہ جسم میں سرایت کر چکی ہے، اس کو ختم کرنے کے لیے بڑے ہی طاقتور انٹی بائٹک کی ضرورت ہے، عمران خان پر عزم ہیں کہ وہ عوام کو مہنگائی کے چنگل سے آزاد کرا لیں گے۔
کسی کو یہ توقع نہیں ہونی چاہیے کہ عمران خان چند دنوں میں یا مختصر وقت میں سب کچھ ٹھیک کر دے گا جس خرابی کو پیدا ہوئے اور پرورش میں ستر برس ہو گئے ہوں، وہ ایک دو سال میں دور نہیں کی جا سکتی لیکن ایک بات چند دنوں میں ہو سکتی ہے اور وہ ہے پختہ اور نیک ارادے کا عملی اظہار۔ ایک ایسا اظہار جسے ہر کوئی دیکھ سکے اور ہر ایک کو نظر آ سکے۔ میں اکثر عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارا ملک غریب نہیں ہے، اسے غریب بنایا گیا ہے۔
جناب عمران خان بارہا اس بات کا ذکر کر چکے ہیں، وہ ملکی وسائل کا بھی ذکر کرتے رہتے ہیں لیکن اگر ہم ایک اچھی حکومت قائم کر سکیں جو ملک کا نظم و نسق انصاف اور عدل کی بنیاد پر استوار کر سکے تو پھر یہ قومی دولت ہمیں انشاء اللہ چند برسوں میں غنی اور امیر کر دے گی۔ پاکستان میں جتنی مزروعہ زمین ہے اتنی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں اور اس زمین کو آبپاشی کرنے کا جو نظام ہے دنیا کے کسی ملک کے پاس اتنا اچھا اور وسیع نظام موجود نہیں ہے، اس پر پاکستان کی افرادی قوت کا اضافہ کر دیجیے۔ جن لوگوں نے عربوں کے ریگزاروں کو گل و گلزار بنا دیا ہے، وہ اپنے آباد وطن کو کیا نہیں بنا سکتے۔
لیکن یہ دولت ضایع ہو گئی کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے ظلم اور نا انصافی سے عوام کو اس قدر تنگ کر دیا کہ وہ وطن عزیز سے بددل ہو کر باہر چلے گئے، زمینیں اور پانی ان کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ یہی حال معدنی وسائل کا کیا گیا ہے اور یہی حال اس پاکستانی ذہن کا کیا گیا ہے جو دوسروں کے ملکوں کو اپنی ذہانت اور مہارت سے مالا مال کر رہا ہے۔ پاکستانی قوم کی کن الفاظ میں مدح و ثنا کی جائے کہ بد ترین حالات میں بھی اس نے ایٹم بم بنا لیا اور میزائلوں کا کامیاب نظام قائم کر دیا۔ دنیا مانتی ہے کہ ان جدید ترین شعبوں میں ہم فنی لحاظ سے اپنے دشمن سے برتر ہیں۔
میں یقین کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ اس ایک پاکستانی کو پاکستان کے بائیس کروڑ پاکستانیوں کا نمایندہ سمجھ لیجیے کہ اگر حکمرانوں نے قوم کو مایوس نہ کیا تو قوم اپنے تعاون سے ان کو حیرت زدہ کر دے گی۔ برسوں کا سفر مہینوں اور مہینوں کا سفر دنوں میں طے کرے گی۔ اس مٹی کو زرخیزی کے لیے بس ذرا سا نم چاہیے۔ پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے۔